زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
امت مسلمہ کے زوال و انحطاط کے اسباب و وجوہات میں ایک زمانے سے صرف مادی اسباب وسائل کی عدم فراہمی اور سیم و زر کی قلت کا شکوہ کیا جاتا رہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مادی وسائل سے زیادہ جس چیز سے نقصان ہوا ہے وہ ہے ہمارے عزم و حوصلے کی ناپختگی، فکر و نظر کی کوتاہی، اپنے فرائض منصبی سے چشم پوشی اور ذات باری تعالیٰ و ذات رسول پاک ﷺ سے دوری و مہجوری۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکیم الامت علامہ اقبال نے کہا تھا؎
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر تونگری سے نہیں
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے تو نگری سے نہیں
قدرت کایہ اٹل قانون ہے کہ کسی قوم کو نعمت وانعام دے کر اس وقت تک اس سے نہیں چھینا جاتاجب تک وہ قوم خود اپنی ناشکری اور بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو اس نعمت کے لیے نااہل ثابت نہیں کردیتی۔قرآن نے اس فلسفے کو اپنے انداز میں کچھ یوں بیان فرمایاہے: ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ لا وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(انفال:۵۳)(یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ کسی نعمت کو ہرگز نہیں بدلتا جو اس نے کسی قوم کو عطا فرمائی ہو جب تک وہ خود ہی اپنی حالت کو نہ بدلیں اور بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔)گزری ہوئی اور موجودہ قوموں کے عروج و زوال کے لیےیہی نظام قدرت ہے کہ نعمت کا شکر اور حق ادا کرنے پر نعمت بڑھ جاتی ہے اور ناشکری کرنے پرسزا دی جاتی ہے ۔ اعلان خداوندی ہے: لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(ابراہیم:۷) (اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔)
قانونِ عروج وزوال:
مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب کی معرفت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک مسلمان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر اور ان کاحق ادا کرتے رہے تب تک عُروج کے اس مقام پر فائز رہے کہ دنیا کی بڑی بڑی سپر پاورز ان کے زیر نگیں رہیں اور کفار ومشرکین ان کا نام سن کر لرزتے رہے ۔ لیکن جب سے مسلمانوں نے نعمت کے شکر اور ا س کے حق کی ادائیگی سے منہ موڑا تب سے ان کی طاقت وقوت،وقار وتمکنت،شوکت وہیبت کا خاتمہ اورکفارومشرکین کا ان پر غلبہ بڑھتا چلا گیا۔
اعداد و شمار کے لحاظ سےتو کہا جاتا ہے کہ اسلام مسیحیت کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہےلیکن حقیقتاً آبادی کے لحاظ سے وہ آبادی کے لحاظ سے عیسائیت پر بھی غالب ہیں ۔حالیہ جائزہ کے مطابق دنیا بھر میں مسلم آبادی 1.92 بلین افراد پر مشتمل ہے، اس لحاظ سے دنیا کی 29 ؍فیصد آبادی صرف مسلمانوں پر مشتمل ہے۔مسلم ممالک کی مجموعی تعداد ۵۷ ؍ہے مسلمانوں کی مجموعی تعداد ایک ارب ۴۰ ؍کروڑ سے زائدہے۔ غیر مسلم ممالک میں بھی مسلمان آباد ہیں اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اقوام عالم کے مقابلہ میں مسلمان تعداد، رقبہ اور وسائل کے اعتبار سے ہر قوم ہر مذہب اور ہر علاقہ پر فوقیت رکھتے ہیں۔