’’زکات‘‘ کےکچھ اہم مسائل اور فضائل
ارکان اسلام میں نماز کے بعد دوسرا اہم ترین رکن زکات ہے۔یوں تو زبانی طور پر نماز اور روزہ ساتھ بولا جاتا ہے مگر قرآن حکیم میں بیاسی (۸۲) مقامات وہ ہیں جہاں نماز اور زکوۃ کی فرضیت کا حکم ایک ساتھ آیاہے۔ شریعت مطہرہ میں زکات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نبی آخرالزمان ﷺکے وصال کے بعد سر زمین عرب میں قسم قسم کے فتنے سر اٹھانے لگے۔کذابوں اور دجالوں نے اعلان نبوت کرنا شروع کردیا۔ اسلامی ریاست کو نازک ترین صورت حال اور بحران کا سامنا تھا تو اپنی سنگینی کے اعتبار سے سب سے بڑا چیلنچ منکرین زکات کا تھا۔ اسلامی تاریخ کے اس انتہائی نازک سے موقع پر امیرالمومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کمال جرات ایمانی سے اکثر صحابہ کے مشوروں کے خلاف اس بات کا ببانگ دہل اعلان فرمایا کہ’’ اللہ کی قسم !میں اس شخص سے ضرور جنگ کروں جو نماز اور روزہ کے درمیان فرق کرے کیونکہ جس طرح جان کا حق نماز ہے اسی طرح بلاشبہ مال کا حق زکوٰۃ ہے اور اللہ کی قسم اگر وہ لوگ جو منکر زکوٰۃ ہو رہے ہیں مجھے بکری کا بچہ بھی نہ دیں گے جو وہ رسول کریم ﷺ کو دیتے تھے تو میں ان کے اس انکار کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ یہ سن کر کہنے لگے اللہ کی قسم !اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کہ میں نے جان لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنگ کرنے کے لیےالہام کے ذریعہ ابوبکر کا دل کھول دیا ہے یعنی انھیں پُریقین کردیا، لہٰذا مجھےبھی یقین ہوگیا کہ اب منکرین زکوٰۃ سے جنگ ہی حق اور درست ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح،حدیث:۱۷۸۴)
زکات کی اصطلاحی تعریف : زکات شریعت میں اللہ عزّوجلّ کی رضا کے لیے مال کے ایک حصے کا جو شرع نے مقرر کیا ہے ، کسی مسلمان فقیر کو مالک کر دینا ہے ، اور وہ فقیر نہ ہاشمی ہو، نہ ہاشمی کا آزاد کردہ غلام، اس طور پر کہ اپنا نفع اس سے بالکل جدا کر لے ۔
زکات کا حکم: زکات فرض ہے اس کا انکار کرنے والا کافر اور نہ دینے والا فاسق ہے اور ادا میں تاخیر کرنے والا گنہ گار ہے ۔
زکات واجب ہونے کے لیے چند شرطیں ہیں:
۱۔مسلمان ہونا : لہذا کافر پر زکات واجب نہیں ، یعنی اگر کافر مسلمان ہوا تو اسے یہ حکم نہیں دیا جائے گا کہ وہ زمانۂ کفر کی زکات ادا کرے ۔
۲۔بالغ ہونا : لہذا نابالغ پر زکات واجب نہیں ، چاہے وہ کتنا ہی مال دار ہو ۔
۳۔عاقل ہونا : لہٰذا کسی کو جنون اگر پورے سال گھیر لے تو اس پر زکات واجب نہیں ، اور اگر سال کے اول و آخر افاقہ ہوتا ہے تو اس پر زکات واجب ہے اگر چہ باقی زمانہ جنون میں گزرتا ہے ۔
۴۔ آزاد ہونا : غلام پر زکات واجب نہیں اگر چہ ماذون ہو ، یعنی اس کے آقا نے تجارت کرنے کی اجازت دی ہو ۔
﴿ ۵۔بقدر نصاب مال کا پورے طور پر مالک ہونا اور اس پر قابض ہونا: اگر نصاب سے کم ہے تو زکات واجب نہیں ۔ یا کوئی شخص بقدر نصاب مال کا مالک ہے ، لیکن وہ دوسرے پر دَین (یعنی قرض ) ہے تو ملنے سے پہلے اس کی زکات ادا کرنا واجب نہیں ، لیکن جب ملے گا تو گزشتہ سالوں کی زکات بھی ادا کرنی واجب ہوگی ۔
زکات کا معنی و مفہوم:
زکات کے لغوی معنی پاکی کے ہیں، اور شریعت کی اصطلاح میں ”مخصوص مال میں مخصوص افراد کے لیے مال کی ایک متعین مقدار “کو زکات کہا جاتا ہے۔
