Paigham-e-Islam

سیرت امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما

سیرت امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما

خاندان اہل بیت کو اللہ کریم نے ہر لحاظ سے افضل واعلیٰ اورطاہر ومطہر بنایا ہے۔اس عالی مرتبت خاندان میں بارہ شخصیات بڑی اہم ہیں، جوشریعت وطریقت کے مقتدا، کرامت وولایت کے سرتاج اورتصوف و روحانیت کے امام ہیں۔افسوس!ہم نے اپنی کم علمی اور ناسمجھی کی بنیادپر انھیں شیعوں کا مقتداوپیشوا سمجھ کر درکنار کردیا ہے۔ ان بزرگوں کا تصوف وطریقت اور خانقاہی سلاسل کے شجرے میں نام شامل ہے۔اور باضابطہ درود اثنا عشریہ کے نام سے قل شریف اور شجرہ ٔ طیبہ میں حصول برکت کے لیے اسے پڑھا جاتا ہے۔ملاحظہ فرماکر حرز جاں بنائیں:اللھم صل علی سیدنا محمد وعلی آل سیدنا محمد کان علیا فی درجاتہ ،  حسنا فی صفاتہ ،  شھیدا فی تجلیاتہ،  زین العابدین فی عبادتہ، باقرا فی علم الاولین والاخرین  ، صادقاً فی اقوالہ ، کاظماً فی جمیع احوالہ ، متمکناً فی مقام الرضا، جواداً کفہ عندالعطا، ھادیاً الیٰ سبیل النجاۃ ، عسکریامع الغزاۃ ، مھدیاً الیٰ طریق الیقین ، صلٰواۃ اللہ وسلامہ علیہ وعلیہ اجمعین۔یہ نام کچھ اس طرح ہیں:(۱)حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ (۲)حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ (۳)حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ (۴) حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ (۵)حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ(۶)حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ(۷)حضرت امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ (۸)حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ (۹)حضرت محمد تقی رضی اللہ عنہ(۱۰)حضرت امام علی نقی رضی اللہ عنہ(۱۱)حضرت امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ(۱۲) حضرت امام محمد مہدی رضی اللہ عنہ۔
واضح رہے کہ حضرت امام محمد مہدی رضی اللہ عنہ حضرت امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں ،جن کے بارے میں اہل تشیع کہتے ہیں کہ یہ غائب ہوگئے ہیں ، قرب ِقیامت میں تشریف لائیں گے ،اور اہل سنت والجماعت کا کہنا ہے کہ محمد بن حسن عسکری بچپن میں فوت ہوگئے تھے اور امام مہدی جو قرب ِ قیامت تشریف لائیں گے وہ امام حسن عسکری کے بیٹے نہیں بلکہ ان کےوالد کانام بھی حضورﷺ کے والد کے نام پر عبداللہ ہوگا ۔جن کے بارے میں حضورﷺاورمولاعلی شیر خدانےبشارتیں فرمائی ہیںجوکہ مختلف کتب احادیث میں موجودہیں ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اگر دنیا کا ایک دن بھی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا،یہاں تک کہ اس میں ایک شخص کو مجھ سے یا میرے اہل بیت میں سے اس طرح کا برپا کرے گا کہ اس کا نام میرے نام پر،اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا،وہ عدل و انصاف سے زمین کو بھر دے گا،جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے۔(ابوداؤد حدیث نمبر :۴۲۸۲باب فی ذکر المھدی)
ابو اسحاق کہتے ہیں کہ: حضرت علی نے اپنے صاحبزادے حسن کی طرف دیکھ کر فرمایا :میرا بیٹا جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا، سردار ہے۔ عنقریب اس کی پشت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام تمھارے نبی کے نام پر ہوگا، وہ اخلاق و عادات میں حضور ﷺکے مشابہ ہوگا، ظاہری شکل و صورت میں آپ ﷺکے مشابہ نہ ہوگا۔ پھر علی نے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینے کا واقعہ بیان فرمایا۔[ ابو داؤد، حدیث نمبر : ۴۲۸۵]