مسلم ممالک کے زیر قبضہ رقبہ۹؍کروڑ مربع میل سے متجاوز ہے۔ دنیا بھر کا ۷۰ ؍فیصد تیل (پٹرولیم) مسلمانوں کے پاس ہے۔ دنیا کی ۲۵ ؍فیصد زرعی زمین مسلمانوں کے پاس ہے۔ تانبے لو ہے کوئلے کے علاوہ سونے ،چاندی اور زمرد ہیرے اور یورینیم کے ذخائر بھی مسلمان ممالک کے پاس دیگر ممالک سے زیادہ ہیں اور مواصلاتی طور پر بھی سب آپس میں مربوط ہیں۔لیکن ان مسلم ممالک کے سربراہان کا حال یہ ہے کہ فلسطین،شام ،عراق،مینمار یا کسی بھی ملک میں ہونے والے مسلمانوں پرمظالم کے خلاف ایک لفظ نکالنے کی جرأت نہیں رکھتے۔کفار ومشرکین انھیں برے برے ناموں سے یاد کرتے ہیں اوریہ ان کے اشارۂ ابرو پر رقصاں رہتےہیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا مسلم ملک ہو گاجو کافروں کا دست نگر نہ ہو۔ اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ مسلمان خود ہیں۔جیسا کہ اللہ نے سورہ ٔ رعد میں بھی ارشاد فرمایا ہے:اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ(الرعد:۱۱)مولانا ظفر علی خان نےگویا اپنے ایک شعر میں اس آیت کا ترجمہ پیش کردیا ہے،کہتے ہیں؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اسلامی تاریخ میں اس قانون کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جیسے ماضی بعید میں دنیا کے تین بر اعظموں پر نافذ مسلم حکومت کا ختم ہو جانا، ۸۰۰ ؍سال تک اسپین پر حکومت کے بعد وہاں سے سلطنت ِ اسلامیہ کے سورج کا غروب ہوجانا،اسی طرح صدیوں حکومت کرنے کے بعد اپنے وطن عزیز کا غیروں کے ہاتھوں میں چلاجانا،اَسلاف کی بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والا مسلمانوں کا پہلاقبلہ’’بیتُ المقدس‘‘پر پنجۂ یہود کا گڑ جانا، اسلام کی متحد ہ حکومت ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کا بیسیوں ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانا اور مسلم دنیا کا کافر حکومتوں کی دست نگر بن جانا اس قانونِ قدرت کی واضح مثالیں ہیں ۔
آج ساری دنیا میں مسلمان ذلت وپستی اور تباہی وبربادی کے جس دہانے پر کھڑے ہیں ،یہ ہم سب کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ ہم میں کا ہر بندہ اپنے اپنے طور پر اس کی وجوہات بیان کرتا ہے۔خود کا محاسبہ کرکے اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے بجائے ہم اس کی الٹی سیدھی تاولیں کرتے ہیں ۔اس بڑی غلط فہمی کے بھی ہم شکار ہیں کہ فتح ونصرت بالآخر ہماری ہی ہونی ہے کیوں کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کا جھنڈا ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کادعویٰ تو ضرور ہمارے پاس ہے لیکن کیا اسلام ہمارے رگ وپے میں اترا بھی ہے؟جناب اقبالؔ کہتے ہیں ؎
ہر کوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے!
حیدری فقر ہے نے دولتِ عثمانی ہے تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا اُس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اُسے قوّتِ بازو پر تھا ہے تمھیں موت کا ڈر، اُس کو خدا کا ڈر تھا
باپ کا عِلم نہ بیٹے کو اگر اَزبر ہو پھر پِسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہو!