زکات کو زکات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان مال کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، تو اس کا دل مال کی طرف مائل ہو جاتا ہے ، دل کے اس میلان کی وجہ سے مال کو مال کہا جاتا ہے، اورمال کے ساتھ اس مشغولیت کی وجہ سے انسان کئی روحانی و اخلاقی بیماریوں اور گناہوں میں مبتلاہو جاتا ہے، مثلا: مال کی بے جا محبت، حرص اور بخل و غیرہ۔ان گناہوں سے حفاظت اور نفس و مال کی پاکی کے لیے زکات و صدقات کو مقرر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ زکات سے مال میں ظاہری یا معنوی اضافہ اور برکت بھی ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی زکات کا نام زکات رکھا گیا۔
زکات کی فرضیت:
زکات اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ ہے ، اس کی فرضیت شریعت کے قطعی دلائل سے ثابت ہے، جن کا انکار کرنا کفر ہے ، ایسا شخص دائرئہ اسلام سے اسی طرح خارج ہو جاتا ہے، جیسے نماز کا انکار کرنے والا شخص اسلام سے نکل جاتا ہے۔ زکات کی فرضیت ہجرت ِ مدینہ سے پہلے ہوئی جبکہ دوسری طرف بہت سی آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی؛ چنانچہ اس بارے میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نفسِ فرضیت تو ہجرت سے پہلے ہوگئی تھی؛ لیکن اس کے تفصیلی احکامات ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔
زکات کے فوائد، ثمرات و برکات:
زکات اللہ رب العزت کی جانب سے جاری کردہ وجوبی حکم ہے، جس کا پورا کرنا ہرصاحب نصاب مسلم پر ضروری ہے، اس فریضہ کے سرانجام دینے پر انعامات کا ملنا سو فیصد اللہ تعالیٰ کا فضل ہے؛ کیونکہ اس فریضے کی ادائیگی تو ہم پر لازم تھی ، اس کے پورا کرنے پر شاباش ملنا اور پھر اس پر بھی مستزاد ،انعام کا ملنا (اور پھر انعام، دنیوی بھی اوراُخروی بھی)تو ایک زائد چیز ہے، دوسرے لفظوں میں سمجھیے کہ مسلمان ہونے کے ناطے اس حکم کا پورا کرنا ہر حال میں لازم تھا، چاہے کوئی حوصلہ افزائی کرے یا نہ کرے،کوئی انعام دے یا نہ دے؛ لیکن اس کے باوجود کوئی اس پر انعام بھی دے تو پھر کیا کہنے! اور انعام بھی ایسے کہ جن کے ہم بہر صورت محتاج ہیں،ہماری دنیوی و اُخروی بہت بڑی ضرورت ان انعامات سے وابستہ ہے، ذیل میں چند انعامات کا صرف اشارہ نقل کیا جارہا ہے، تفصیلی مباحث، دئیے گئے حوالہ جات میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں:
(۱) زکات کی ادائیگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مال میں اضافہ فرماتا ہے۔(البقرہ:۲۶۷،صحیح البخاري، کتاب الزکاۃ،رقم الحدیث:۱۴۱۰)
(۲) زکات کی وجہ سے اجر و ثواب سات سو گنا بڑھ جاتا ہے۔(البقرہ:۱۶۱، تفسیر البیضاوی:البقرہ:۲۶۱)
(۳)زکات کی وجہ سے ملنے والا اجر کبھی ختم ہونے والا نہیں، ہمیشہ باقی رہے گا۔ (الفاطر:۲۹،۳۰)
(۴) اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے افراد(زکات ادا کرنے والوں)کا مقدر بن جاتی ہے۔ (الاعراف:۱۵۶)
(۵)کامیاب ہونے والوں کی جو صفات قرآن ِ پاک میں گنوائی گئیں ہیں، ان میں ایک صفت زکات کی ادائیگی بھی ہے۔(الموٴمنین:۴)
(۶) زکات ادا کرنا ایمان کی دلیل اور علامت ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارہ، رقم الحدیث:۲۸۰)
(۷) قبر میں زکات (اپنے ادا کرنے والے کو)عذاب سے بچاتی ہے۔(المصنف لابن أبي شیبہ،کتاب الجنائز، رقم الحدیث:۱۲۱۸۸،۷/۴۷۳، بیروت)
(۸) ایک حدیث شریف میں جنت کے داخلے کے پانچ اعمال گنوائے گئے ہیں، جن میں سے ایک زکات کی ادائیگی بھی ہے۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الصلاۃ، باب فی المحافظہ علی وقت الصلوٰت، رقم الحدیث۴۲۹،۱/۲۱۴،دار ابن حزم)
