Paigham-e-Islam

جیسی عوام ویسے حکمران

جیسی عوام ویسے حکمران

جیسی عوام ویسے حکمران

جام شہود کے لیے جس وقت میں یہ اداریہ لکھ رہا ہوں ،اس وقت پورے بھارت میں عام انتخابات کا چرچا ہے۔۱۹؍اپریل سے شروع ہوکر یکم جون تک سات مراحل میں ہونے والے اس انتخاب کا نتیجہ ۴؍جون کو آنا ہے۔اوپر سے لے کر نیچے تک ہر سمجھ داراور دیش پریمی انسان کو یہ بات سمجھ میں آچکی ہے کہ اگر اس بار بی جے پی اقتدار میں آگئی توملک تباہ ہوجائے گا۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکرکا بنایا ہوا نہ بھارت کا آئین رہے گا،نہ امن وامان اور خوش حالی رہے گی اور نہ ہی دوبارہ ملک میںکوئی انتخاب ہونے والاہے۔یہی وجہ ہے کہ ساری اپوزیشن جماعتیںاور غیرمتعصب سیکولرغیرمسلم اپنے اپنے طور پر پوری شدومد سے ’’بی جے بی بھگاؤ،دیش بچاؤ‘‘کے سلوگن کے ساتھ میدان عمل میںمتحرک وفعال ہیں۔یقیناً بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آئی تو ہرکسی کوشدید نقصان پہنچے گامگر اس زہرونفرت کے طوفان بلاخیز کی زد میں سب سے زیادہ جس کو آنا ہے وہ مسلمان ہیں۔ان کی دینی شناخت،مقدس مقامات،آثار وعلامات اور وہ سب کچھ جو ایک مسلمان کو مسلمان بناتی ہے ختم کردیاجائے گا۔جس کی شروعات تو کئی سالوں پہلے ہوچکی تھی مگر اسے مکمل انجام آنے دنوں میں دینے کی تیاری ہے۔
سیاسی اعتبار سے تو بھلے ہی بھاجپا کی زمین سرکتی نظر آرہی ہے مگر مذہبی نکتۂ نظر سے ہمیں نہیں لگتا کہ یہ حکومت ابھی جانے والی ہے،اور اگر چلی بھی گئی تو مسلمانوں کے اچھے دن نہیں آنے والے ہیں۔اللہ ورسول کی کھلم کھلا نافرمانیوں اوربداعمالیوں کی بنیاد پر ظالم وجابرحکمران کا قوم پرمسلط ہونا غضب الہٰی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ وہ کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں!!جھوٹ وفریب،مکرودجل،حرص وبخل،ریاودکھاوا،نشہ وزنا،سودورشوت،ظلم وزیادتی،قتل وغارت گری،غداری ومفادپرستی،علاقائی تعصب،ذات پات کی لعنت، مسلکی ومشربی فرقہ بندی،دین کے نام پر فتنہ و فساد اوروہ کون سا خلافِ انسانیت کام ہےجس میں آج کا مسلمان ملوث نہیں بلکہ تمام لغویات وفضولیات میں مسلمان دوسری قوموں کے مقابلے میں سرفہرست نظر آتا ہے۔جناب اقبالؔ نے سچ کہا تھا؎
وضع میں تم ہو نصاریٰ  تو  تمدّن  میں  ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی  ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ  تو  مسلمان  بھی  ہو!