ہمیں یہ بالکل نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم اسلام کے محتاج ہیں ،اسلام ہمارامحتاج نہیں ۔وہ رب العزت اس بات پر قادر ہے کہ ہماری جگہ ہمارے دشمنوں کو لے آئے اور ان سے اپنے دین کا کام لے،جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : اِلَّا تَـنۡفِرُوۡا يُعَذِّبۡكُمۡ عَذَابًا اَلِيۡمًا وَّيَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَيۡرَكُمۡ وَلَا تَضُرُّوۡهُ شَيۡئًــاط وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞(سورہ توبہ: ۳۹)(اگر تم (اللہ کی راہ میں) نہیں نکلو گے تو اللہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ دوسری قوم لے آئے گا اور تم اس کو بالکل نقصان نہیں پہنچا سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔)
اسی طرح سورہ انعام کی آیت ۱۳۳؍میں ہے: وَرَبُّكَ الۡغَنِىُّ ذُو الرَّحۡمَةِ ط اِنْ يَّشَاۡ يُذۡهِبۡكُمۡ وَيَسۡتَخۡلِفۡ مِنۡۢ بَعۡدِكُمۡ مَّا يَشَآءُ كَمَاۤ اَنۡشَاَكُمۡ مِّنۡ ذُرِّيَّةِ قَوۡمٍ اٰخَرِيۡنَ ۞(اور (اے محبوب )تیرا رب ہی بے پرواہ، رحمت والا ہے، اگر وہ چاہے تو تم سب کو اٹھالے اور تمہارے بعد جسے چاہے تمہاری جگہ آباد کر دے جس طرح تمہیں ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے۔)اس لیے اپنے اسلام اور رسمی مسلمان ہونے پرصرف فخر وناز کرنے کے بجائے اپنی مسلمانی کا محاسبہ بھی ضروری ہےکہ ہم کس قدر مقصد حیات کی طرف گامزن اوراسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا دشمن کون؟
آج ساری دنیا میں مسلمانوں پر مختلف طریقوں سے حملے ہورہے ہیں ۔ان سب کو سمیٹا جائے تو اس کے دوحصے بنتے ہیں ۔ ایک جسمانی ہے اور دوسرا روحانی۔یعنی ایک حملہ مسلمانوں کے جسم پر ہورہا ہے اور ایک اس امت کے افکارونظریات،عقائد وخیالات اور دین وشریعت پر۔جو حملہ ہمارے جسم پر ہورہا ہے اس کا توہمیں احساس ہے مگر دین وشریعت میں بگاڑ اور عقائد میں فسادکے ذریعہ ہمارے قلب وروح پر جو حملے ہورہے ہیں ،اس کا احساس ہمیں نہ کہ برابر ہے۔سب سے بڑا نقصان جو ہمیں ہورہاہے وہ کسی دوسرے سے نہیں بلکہ خودکی ذات سےہو رہا ہے۔ہمارا سب سے بڑا دشمن کوئی اورنہیں، ہم خود ہیں۔ہمیں اسلامی شریعت پر عمل کر نے سے کس نے روکا ہے ؟مساجد کے دروازے تو ہم پر بند نہیں ؟۔اذانوں اور نمازوں پر کیا پابندی ہے؟تلاوت قرآن پرہمیں کوئی سزاتو نہیں دیتا ؟والدین سے حسن سلوک،پڑوسیوں کے حقوق،بڑوں کی عزت،چھوٹوں پر شفقت،خدمت انسانیت،ادب وتعظیم،تہذیب وشائستگی،نیکیوں سے محبت ،گناہوں سے نفرت وغیرہ جیسی چیزوں پر آخر کس نے پابندی لگائی ہے!!۔لیکن ان تمام بھلائیوں اور کارِ خیر سے ہم ایسے بھاگتے ہیں جیسے شیطان لاحول سے بھاگتا ہے۔ دینی ،شرعی،اخلاقی ،تہذیبی ہر اعتبار سے ہم موت کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔مادیت پرستی اور دنیا کی محبت نے ہمیں تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ہماری زبانیں گندی ہوچکی ہیں،فکر آلودہ ہوگئی ہے،خیالات گھناؤنے ہوگئے ہیں،اخلاق مردہ ہوگیا ہے،سماج ،سوسائٹی، معاشرہ،خاندان اور گھر میں دین پر عمل کرنا آج سب سےمشکل کام ہے۔شادی،بیاہ اور خوشی وغمی کے موقع پر ذرا اپنے گھر میں آپ دین وشریعت کا حکم نافذ کرنے کی کوشش تو کریں،بیوی دشمن ہوجائے گی،بچے باغی ہوجائیں گے،والدین منھ پھیر لیں گے ،خاندان والے طعنے دیں گے ،کس جرم میں؟دین وشریعت اور تعلیمات اسلام کوگھر لانے کے جرم میں۔اپنےگھر میں جو بھی لاؤ چلے گا ،صرف ایک دین نہیں آنا چاہیے۔اس کی پیشین گوئی بھی حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے کچھ یوں فرمائی تھی: يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ،الصَّابِرُ فِيهِمْ عَلَی دِينِهِ كَالْقَابِضِ عَلَى الْجَمْرِِ(جامع الترمذی:۲۲۶۰)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:لوگوں پر ایک ایسازمانہ آئے گاکہ ان میں اپنے دین پر صبرکر نے والا آدمی ایسا ہوگا جیسے ہاتھ میں چنگاری پکڑنے والا ۔مطلب یہ کہ’’ جس طرح ہاتھ پر آگ کا انگارہ رکھنے والا بے انتہا مشقت وتکلیف برداشت کرتاہے اسی طرح اس زمانے میں اپنے دین کی حفاظت اسی وقت ممکن ہوگی جب ثبات قدمی اور صبر عظیم سے کام لیاجائے گا، کیوں کہ دین پر قائم رہنے والا ایسی مصیبت میں گرفتار ہوگا جیسے چنگاری کو ہاتھ پررکھنے والا‘‘۔اللہ اکبر!
بے عملی وبدعملی کے ساتھ ساتھ اللہ ورسول اور دین وشریعت کے حوالے سے ہماری زبان اس قدر بے لگام ہوچکی ہے کہ بس! الاماں والحفیظ ۔نقل کفر کفر نہ باشد، ِکے باوجود اسے بیان کر نے کا میں حوصلہ نہیں رکھتا۔کسی شاعر نے بہت سچ کہا ہے کہ :
الفاظ کفر وفسق کو بس بھول جائیے ہر ملت و طریق کا اکرام کیجیے
طرز قدیم پر جو نظر آئیں مولوی پبلک میں ان کو مورد الزام کیجیے
جو چاہیے وہ کیجیے بس یہ ضرور ہے ہر انجمن میں دعویٔ اسلام کیجیے
اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے اسی زمانے کے لیے فرمایا تھا: بَادِرُوْا بِالأعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيلِ المُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤمِنًا ويُمْسِي كَافِرًا،ويُمْسِي مُؤمِنًا ويُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيْعُ دينه بِعَرَضٍ من الدنيا[رواه مسلم]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ نیک اعمال کی طرف لپکو، ان فتنوں سے پہلے، جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے(حالت یہ ہوگی کہ) آدمی صبح کے وقت مومن ہوگا، تو شام کے وقت کافر اور شام کے وقت مؤمن ہوگا، تو صبح کے وقت کافر۔ دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا“(صحیح مسلم)
میری زندگی کا مقصد۔۔۔۔۔!!