(۹) انسان کے مال کی پاکی کا ذریعہ زکات ہے۔ (مسند أحمد:مسند أنس بن مالک، رقم الحدیث:۱۲۳۹۴)
(۱۰) انسان کے گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ ہے۔(مجمع الزوائد، کتاب الزکاۃ، باب فرض الزکاہ:۳/۶۳)
(۱۱) زکات سے مال کی حفاظت ہوتی ہے۔(شعب الایمان للبیہقي،کتاب الزکاۃ،رقم الحدیث:۳۵۵۷، ۳/۲۸۲، دارالکتب العلمیہ)
(۱۲)زکات سے مال کا شر ختم ہو جاتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي،کتاب الزکات، رقم الحدیث:۷۳۷۹)
یہ سارے فضائل ہر قسم کی زکات سے متعلق ہیں ، چاہے وہ” زکات “سونے چاندی کی ہو ، یا تجارتی سامان کی ،عشر ہو یا جانوروں کی زکات۔
زکات ادا نہ کرنے کے نقصانات اور وعیدیں:
فریضہ زکات کی ادائیگی پر جہاں من جانب اللہ انعامات و فوائد ہیں، وہاں اس فریضہ کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے کے لیے قرآن ِ پاک اور احادیث ِ مبارکہ میں وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں ، اور دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بکثرت کیا گیا ہے، ذیل میں ان میں سے کچھ ذکر کیے جاتے ہیں:
(۱) جو لوگ زکات ادا نہیں کرتے اُن کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اِس سے اُن کی پیشانیوں، پہلووٴں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔(سورہ توبہ:۳۴،۳۵)
(۲) ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اُس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔(سورہ آل عمران:۱۸۰)
(۳) ایسا مال آخرت میں اُس کے کسی کام نہ آ سکے گا۔ (سورہ بقرہ:۲۵۴)
(۴)زکات کا ادا نہ کرنا جہنم والے اعمال کا ذریعہ بنتا ہے۔(سورہ اللیل:۵ تا۱۱)
(۵)ایسے شخص کا مال قیامت کے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے ، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے،پھر وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا ما ل ہوں ، میں تیرا جمع کیاہوا خزانہ ہوں۔(صحیح البخاري ، کتاب الزکاۃ)
(۶) مرتے وقت ایسا شخص زکات ادا کرنے کی تمنا کرے گا؛ لیکن اس کے لیے سوائے حسرت کے اور کچھ نہ ہو گا۔(سورہ المنافقون:۱۰، صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ)
(۷)ایسے شخص کے لیے آگ کی چٹانیں بچھائی جائیں گی،اور اُن سے ایسے شخص کے پہلو ، پیشانی اور سینہ کو داغا جائے گا۔(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ)
(۸) ایسے افرادکوجہنم میں ضریع، زقوم، گرم پتھر، اور کانٹے دار و بدبو دار درخت کھانے پڑیں گے۔(دلائل النبوہ للبیہقي، رقم الحدیث:۶۷۹)
(۹) ایسے افراد سے قیامت کے دن حساب کتاب لینے میں بہت زیادہ سختی کی جائے گی۔ (مجمع الزوائد، کتاب الزکاۃ، باب فرض الزکاۃ:۳/۶۲)
(۱۰) جب لوگ زکات روک لیتے ہیں تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ ان سے بارشیں روک لیتے ہیں۔ (المستدرک للحاکم، رقم الحدیث:۲۵۷۷)
(۱۱) جب کوئی قوم زکات روک لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو قحط سالی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث:۴۵۷۷)
زکات ادا کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی:
نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:” کہ میں تین چیزوں پر قسم کھاتا ہوں اور تمہیں ایک اہم بات بتاتا ہوں، تم اسے یاد رکھنا۔ارشاد فرمایا :کہ کسی بندے کا مال زکات(و صدقہ ) سے کم نہیں ہوتا، جس بندے پر بھی ظلم کیا جاتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں۔اور جو بندہ بھی سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالی اس پر فقر اور تنگ دستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں“، یا نبی اکرم ﷺنے اسی طرح کا کوئی جملہ ارشاد فرمایا۔اور میں ( ﷺ) تمہیں ایک اور خاص بات بتاتا ہوں، سو تم اسے یاد رکھنا، ارشاد فرمایا: ”دنیا تو چار قسم کے افراد کے لیے ہے: ایک اس بندے کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور دین کا علم ،دونوں نعمتیں عطا فرمائیں، تو وہ اس معاملہ میں اپنے رب سے ڈرتاہے(اس طرح کہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا اور علمِ دین سے فائدہ اٹھاتا ہے)اور اس علم ِدین اور مال کی روشنی میں رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اوراس (مال)میں اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانتا ہے۔(مثلاً: مال کو اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کرتا ہے، اور دینی علم سے دوسروں کو تبلیغ، تدریس اور افتاء وغیرہ کے ذریعے سے فائدہ پہنچاتا ہے)تو یہ شخص درجات کے اعتبار سے چاروں سے افضل ہے۔
دوسرے اس بندے کے لیے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کی نعمت تو عطا فرمائی لیکن مال عطا نہیں فرمایا، لیکن وہ نیت کا سچا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں آدمی کی طرح عمل کرتا (جو کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھ کر عمل کرتا ہے) تو یہ شخص اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتاہے اور اس شخص کا اور اس سے پہلے شخص کا ثواب برابر ہے۔
تیسرے اس بندے کے لیے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت عطا فرمائی، لیکن علم کی نعمت عطا نہیں فرمائی، تو وہ علم کے بغیر اپنے مال کو خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا، اور نہ ہی اس مال سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتاہے، تو درجات میں یہ سب سے بدتر بندہ ہے۔
چوتھے اس بندے کے لیے ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال کی نعمت عطا فرمائی اور نہ علم کی ، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس مال کے سلسلے میں فلاں بندے کی طرح عمل کرتا (جواپنے مال کے خرچ کرنے میں اللہ سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتا ہے)سو یہ بندہ اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتا ہے؛ پس اس کا گناہ اور وبال اس پہلے شخص کے گناہ اور وبال کے مطابق ہی ہوتا ہے“۔(ترمذی شریف کتاب الزہد رقم الحدیث:۲۳۲۵، ۴/۵۶۲)
زکات کن افراد کے لیے ہے؟
قرآن کے حکم کے مطابق زکات کے مصارف اورمستحقین سات طرح کے لوگ ہیں: فقرا، مساکین، زکات کی وصولیابی پرمامورلوگ ، جن کے دلوں کو اسلام کی طرف راغب کرنا مقصود ہو، جن غلاموں کو آزاد کرنا ہو، مقروض لوگ اور مسافرین(سورہ توبہ:۶۰)
۱۔ فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔
مستحق زکوٰۃ کے صاحبِ نصاب نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا مسلمان شخص جو غریب اور ضروت مند ہو اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقم نہ ہو ، اور نہ ہی اس قدر ضرورت و استعمال سے زائد سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ سید ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکات لینا جائز ہے، اور اس کو زکات دینے سے زکات ادا ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس کو زکات دینا اور اس کے لیے زکات لینا جائز نہیں ہے۔