علما لکھتے ہیں کہ :حسنی سادات کو ظہور مہدی کا انعام ملا ہی اس لیے ہے کہ وہ اپنے جائز دعوے اور حق سے دستبردار ہو گئے تھے اب سچے مہدی کے لیے دعوے کے ذریعے یہ عظیم منصب انھیں عطا کیا جائے گا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نواسئہ رسول سیدنا حضرت امام  حسن رضی اللہ عنہ ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں حکومت سے دستبردار ہو گئے تھے اور محض مسلمانوں میں صلح اور اتفاق کی خاطر اپنا یہ جائز حق چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بدلے جب آخر زمانے میں امت کو اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہوگی تو اللہ ان ہی کی اولاد میں سے ایک مجاہداور لیڈر کوعالمی سطح پر خلافت کے قیام کے لیے منتخب فرمائے گا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر کوئی چیز چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو یا اس کی اولاد کو اس سے بہتر چیز عنایت فرما دیا کرتا ہے۔ چنانچہ محدود علاقے میں خلافت چھوڑنے کے بدلے حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو عالمی خلافت کا انعام عطا فرمائے گا۔
حضرت ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (م:۱۰۱۴ھ )لکھتے ہیں :جس طرح پیغمبر حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام آئے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں اللہ تعالیٰ نے صرف ایک نبی بھیجا جو ’’خاتم الانبیا‘‘تھے۔ اس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسل سے بہت سے اولیائے کرام آئے جبکہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ایک ایسے بہت بڑے ولی آئیں گے جو ’’خاتم الاولیا‘‘ہوں گے۔[ مرقاۃ المفاتیح : 147/10، از ملا علی قاری]
مزید تفصیل کے لیے ’’البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر رحمہ اللہ‘‘ اور ’’تہذیب التہذیب لابن حجر رحمہ اللہ ‘‘ ” کا مطالعہ مفید رہے گا۔
ولادت باسعادت:
        حضرت سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہماکی ولادت باسعادت ۳۸؍ہجری میں مدینۃ المنورہ میں ہوئی ۔آپ کے والد بزرگوار حضرتِ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے والدماجد حضرت سیدنامولا علی شیرخدا علی رضی اللہ عنہ سے اظہارِ عقیدت کے لیےعموماً اپنے بچوں کے نام علی رکھتے تھے۔ اسی مناسبت سے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا نام بھی علی ہے اور کنیت ابومحمد، ابوالحسن ، ابوعبداللہ ،ابوالقاسم اور ابوبکر ہے۔آپ قرشی،مطلبی، ہاشمی خاندان کے قابل فخرفرزندگان میں سے ایک ہیں۔ کثرتِ عبادت کے سبب آپ کا لقب سجاد ،زین العابدین، سیدالعابدین اور امین ہے ۔
                                                                        (تہذیب الکمال:۳۸۲/حلیۃالاولیا:۱۳۳۔وغیرھم)
آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتناشہر بانورضی اللہ عنہا فارس کے آخری بادشاہ یزدجرد کی بیٹی تھیں ۔ آپ نے ۲؍سال تک اپنے دادا حضور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی آغوشِ عاطفت میں پرورش پائی، پھر۱۰؍سال اپنے چچاجان حضرت سیدناامام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے زیرِ سایہ رہے اور تقریباً ۱۱؍سال اپنے والد ماجدحضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زیر نگرانی تربیت پاکر علوم معرفت کی منازل طے کیں ۔
عبادت وریاضت کی ایک جھلک:
سیدنا امام علی بن حسین اپنے اجداد واکابرین کی پاکیزہ زندگیوں کی چلتی پھرتی تصویر تھے،عبادت وریاضت،زہدوتقویٰ اورخشیت الہی میں یگانہ روزگار تھے ۔آپ جب وضو کرتے تو خوف کے مارے آپ کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ گھر والے دریافت کرتے ، کہ آخریہ وضو کے وقت آپ کو کیا ہوجاتا ہے؟ تو فرماتے : تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں؟(احیاء العلوم ، کتاب الخوف والرجاء ج ۴، ص ۲۲۶)
      امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ کا موت تک روزانہ ایک ہزار رکعت نفل پڑھنے کا معمول تھا اوران کو کثرت عبادت کی وجہ سے ”زین العابدین“ کہا جاتا تھا۔(تہذیب الکمال:۳۹۰)
امام زہری رحمۃ الله علیہ امام علی بن حسین کا تذکرہ کرتے ہوئے روتے تھے اور انھیں زین العابدین کے نام سے یاد کرتے تھے۔  آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ :میں اکثرعلی بن حسین کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا، میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں پایا؛ لیکن وہ بہت کم گو تھے ۔(حلیۃ الاولیاء:۱۳۵/۳)
حضرت ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے بارے میںلکھا ہے کہ’’ وہ عبادت گزاروں کی زینت، قانتین کی علامت، عبادت کا حق ادا کرنے والے او رانتہائی سخی ومشفق  تھے۔‘‘(حلیۃ الاولیاء:۱۳۳/۳)
ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے حج کا احرام باندھا تو تلبیہ (یعنی لبیک) نہیں پڑھی ۔ لوگوں نے عرض کی ،حضور! آپ لبیک کیوں نہیں پڑھتے ؟’’ آبدیدہ ہو کر ارشاد فرمایا،مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں لبیک کہوں اوراللہ رب العزت کی طرف سے ’’لاَ لَبَّیْکْ ‘‘کی آواز نہ آجائے ، یعنی میں تو یہ کہوں کہ اے میرے مالک ! میں بار بار تیرے دربار میں حاضر ہوں ۔ اور ادھر سے یہ آواز نہ آجائے کہ نہیں نہیں ! تیری حاضری قبول نہیں ۔لوگوں نے کہا ، حضور! پھر لبیک کہے بغیر آپ کا احرام کیسے ہوگا؟ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے’’ لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک لاَشَرِیْکَ لَکْ ‘‘پڑھا لیکن ایک دم خوفِ خدا خداوندی سے لرز کر اونٹ کی پشت سے زمین پر گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے ۔ جب ہوش میں آتے تو ’’لبیک‘‘ پڑھتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے ، اسی حالت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حج ادا فرمایا۔(اولیائے رجال الحدیث ،ص:۱۶۴ )
کسی نےمشہورتابعی حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے فلاں سے بڑھ کر کسی کو پرہیز گار پایا؟ انھوں نے فرمایا کیا تم نے علی بن حسین کو دیکھا ہے ؟ تو سائل کہا کہ نہیں، تو فرمایا کہ میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو بھی پرہیز گار نہیں پایا۔ (حلیۃالاولیاء: 141/3،تھذیب الکمال: 389/20)
حضرت ابو نوح انصاری کہتے ہیں کہ علی بن حسین کسی گھر میں نماز پڑھ رہے تھے اور وہ سجدے کی حالت میں تھے کہ وہاں آگ لگ گئی ، تو لوگوں نے کہنا شروع کیا: اے رسول الله کے فرزند، آگ آگ۔ انھوں نے اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھایا جب تک آگ بجھ نہ گئی، ان سے کسی نے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آگ سے بے خبر رکھا تھا؟ انھوں نے فرمایا: مجھے آخرت کی فکر نے اس آگ سے بے خبر کر دیا تھا۔(تاریخ ابن عساکر:19/12 وغیرھم)
امام جعفر صادق رحمۃ الله علیہ کہتے ہیں کہ میرے دادجان ایک رات ایک دن میں ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے ، ان کی موت کا وقت قریب آیا تو رونے لگے، میں نے کہا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حالاں کہ میں نے آپ کی طرح کسی کو الله کا طالب نہیں دیکھا اور یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ میرے داداجان ہیں، انھوں نے کہا اے میرے بیٹے! میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ملک مقرب ہو یا نبی مرسل، ہر ایک الله کی مشیت وارادے کے تحت ہو گا جس کو چاہے عذاب دے گا اور جس کوچاہیں معاف فرمادے گا(تاریخ ابن عساکر: ۲۰/۲۰)