دنیا بھر کےغیرمسلم مفکرین کایہ متفقہ فیصلہ ہےکہ دنیا کا سب سے بہترین نظام ،نظام اسلام ہے اور بدترین قوم ،قوم ِ مسلم ۔مسلمانوں کے گھر میں صاف وشفاف میٹھے پانی کا چشمہ بہہ رہا ہے مگر افسوس!یہ غیروں سےگدلے اور کھارے پانی کی بھیک مانگ رہی ہے۔ جس فحاشی وعریانیت سے اہل مغرب تنگ آچکے ہیں اور اس سے جان چھوڑانا چاہتے ہیں وہیں دوسری جانب ان ہی حیا سوز حرکتوں کو مسلمان بہت شوق سے اپنا رہے ہیں ۔ایسی قوم کے لیےہی یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ظَهر الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَهم بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهم یَرْجِعُوْنَ(الروم:۴۱)یعنی: ”خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں سے کی ہوئی بداعمالیوں کے سبب فساد پھیل گیا،تاکہ اللہ انھیں ان کےبعض کرتوتوں کا مزہ چکھائے،شاید وہ باز آجائیں“۔
  ایک اور جگہ ارشاد فرمایا گیا :  وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ(الشوریٰ:۳۰)(”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے  اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہےاور بہتسی باتوں کو تو وہ معاف فرمادیتا ہے)
ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیے ہوئے بُرے اعمال ہیں، اور یہ بات بھی واضح طور پر سمجھ میں آرہی ہے کہ اگر بُرے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اورفسادات وغیرہ بھی نہ ہوں گے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرماں برداری سببِ سکون ہے“۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں(یعنی میرے قبضہ قدرت میں ہیں) لہٰذا جب میرے بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (ظالم ) بادشاہوں کے دلوں کو رحمت وشفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (عادل ونرم خو) بادشاہوں کے دلوں کو غضب ناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ (بادشاہ ) ان کو سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں، اس لیے (ایسی صورت میں ) تم اپنے آپ کو ان بادشاہوں کے لیے بدعا کرنے میں مشغول نہ کرو، بلکہ (میری بارگاہ میں تضرع وزاری کر کے اپنے آپ کو (میرے ) ذکر میں مشغول کرو، تاکہ میں تمہارے ان بادشاہوں کے شر سے تمہیں بچاؤں ۔(مشکاۃ المصابیح)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی بھلائی چاہتا ہے تو اچھوں کو ان پر مقرر کرتا ہے اور کسی سے برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو بروں کو ان پر مقرر فرماتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جو قوم ظالم ہوتی ہے اس پر ظالم بادشاہ مقرر کیا جاتا ہے تو جو اس ظالم کے پنجۂ ظلم سے رہائی چاہیں انہیں چاہئے کہ ظلم چھوڑ دیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۲ / ۵۶)
امام بیہقی نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ : اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کا بادشاہ اس زمانہ والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتا ہے۔
حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مشہور قول ہے :’’عُمّالُكُمْ اَعْمالُكُمْ،كَما تَـكونونَ يُوَلّٰى عَلَيْكُمْ‘‘( رواہ الديلمي )یعنی تمہارے حکمران تمہارے اعمال کا عکس ہیں ۔ اگر تمہارے اعمال درست ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی درست ہوں گے ، اگر تمہارے اعمال خراب ہوں گے تو تمہارے حکام بھی خراب ہوں گے ۔یعنی جیسی عوام ہوگی ویسے ہی حکمران ہوں گے۔
حضرت منصور ابن الاسود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام اعمش رحمہ اللہ سے اس آیت’’  وَكَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(اور یوں ہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں۔انعام:۱۲۹)کے بارے میں پوچھا؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے اس بارے میں سنا ہےکہ : جب لوگ خراب ہوجائیں گے تو ان پر بدترین حکمران مسلط ہوجائیں گے‘‘۔
اس آیتِ مبارکہ میں ظلم کرنے والوں کے لئے بڑی نصیحت ہے۔چنانچہ معروف مفسرقرآن سیدنا اسماعیل حقی رحمہ اللہ (م:۱۱۲۷ھ )اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں:یعنی جس طرح ہم نے جنوں اور انسانو ں کو رسوا کیا یہاں تک کہ انھوں نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا اسی طرح ہم ظالموں میں سے ایک کو دوسرے پر ان کے اعمال کی وجہ سے مسلط کردیتے ہیں اور ظالم کی ظالم کے ذریعے پکڑ فرماتے ہیں۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۳ / ۱۰۴)