۲۔ مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔
۳۔ عامل زکات وہ ہے جسے بادشاہِ اسلام نے زکات اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اس کو بھی زکات دی جا سکتی ہے۔
۴۔قرآن میںرقاب کا لفظ آیا ہے، رِقاب سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا، لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔
۵۔اسی طرح قرآن میں ’’والغارمین ‘‘کا لفظ آیا ہے،اس غارم سے مراد مدیون یعنی مقروض وقرض دار ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔
۶۔ فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس رقم نہیں تو اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں۔
۷۔اسی طرح ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے تو اس کو بھی زکات کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو، لیکن وطن سے مال منگوانے کی کوئی صورت نہ ہو۔
صاحب نصاب کون ہے ؟
جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں یا بعض کامجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ایسے مردو عورت کو صاحب نصاب کہا جاتا ہے۔
زکوٰۃکے چند اہم مسائل:
۱۔مسئلہ: اگر کسی کی آمدنی کافی ہے لیکن وہ مقروض ہے اور خرچہ زیادہ ہونے کی وجہ سے قرض ادا کرنے پر قادر نہیں تو ایسے آدمی پر زکات واجب نہیں۔
۲۔مسئلہ: جس شخص کی ماہانہ آمدنی معقول ہے لیکن سال بھر تک اس کے پاس نصاب کی مقدار جمع نہیں رہتی اور اس پرزکات واجب نہیں۔
۳۔مسئلہ: اگر ادھار کی رقم نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو وصول ہونے کے بعد زکات ادا کرنا لازم ہوگا اگر ادھار کی رقم وصول ہونے میں چند سال کا عرصہ گزر گیا تو گزشتہ تمام سالوں کی زکات دینا لازم ہوگا۔
۴۔مسئلہ: اگر استاد غریب ہے نصاب کا مالک نہیں تو شاگرد کے لیے استاد کو زکات دینا جائز بلکہ مستحق استاد کو زکات دینے کا ثواب زیادہ ملے گا۔
۵۔مسئلہ :مردہ کے ایصال ثواب کے لیے زکات کی رقم دینا جائز نہیں بلکہ دوسری حلال رقم صدقات زکات کے علاوہ سے ایصال ثواب کرنا ہوگا ورنہ میت کو ثواب نہیں ہوگا۔
۶۔مسئلہ :باپ اور بیٹا مل کر پیسہ کماتے ہیں اور پیسہ والد کے قبضہ میں ہے اور باپ ہی اس میں سے تصرف کرتا ہے اور وہ رقم نصاب کے برابر ہے تو سال گزرنے کے بعد باپ کے لیے زکات ادا کرنا لازم ہوگا بیتے کے لیے نہیں کیونکہ ان پیسوں کا مالک باپ ہے ہاں اگر وہ اپنا اپنا پیسہ تقسیم کردیں تو الگ الگ زکات واجب ہوگی۔
۷۔مسئلہ: اپنے باپ کو زکات دینا جائز نہیں۔واضح رہے کہ اپنے اصول یعنی والدین ،دادا،دادی،نانا،نانی وغیرہ اور فروع یعنی اولاد،اور ان کی نسل یعنی پوتا،پوتی ،نواسہ،نواسی وغیرہ کوزکات دینا جائز نہیں۔اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کو زکات دینا جائز نہیں ہے۔اس کے علاوہ تمام اپنے خونی رشتہ داروں کو اگر وہ مستحق زکات ہیں تو زکات دینا جائز ہے بلکہ یہ افضل اور دوہرے ثواب کا باعث ہے۔اس لیے کہ زکات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس میں صلہ رحمی بھی ہے۔
۸۔مسئلہ: بچہ اگر صاحب نصاب ہے تو نابالغ ہونے کی وجہ سے اس کے مال وغیرہ پرزکات واجب نہیں اور ولی کے لیے نابالغ کے مال سے زکات ادا کرنا لازم نہیں ہوگا دوسری عبادات کی طرح بچہ پرزکات بھی واجب نہیں۔