ایک زمانہ وہ تھا کہ بندۂ مومن کے ہاتھوں میں توحید الٰہی کا پرچم اورسنت نبوی ﷺکی ڈورہوا کرتی تھی۔وہ شریعت کے سانچے میں ڈھلے ہوتے اور دین کی سربلندی اور حق کی سرفرازی کےلیے جیتے اور مرتے تھے۔ان ہی عظیم نفوس قدسیہ کے لیے خوب کہا گیاہے؎
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
اس کے بالکل خلاف ہماری زندگی کا مقصد طلب دنیا ،ہوس دنیااورخواہش دنیاکے سوا کچھ نہیں ۔دنیاوی مقصد کے لیے جینا بھی بے مقصد ہی ہے۔کیوں کہ ایک مومن کا مقصد دنیا نہیں آخرت ہوتا ہے۔کسی دانشور نے بہت خوب کہا ہے کہ ’’جو مقصد کے لیے مرتے ہیں وہ مرتے نہیں ہیں اور جو بے مقصد جیتے ہیں ،وہ جیتے نہیں ہیں۔نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں؛مَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا ہَمَّہُ فَرَّقَ اللّٰہُ عَلَیْہِ أَمْرَہُ ، وَجَعَلَ فَقْرَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ ، وَلَمْ یَأْتِہِ مِنَ الدُّنْیَا إِلَّا مَا کُتِبَ لَہُ ، وَمَنْ کَانَتِ الْآخِرَۃُ ہَمَّہُ جَمَعَ اللّٰہُ لَہُ أَمْرَہُ، وَجَعَلَ غِنَاہُ فِی قَلْبِہِ ، وَأَتَتْہُ الدُّنْیَا وَہِیَ رَاغِمَۃٌ(ابن ماجہ)حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص کی سوچ وفکر کا محور دنیا ہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو بکھیر دیتا ہے اور اس کے فقر کو اس کی آنکھوں کے سامنے کردیتا ہے۔اور اسے دنیا سے اتناہی ملتا ہے جو اس کیلئے لکھا جا چکا ہے۔اور جس آدمی کی سوچ وفکر کامحور آخرت ہو تو اللہ تعالی اس کے معاملات کو سمیٹ دیتا ہے اور غنا اس کے دل میں رکھ دیتا ہے۔اور دنیا نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پاس چلی آتی ہے۔
حضرت مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جب لوگ فقرا سے دشمنی رکھیں،دنیاوی شوکت وحشمت کا اظہار کریں ،روپے جمع کرنے پر حریص ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان پر چار مصیبتیں نازل فرماتا ہے: قحط سالی ،ظالم بادشاہ،خائن حاکم اور دشمنوں کی ہیبت۔
حضور علیہ الصلاۃ والسلام یہ بھی فرماتے ہیں کہ:لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ ان کا مقصد ان کا پیٹ ہوگا،دولت ان کی عزت ہوگی ، عورت ان کا قبلہ ہوگااور روپیہ ان کا دین ہوگا ۔وہ بدترین لوگ ہوں گے اور آخرت میں ان کا حصہ نہیں ہوگا۔(کنزالعمال)
حضرت عبداللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’ الزہد والرائق‘‘میں حضرت عبداللہ ابن رضی اللہ عنھما کا ایک قول نقل کرتے
ہیں کہ :لَیَاْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَکُوْنُ ھَمُّ اَحَدِھِمْ فِی بَطْنِہِ ،وَدِیْنُہُ ھَوَاہُ (الزھد والرائق لابن مبارک ،باب فی طلب الحلال)
لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں آدمی کا اہم مقصد پیٹ پالنا ہوگا اور اپنی خواہش چلنا اس کا دین ہوگا۔
دنیا کی محبت نے ہمیں کس قدر بزدل بنادیا ہے یہ کسی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ۔ہم وہ قوم ہیں کہ جس کی بہادری کےکبھی چرچے ہوتے تھےلیکن آج ہم اپنے درودیوار سے بھی وحشت زدہ ہیں ۔اپنے سائے تک سے ہم ڈر رہے ہیں۔جن کی ہمارے سامنے کوئی حیثیت نہیں وہ ہمیں آنکھیں دکھاتے پھررہے ہیں۔اگر ہم کل بہادر تھے تو آج بزدل کیسے بن گئے؟اسلا م اور بزدلی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے ۔نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ مومن سب کچھ ہوسکتا ہے بزدل نہیں ہوسکتا۔مسلمان حق بات کہنے میں ہمیشہ دلیر ہوتا ہے۔مسلمان ناانصافی برداشت نہیں کرسکتا۔خوف وہراس ،بزدلی اور نامرادی کو دل سے نکالنے کے لیے ہمیں عیش وعشرت اور دنیا کی محبت سے دور ہونا ہوگا۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں“ تو ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘ ڈال دے گا“ تو ایک کہنے والے نے کہا: یارسول اللہ! ’’وہن‘‘کیا چیز ہے؟ قَالَ: ’’حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے“۔(سنن ابو داؤد:۴۲۹۷)
