جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
اس وقت ہندوپاک پر جنگ کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں اور دونوں طرف سے میزائل اور بم وقتاً فوقتا ایک دوسرے کی سرحدوں کے اندر برسائے جارہے ہیں۔جس میں مجرموں کا تو پتہ نہیں ہاں !غریبوں ،بے گناہوں اور عام لوگوں کے جان ومال کا اتلاف ہورہا ہے ۔بے شک !ہم اس نازک گھڑی میں ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے اپنے ملک کے ساتھ کھڑے ہیں اوراعلان کرتے ہیں کہ:
دل سے نکلے گی نہ مرکر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
میں سب سے پہلےہندوپاک کے درمیان بھڑکنے والی اس آگ سے متعلق چند گوشے کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں:
۱۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم سب سے پہلے انسان ہیں اورجنگ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔یہ دومذاہب کے درمیان جنگ نہیں ہورہی ہے بلکہ یہ دوانسانی گروہ کے درمیان جنگ ہے۔اگر ہند کی وسیع وعریض سرزمین پر بیس کروڑ مسلمان رہتے ہیں تو ہمارے چھوٹے سے پڑوسی ملک پاکستان میں بھی ایک کروڑ سے زائدہندؤوں کی آبادی ہے۔اگرہمارے ملک میں ہندؤوں کو نقصان ہوگا تو وہیں مسلمانوں کو بھی دردجھیلنا پڑے گااور اگر وہاں مسلمانوں کا نقصان ہوگا تو ہندوبھی محفوظ نہیں رہیں گے : ع
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
۲۔اس شرسےخیر کا پہلو یہ نکلا کہ انڈین آرمی نے ابتدائی کمانڈنگ رول کے لیے ایک مسلم خاتون ’’کرنل صوفیہ قریشی‘‘کا انتخاب کیا،جس کے ذریعہ فوج نے جہاں پاکستانی حکومت ،فوج اوردہشت گردوں کو ایک خاص پیغام دیاہے، وہیں اس سےاپنے وطن کےبھگوا دہشت گردوں کے منھ پر بھی زناٹے دار طمانچہ پڑا ہے۔آج کرنل صوفیہ قریشی جسے کل تک کوئی نہ جانتا تھا وہ پورے ہند کی شان بن گئی ہے۔مسلمانوں کا بھی سینہ چوڑا ہوگیااوروطن عزیز کےہمارےسیکولرلوگ بھی بڑے فخر سے نفرت پھیلانے والے لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ ــدیکھو!مسلمان صرف پنچر نہیں بناتے بلکہ میزائل بھی بناتے ہیں ،جنگی جہازبھی اڑاتے ہیں اور اپنے وطن کی حفاظت کے لیے جاں کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔بقول عمران ؔپرتاپ گڈھی؎
کس نے کہہ دیا تم سے کہ بس پنچر بناتے ہیں؟
وطن پر ہنس کے جوکٹ جائیں ،ایسا سر بناتے ہیں
۳۔پاکستان کشمیر کے مسلم آبادی والے رہائشی علاقوں میں گولہ باری کررہا ہے،جس میں کئی جوان العمر مسلمانوں کےساتھ بچے بھی شہید ہوئے۔پونچھ کے علاقے میں اسی پاکستانی حملے میں قاری محمد اقبال بھی شہید ہوئے جو وہاں کے ایک مدرسے میں تقریباً بیس سالوں قرآن کا درس تھے ۔اس میں ہمارے ان کشمیری بھائیوں کے لیےجو پاکستان کے بڑے بہی خواہ ہیں،ایک سبق ہے۔انھیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سیاسی لوگ کسی کے نہیں ہوتے اور ایک زمانے ہندوپاک کی کشیدگی دونوں طرف کے سیاست دانوں کی مرہون منت ہے۔
۴۔اس نازک موقع پر بھی بدبخت گودی میڈیا جھوٹ،فریب،مکراورنفرت کا ایجنڈہ چلاکر ذریعہ بھارت کی ساکھ خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔پاکستانی حملے میں شہید ہونے والے قاری محمد اقبال مرحوم کو پاکستانی دہشت گرد ،لشکر طیبہ کا آتنک وادی اور پلواما حملے کا ماسٹرمائنڈ اور نہ جانے جانے کیا کہہ کر خبر چلادی،لیکن جب حقیقت کھلی تو منھ چھپانا پڑا اورمعافی مانگنی پڑی ۔یہاں تک کہ پہلی بار حکومت ہند کے نمائندے نے اس سے اپنا پلا جھاڑا اور اپنےمین اسٹریم میڈیا کی تردید کی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کواس جھوٹے پروپگنڈے کے ذریعہ ملک اور فوج کے وقار کوزبردست ٹھیس پہنچانے والے اس میڈیا ہاؤس کے خلاف ایکشن نہیں لینا چاہیے۔ان کے خلاف اگر کارروائی نہیں ہوتی تو عوام یہ بھی جاننا چاہتی کہ آخر کیوں؟؟