۹۔مسئلہ: زکات کی رقم سے مکانات بناکر مستحق لوگوں میں تقسیم کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوگی البتہ مستحق لوگوں کو مکمل طور پر مالک بنا دینا ضروری ہے مکان کا قبضہ بھی دیدیں رجسٹرڈ کراکر کاغذات بھی ان کے حوالے کر دے تاکہ وہ اپنے اختیار سے جس قسم کا جائز تصرف کرنا
چاہے کرسکیں۔
۱۰۔ مسئلہ: جو رقم زکات کی نیت کے بغیر اد اکی جائے اور جس کو دی جائے وہ خرچ بھی کرلے اب اگر اس مال کو زکات میں شمار کیا جائے تو وہ درست نہیں اور زکات ادا نہیں ہوگی۔
۱۱۔مسئلہ: بھابھی، بھائی، بھتیجا، بہن اگر وہ نصاب کے مالک نہیں اور مستحق بھی ہیں اور ان کا کھانا پینا الگ ہو تو ان سب کوزکات دینا جائز ہے۔ واضح رہے کہ زکات بول کر دینا بھی ضروری نہیں بلکہ تحفہ،عیدی یا اسی طرح کچھ بولے یا بن بولے بھی دیا جاسکتا ہے،بس! دینے والا زکات کی نیت اور لینے والا اس کا مستحق ہو کافی ہے۔
۱۲۔مسئلہ: اگر بیوی صاحب نصاب ہے تو خود بیوی کوزکات ادا کرنا ضروری ہے شوہر پر ضرور ی نہیں۔
۱۳۔مسئلہ: اگر کوئی تجارت کی نیت سے پلاٹ خریدے یا زمین خریدے (یعنی فروخت کرنے کی نیت سے) تو اس صورت میں اس کی قیمت سے ہر سال زکات ادا کرنا فرض ہے اور ہر سال مارکیٹ میں جو فروخت کی قیمت ہوگی اس کا اعتبار ہوگا۔مثلاً ایک پلاٹ ایک لاکھ میں خریدا تھا سال مکمل ہونے پر اس کی قیمت ۵؍لاکھ ہوگی تو زکات ۵؍لاکھ سے دینی ہوگی اور اگر پلاٹ ذاتی ضروریات کے لیے خریدا تو اس پر زکات واجب نہیں، اور اگر پلاٹ خریدا رقم کو محفوظ کرنے کے لیے تو اس صورت میں بھی زکات ہر سال واجب ہوگی۔
۱۴۔مسئلہ :اگر پلاٹ خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت نہیں تھی بعد میں فروخت کرنے کا ارادہ ہوگیا تو جب تک اس کو فروخت نہیں کیا جائے اس پر زکات واجب نہیں۔
۱۵۔مسئلہ: اگر کوئی شخص سال کے پورے ہونے سے پہلے یا سال مکمل ہونے کے بعد تھوڑی تھوڑی کر کے زکات ادا کرے تب بھی جائز ہے۔
۱۹۔مسئلہ : اگر کسی آدمی نے کمیٹی کے طور پر پیسے جمع کروائے ہوں اور وہ نصاب کے برابر بھی ہوں اور پھر اس آدمی پر کسی قسم کاقرض وغیرہ بھی نہ ہو تو اس محفوظ شدہ پیسوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ضروری ہوگی اور زکوٰۃ ادا کرتے وقت کمیٹی کی جمع شدہ رقم کو اصل مال اور نقدی کے ساتھ ملایا جائے گا۔
۲۰۔مسئلہ : اگر کوئی شخص یوں کرتا ہے کہ وہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے اور پھر یہ سمجھتا ہے کہ انکم ٹیکس کے ساتھ ساتھ زکات بھی ادا ہو گئی۔ تو اس کی یہ سوچ غلط ہے کیونکہ انکم ٹیکس ملکی ضروریات کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے مقرّر ہے، جبکہ زکات ایک مسلمان کے لیے فریضہ خداوندی اور عبادت ہے، انکم ٹیکس ادا کرنے سے زکات ادا نہیں ہوتی، بلکہ زکات کا الگ ادا کرنا فرض ہے۔
افسوس! آج مسلم مال داروں کا ایک بڑا طبقہ نہ زکات کی اہمیت وفرضیت کو جانتا ہے اور نہ ہی جاننے کے بعد اس پر خلوص اور صدق دل سے عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔حالاں کہ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ مسلمان اسے اپنالیں تو پورا معاشرہ اور سوسائٹی خوش حال ہوجائے۔ اللہ کریم ہمیں مسائل دینیہ اور شریعت
اسلامیہ کوجاننے، سیکھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ حبیبک سید المرسلین
سید سیف الدین اصدق چشتی
بانی وسربراہ: تحریک پیغام اسلام جمشیدپور