سخاوت وفیاضی:
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بدنی عبادات کے ساتھ ساتھ مالی عبادات کا بھی غیر معمولی اہتمام کیا کرتے تھے، وہ انتہائی درجے کے سخی اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنے والے تھے ، امام محمد باقررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے دو مرتبہ اپنا سارا مال الله کی راہ میں صدقہ کر دیا تھا۔(حلیۃ الاولیاء:۱۴۰)
ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ علی بن حسین رات کے اندھیرے میں پشت پر روٹی لادے مساکین کو تلاش کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رات کے اندھیرے میں چھپاکرصدقہ کرنا الله کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے، (حلیۃ الاولیاء:۱۳۶،۱۳)
شیبہ بن نعامہ کہتے ہیں کہ علی بن حسین کو لوگ ان کی زندگی میں بخیل تصور کرتے تھے، لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو پتہ چلا کہ وہ مدینہ منورہ کے سو گھرانوں کی کفالت کرتے تھے۔ (الطبقات:۲۲۲/۵)
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے معاش کا انتظام کون کرتا ہے؟ لیکن جب علی بن حسین کا انتقال ہوا تو وہ اس ذریعہٴ معاش سے محروم ہو گئے، جو رات کو ان کے لیے سبب بنتا تھا۔(تاریخ ابن عساکر وغیرہ)
جب حضرت علی بن حسین کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان کی کمر پر کچھ نشان پائے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ یہ اس بوجھ کی وجہ سے ہے جو رات کے اندھیرے میں یتیموں کے لیے لے جایا کرتے تھے۔ ((تاریخ ابن عساکر:۲۱/۱۲)
حضرت علی بن حسین فرمایا کرتے تھے کہ جب میں کسی مسلمان بھائی کو دیکھتا ہوں تو میں اس کے لیے الله سے جنت کا سوال کرتا ہوں تو دنیا میں اس کے ساتھ بخل کا معاملہ کیسے کروں؟!جب کل کا دن ہوگا تو مجھ سے کہا جائے گا:اگر جنت تیرے ہاتھ مین ہوتی تو تواس کے ساتھ اس سے زیادہ بخل کا معاملہ کرتا۔(تاریخ ابن عساکر: ۱۲/۲۱)
مقبولیت اور شان جلالت :
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اپنے زمانے کے بہت ہی جلیل القدراور عالی مرتبت بزرگوں میں سے ایک تھے ۔خاندان اہل بیت کے ایک عظیم فرد ہونے کی وجہ کرعوام وخواص ان کی بہت زیادہ عزت وتکریم کیا کرتے تھے۔مشہور واقعہ ہے کہ ہشام بن عبدالملک اپنے زمانہ خلافت سے قبل ایک دفعہ حج کے لیے گیا ، بیت الله شریف کے طواف کے دوران حجر اسود کا استیلام کرنے کا ارادہ کیا، لیکن مجمع کثیر کی وجہ سے قریب نہ جاپار ہا تھاکہ اتنے میں حضرت علی بن حسین تشریف لائے، ایک چادر او رتہہ بندباندھے ہوئے، انتہائی خوب صورت چہرے والے، بہترین خوش بو والے، ان کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پرسجدے کا نشان تھا،جن کےچہرے سے نورٹپک رہا تھا،نہایت وقار وتمکنت کے ساتھ تشریف لاتے ہیں اور طواف کعبہ میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔آپ جب حجر اسود کے قریب پہنچے تو لوگ ان کی بزرگی اور جلالت شان کی وجہ سے دونوں طرف ہٹتے چلے گئے اور آپ نے اطمینان کے ساتھ استیلام کیا۔ہشام کو یہ بات اچھی نہ لگی ،معاًاہل شام میں سے کسی نے پوچھا! یہ کون ہے کہ جس کی ہیبت اور جلال نے لوگوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبورکردیاہے؟ ہشام نے یہ سوچ کر کہ کہیں اہل شام ان کی طرف مائل نہ ہو جائیں ، تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئےکہتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہیں؟عرب کامشہور شاعر’’ فَرَزْدَقْ‘‘ قریب ہی کھڑا تھا، اس نے جھٹ کہا کہ توانھیں نہیں جانتا!!خیر!تو نہ جانتا ہو نہ جانے مگرمیں انھیں جانتا ہوں ۔ اور پھر اسی وقت والہانہ اندازمیں فرزدق نے حضرت امام زین العابدین کی شان میں اشعار کہنے شروع کیے:
 هَذَا الَّذِي تَعْرِفُ الْبَطْحَاءُ وَطْأَتَهُ
وَ الْبَيْتُ  يَعْرِفُهُ  وَ الْحِلُّ   وَ الْحَرَمُ‏
یہ وہ ہیں جنہیں مکہ کی زمین ان کے قدموں کے نشانات پہچانتی ہے۔ خدا کا گھر (خانہ کعبہ) حرم اور حرم کے باہر کی سرزمیں ان کو پہچانتی ہے۔
هَذَا ابْنُ   خَيْرِ  عِبَادِ   اللهِ   كُلِّهِمْ
هَذَا التَّقِيُّ النَّقِيُّ الطَّاهِرُ الْعَلَمُ‏
یہ بہترین بندگان خدا کے فرزند ہیں۔ یہ پرہیزگار، پاک و پاکیزہ اور ہدایت کا پرچم ہیں
هَذَا الَّذِي أَحْمَدُ الْمُخْتَارُ     وَالِدُهُ
صَلَّى  عَلَيْهِ  إِلَهِي مَا جَرَى    الْقَلَمُ‏
یہ وہ ہیں، خدا کے منتخب کردہ رسول احمد مختارصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے والد ہیں، جن پر خدا ہمیشہ درود و سلام بھیجتا رہتا ہے
لَوْ يَعْلَمُ الرُّكْنُ مَنْ قَدْ جَاءَ يَلْثِمُهُ
لَخَرَّ  يَلْثِمُ   مِنْهُ  مَا   وَطِئَ   الْقَدَمُ‏
اگر حجر اسود کو معلوم ہو جائے کہ کون اسکا بوسہ لینے آرہا ہے تو بلا اختیار خود کو زمین پر گرا کر ان کے قدموں کا بوسہ لیتا
هَذَا  عَلِيٌّ   رَسُولُ  اللهِ   وَالِدُهٗ
أَمْسَتْ بِنُورِ هُدَاهُ تَهْتَدِي الْأُمَمُ‏
یہ علی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے والد ہیں۔ ان کی ہدایات سے امتیں ہدایت یافتہ ہوتی ہیں۔
وَ لَيْسَ قَوْلُكَ   مَنْ هَذَا  بِضَائِرِهِ
الْعَرَبُ تَعْرِفُ مَنْ أَنْكَرْتَ وَ الْعَجَمُ‏
(اے ہشام) تیرا یہ کہنا کہ ’’یہ کون ہیں‘‘اس سے ان کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ جس کو تو نہیں پہچانتا اس کو عرب و عجم پہچانتے ہیں۔
یہ تقریباً ۴۲؍اشعار ہیں جوفی البدیہہ کہے گئے ہیں ۔ظاہرہے کہ یہ ایک اتفاقی واقعہ تھا اور فرزدق کے فرشتوں کو بھی اس کا علم نہ تھا کہ حجر اسود کے قریب ایسا کچھ ہونے والاہے،اس لیے کسی پیشگی تیاری اورقصیدہ لکھ کر لانے کا بھی کوئی سوال نہ تھا۔اس سے جہاں اس شاعر کی فصاحت وبلاغت اور صلاحیت وقابلیت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں امام زین العابدین اور خاندان اہل بیت سےعشق ومحبت اور گہری وابستگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔
بہرحال!اس کی محبت اورجذبات سے لبریز اشعار سن کر ہشام بن عبدالملک کو غصہ آگیا،جوآنا ہی تھا۔اس نے فرزدق کو قیدمیں ڈال دینے کا حکم دے دیا۔ حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انھوں نے فرزدق کے پاس ۱۲؍ ہزار دینار بھیجے او رکہا ابو فراس! اگر ہمارے پاس اس سے زیادہ ہوتے تو ہم وہ بھی بھجوادیتے، فرزدق نےجسے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ اے رسول الله ﷺکے فرزند !میں نےاب تک جودوسروں کے لیے قصیدے کہےوہ یقیناًمال ودولت ،درہم ودینار اوردنیا کے لیے ہوتا تھا مگرآپ کے لیے جومیں نے کہاوہ الله او راس کے رسول ﷺکی رضاوخوش نودی کے لیے کہا ہے او رمیں اس پر کچھ مال وزرنہیں چاہتا۔ حضرت امام زین العابدین نے یہ کہہ کر واپس پھربھیجوایاکہ تمہارے اوپر جو میرا حق ہے، اس کا واسطہ کہ تم انھیں قبول کرلو، بے شک الله تیرے دل کے حال او رنیت کو جانتاہے۔ تو پھرفرزدق نےاسے قبول کر لیا۔(سیر اَعلام النبلاء: ۳۹۹/۴)
حدیث پر عمل کا جذبہ اور دریادلی:
صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حضوراقدس ﷺنے فرمایا: جو شخص مسلمان غلام کو آزاد کریگا اسکے ہر عضو کے بدلے میں اﷲتعالیٰ اس کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد فرمائے گا۔سعید بن مرجانہ کہتے ہیں میں نے یہ حدیث علی بن حسین (امام زین العابدین) رضی اﷲتعالیٰ عنہما کو سنائی انھوں نے اپنا ایک ایسا غلام آزاد کیا جس کی قیمت عبداﷲ بن جعفر دس ۱۰ ؍ہزار دینے کے لیے تیار تھے۔ (صحیح البخاري،کتاب العتق،باب فی العتق وفضلہ، الحدیث : ۲۵۱۷،ج۲،ص۱۵۰)