اس آیت کریمہ میں ظلم کرنے والوں کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر وہ اپنے ظلم سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ ان پر دوسرا ظالم مسلط کر دے گا جو انہیں ذلیل و خوار اور تباہ و برباد کر دے گا۔علمائے تفاسیر کے مطابق اس آیت میں ہر قسم کے ظالم داخل ہیں ، وہ شخص جو گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرتا ہے، جو حاکم یا افسر عوام یااپنےماتحتوں پر ظلم کرتا ہے، جو تاجر جعلی اشیااور ملاوٹ والی چیزیں فروخت کر کے خریداروں پر ظلم کرتا ہے،جوامرااوراہل ثروت زکات وخیرات کی صحیح ادائیگی نہ کرکے فقرا ومساکین پرظلم کرتے ہیں،جولڑکے والے جہیز کے بوجھ تلے داب کر لڑکی والوں پر ظلم کرتے ہیں،جو باپ اور بھائی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرکے ظلم کرتے ہیں، جوعلما امت میں افتراق وانتشار پھیلاکر عام مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں،جو سماج ومعاشرے میں اپنے کردار وعمل سے دہشت ووحشت پھیلاکر ظلم کرتے ہیں ،اسی طرح جو چور اور ڈاکو مسافروں اور شہریوں سے لوٹ مار کر کے ان پر ظلم کرتے ہیں یہ سب ظالم کی صف میں شامل ہیں ، ان تمام پر اللہ تعالیٰ کوئی ان سے بڑا ظالم مسلط کر دیتا ہے۔
یہ سمجھانے کے لیے چند مثالیں دی گئیں ورنہ ظلم کی تعریف یہ کی گئی ہے ’’الظلم ھو وضع الشئی فی غیر موضعہ‘‘یعنی کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ کہیں اور رکھنا ۔(التعریفات للجرجانی،باب الظاء،ص:۱۰۲)اس تعریف کی روشنی میں ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ اس نے کس پر،کہاںاورکس طرح ظلم کیا ہے اور کررہا ہے۔
مسلمانوں نے اس ملک پر صدیوں حکومت کی مگر پھر نظام خداوندی کی خلاف ورزی نے ان کے اقبال کا سورج غروب کردیا۔جہاں ایک طرف صوفیائے کرام غربا،مساکین،مسافرین اورضرورت مندوں کے لیےبلاتفریق دین ومذہب دسترخوان بچھارہے تھےاور انھیں گلے لگارہے تھے وہیںدوسری طرف ہمارے امرا،رؤسا،حکام،نوابین اورزمین داروں نے بھی دلتوں،آدی واسیوں،ہریجنوں جیسی قوموں کے ساتھ جنھیں برہمن وادیوں اور اونچی ذات کے کہے جانے والے ہندؤوں نے شودر اور اچھوت بنارکھا تھا،انھیں کی طرح کا غیر انسانی اور غیراسلامی طرز عمل اپنالیاتھا۔اس جرم اورظلم کی سزا تو مسلمانوں کو ملنی تھی۔قلعے مکینوں کی نہیں بلکہ مکین قلعے کی حفاظت کیا کرتے ہیں۔ آخری مغل تاجداربہادر شاہ ظفرؔنے اگراونچی دیواروں کواپنا محافظ اور شاہی قلعے کو پناہ گاہ تصور نہ کرلیا ہوتا   تورنگون کے قید خانے میں انھیں اپنی بے بسی کا یوں ماتم نہ کرنا پڑتا؎
یا زیب گلستاں تھے یا ننگ قفس ہیں ہم
اک وہ بھی زمانہ تھا اک یہ بھی زمانہ ہے
خلاصہ کلام یہ کہ عوام الناس کے ساتھ حکمرانوں کے رویےکا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے۔ اگر عوام اللہ ورسول کی اطاعت وفرماں بردار رہتی ہے تو ان کا ظالم حکمران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکمران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے۔لہٰذا حکمران کے ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وانصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی وزاری کے ساتھ التجا و فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کر دیا جائے۔ورنہ دنیا کی کوئی حکومت آجائے مسلمانوں کے حالات نہیں بدلنے ہیں۔
آج جب کہ تباہی وہلاکت ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے مگر افسوس اب بھی ہم راز حیات نہ پاسکے۔ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ہم یہ کب سمجھیں گے کہ ہمارے درد کا علاج یوروپ وامریکہ کے پاس نہیں بلکہ اس مرض کی دوا تو مدینہ ونجف کے شفاخانوں میں ہے۔اگر آج ہم محسن انسانیت ﷺ کے حضور اپنا سرِ نیاز خم کردیں تو ہماری ذلت عزت میں،پستی بلندی میں،مرض شفا میں،غمی خوشی میں اور زوال کمال میں بدل سکتا ہے۔کارکنانِ قضا وقدر پکار پکار کہہ رہے ہیں؎
                                        خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
                                        نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
                                                                            سید سیف الدین اصدق
                                                                    بانی وسربراہ: تحریک پیغام اسلام