جنھوں نے جنگ نہیں دیکھی ہے یاجنگ کی ہولناکی کا اندازہ نہیں وہ اسے ہندووپاک کے کرکٹ میچ کی طرح سمجھ رہے ہیں ۔ویسے بھی ہمارا بھڑکاؤمیڈیا انڈووپاک کے میچ کو ٹی وی پر جنگ کی طرح ہی دکھاتا رہا ہے۔جس میں چند گھنٹوں میں ہار جیت کا فیصلہ ہوجاتا ہے ۔ گذشتہ کئی سالوں سے بھارت کی کرکٹ ٹیم پاکستانی ٹیم پر حاوی رہی ہے،اس لیے ہمارے احمق نوجوانوں کی جماعت اسے میچ پر ہی قیاس کررہی ہے ۔بھارتیہ بندر میڈیاکی ٹولی شام تک اور صبح تک کراچی اور اسلام آباد میں پہنچ کر چائے پینے کی بات کرتی ہے تو یہ عقل کے مارے اس پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں۔جب برسہا برس سے اسرائیل جیسا سپرپاور اپنی ساری طاقت جھونک کربھی فلسطین جیسے بے یارومددگار چھوٹے سےملک کو ختم نہ کرسکا توپاکستان جیسی ایٹمی طاقت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی بات کرنا دیوانے کی بڑ جیسی ہے۔
جنگ ایک ایسا لفظ ہے جو انسانوں کے ذہنوں میں خوف، دہشت اور تباہی کی تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو نہ صرف ایک قوم بلکہ پوری انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے جاتا ہے۔ جنگ کے منفی اثرات اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ انہیں لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔لاکھوں افراد ہلاک ہو جاتے ہیں، لاکھوں زخمی ہو تے ہیں۔ جنگ خاندانوں کو تباہ کر دیتا ہے اور معاشرے کی سماجی ساخت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ جنگ میں شریک ہونے والے افراد کو شدید جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زخمیوں کو جسمانی اعضاء کا نقصان ہوتا ہے، جبکہ جنگ کے خوف اور تشدد کا ذہنی اثرات انہیں زندگی بھر متاثر کرتے رہتے ہیں۔ جنگوں کے باعث لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ مہاجر بن کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جہاں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جنگوں سے معیشت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ صنعت و تجارت بری طرح متاثر ہوتی ہے، سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور ملازمت کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ جنگوں پر لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ یہ وہ وسائل ہیں جو تعلیم، صحت اور سماجی ترقی پر خرچ کیے جا سکتے تھے۔ جنگوں کے باعث غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ اپنی روزگار کھو دیتے ہیں، گھر بار تباہ ہو جاتے ہیں اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جنگوں سے سماجی استحکام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ خاندانوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، سماجی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور معاشرے میں نفرت اور تشدد کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ جنگوں کے باعث تعلیمی ادارے اور طبی مراکز تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس سے تعلیم اور صحت کے نظام کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ جنگوں کے دوران استعمال ہونے والے ہتھیار ماحول کو شدید آلودہ کرتے ہیں۔ اس سے زمین، پانی اور ہوا آلودہ ہو جاتی ہے، جس کے نتائج انسانی صحت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
جنگ ایک انسانی المیہ ہے۔ اس کے منفی اثرات وسیع پیمانے پر پھیلتے ہیں اور ان کے نتائج کئی نسلوں تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔جنگ کی بات وہی کرسکتا ہے جسے جنگ کے نقصانات کا صحیح اندازہ نہیں۔پہلی جنگ عظیم ،دوسری جنگ عظیم،امریکہ ویتنام جنگ،چین جاپان جنگ،ہندوستان پاکستان جنگ،ایران عراق جنگ ،روس یوکرین جنگ اور اس جیسی دیگر جنگوں کے بارے جانیں ،پڑھیں اور غور کریں تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔نہ جانے کتنی ایسی جنگیں ہیںکہ جن کو گذرے برسوں بیت گئے،کئی نسلیں گذرگئیں مگر آج بھی ان ملکوں اورنسلوں میں تباہی کے آثار نظر آتے ہیں۔اس لیے ساحرؔلدھیانوی کے ان سبق آموزاشعارپر قلم بند کرتا ہوں؎
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
سید سیف الدین اصدق چشتی