اللہ اکبر! آج ہم دیکھیں کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو اس حرص دنیا کی زد سےمحفوظ ہو۔چاہے وہ علما ہوں یا مشائخ ، مدرسہ ہو یا خانقاہ ،بندہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ،سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہیں۔آج دین کے نام پر طلب دنیا ،افتراق وانتشاراور فتنہ انگیزی جہاں اہل مدارس کا شیوہ بن چکا ہے۔وہیں ہوس دنیا نکال کر اللہ ورسول کی محبت ڈالنے کے لیے جو ادارے قائم ہوئے تھے، وہ بھی دولت وشہرت اورمارکیٹنگ کی ہوڑ میںایک دوسرے پر بازی مارنے میں لگے ہیں۔ جی ہاں میں ’’خانقاہ‘‘ ہی کی بات کررہا ہوں۔خانقاہیں تزکیہ نفس اور تعمیر انسانیت کی درس گاہیں تھیں مگر افسوس !آج ان خانقاہ نشینوں کی اکثریت کو مقاصد خانقاہ کی ہی خبر نہیںہے۔ان خانقاہوں میں اب اللہ ورسول کے تذکرے کم ہورہےہیں اور اپنے بزرگوں اور پیروں کی باتیں زیادہ ہورہی ہیںتاکہ عقیدت میں بہہ کر سیدھی سادھی عوام اور بھولے بھالے لوگ زیادہ سے زیادہ ان کے دام میں آجائیں۔بزرگوں کانیازکیش،ولیوں کی بارگاہوں کا خوشہ چیں ،صوفیہ کی نظر عنایت کا متمنی،اہل اللہ کا عقیدت مند، بوریا نشینوں کا والی وشیدا اقبالؔجیسا شخص بھی ان کے جانشینوں کی حالت زار کو دیکھ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور پکاراٹھا؎
رمز و ایما اس زمانے کے لیے موزوں نہیں
اور آتا بھی نہیں مجھ کو سخن سازی کا فن
قم باذن اللہ کہہ سکتے تھے جو رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن
آج علما ،حفاظ اور دین کے لیے کام کرنے والے حضرات بھی بے سروسامانی ،حالات کی ستم ظریفی اور مالی پریشانیوں کا رونا رونے میں لگے ہیں ۔اور ایک بڑا طبقہ مساجد ومدارس کی خدمت سے دور ہوتا جارہا ہے کہ یہاں نہ آمدنی ہے اور نہ ہی ضروتیں پوری ہورہی ہیں۔ایسے حضرات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ را ہ آسائشِ دنیا نہیں رضائے مولا کی طرف جاتی ہے،یہ پھولوں کی سیج نہیں،کانٹوں کی راہ ہے۔اگرآپ کو دنیا کی عیش وعشرت کی ضرورت تھی تو پھر اس طرف آئے ہی کیوں ؟اور جب آگئے ہیں تو مکمل وقار وسنجیدگی اور تقوی وپرہیزگاری کے ساتھ خدمت ِ دین کا فریضہ انجام دیں۔آپ کی قسمت میں جو کچھ ہوگا وہ چل کر آپ تک آئے گا۔اپنے رب کے فرمان پر دین کے خادموں کی نظر نہ ہوگی تو کس کی ہوگی!ہمارارب فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا۔وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ط وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ط(الطلاق:۲۔۳)( اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنادے گا۔اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو ۔)اس لیے رزق کی تنگی کا خوف دنیاداروں کو ہوتو ہو،دین دارکہلانے والے طبقے کو اس کا غم زیب نہیں دیتا۔
اللہ کریم حرصِ دنیا کی لعنت سےہم سب کی حفاظت فرمائے اور دین پر ثابت قدمی بخشے۔ آمین بجاہ حبیبک سیدالمرسلین
سید سیف الدین اصدق
بانی وسربراہ: تحریک پیغام اسلام