نبی کریم ﷺ کی تلوار
حضور اقدس ﷺکی مقدس تلوار ’’ذوالفقار‘‘ حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔جو آپ ﷺ کو غزوہ بدر میں بطور ’’صفی‘‘(مال غنیمت میں سے منتخب کردہ ) کے ملی تھی ۔ یہ تلوار پہلے ابوجہل کے پاس تھی، بعد ازاں آپ ﷺ نے یہ تلوار حضرت مولا علی شیرخدا رضی اللہ عنہ کو عطا فرمادی تھی۔ اس تلوار کا تذکرہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں کثرت سے ملتا ہے۔غزوہ احد کے موقع پر آپ ﷺ نے جس تلوار کو خواب میں دیکھا تھا وہ بھی شارحین کی صراحت کے مطابق ’’ذو الفقار‘‘ تھی۔
کربلا کےجاں گدازحادثے کے بعد وہ مدینہ منورہ واپس آئے تو صحابی رسول حضرت مسور بن مخرمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا مجھے یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ بنو امیہ آپ سے اس تلوار کو چھین لیں گے۔ اس لیے آپ مجھے وہ تلوار دے دیجیےجب تک میرے جسم میں جان ہے کوئی اِس کو مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ (بخاری جلد۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من درع النبیﷺ)
آپ کی کرامت:
حجاج ابن یوسف کے وقت میں جب دوبارہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اسیر کیے گئے اور لوہے کی بھاری قید و بند کا بارِگراں ان کے تنِ نازنین پر ڈالا گیا اور پہرہ دارمتعین کردئیے گئے، حضرت اس حالت کو دیکھ کر روپڑے اور کہا کہ مجھے تمنا تھی کہ کاش! میں آپ کی جگہ ہوتا کہ آپ پر یہ مصیبتوں کا بارِ گراںدیکھناگوارا نہیں ہوتا۔اس پر امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیاتجھے یہ گمان ہے کہ اس قیدو بند ش سے مجھے کرب و بے چینی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے کچھ بھی نہ رہے مگر اس میں اجر وثواب اور تَذَکُّرہے ۔اس سے عذابِ الٰہی کی یادآتی ہےاورخشیت خداوندی کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ فرماکر بیڑیوں میں سے پاؤں اور ہتھکڑیوں میں سے ہاتھ نکال کر سامنے کردئیے۔
حضرات خلفائے راشدین  سے تعلق:
اہل بیت کے پاک باز نفوس حضرات صحابہ کرام وخلفائے راشدین رضی الله عنہم کے بارے وہی رائے رکھتے تھےجو اہل سنت کا مسلک و مشرب ہے۔اہل بیت کے مقدس حضرات شیخین کریمین کا بھرپور دفاع فرمایا کرتے تھےاوربچوں کے نام بھی ان عظیم ہستیوں کے نام پررکھا کرتے تھے۔ ابو حازم کہتے ہیں کہ علی بن حسین سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر وعمر رضی الله عنہما کا حضور ﷺ کے نزدیک کیا مرتبہ تھا؟ انھوں نے حضورﷺکے روضہٴ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: جو تقرب ان کو آج اس روضہ میں حاصل ہے ایسا ہیﷺ کی زندگی میں بھی تھا۔(تھذیب الکمال: 393)
صدیق و عمر کی  رفاقت  تو  دیکھیے
بعد وفات بھی شہ دیں کے ساتھ ہیں
حضرت محمد بن علی بن حسین رضی اللہ عنھمانے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ ان کے پاس عراق سے کچھ لوگ آئے او رانھوں نے ابو بکر وعمرکا تذکرہ سبّ وشتم کے ساتھ کیا اور حضرت عثمان کی شان میں گستاخی کرنے لگے، (والعیاذ باللہ)حضرت علی بن حسین نے ان عراقیوں سے کہا: کیا تم ان مہاجرین اولین میں سے ہو جن کے بارے میں الله تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا: لِلْفُقَرَاء الْمُھَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیْارِھِمْ وَأَمْوَالِھِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللہِ وَرِضْوَاناً وَیَنصُرُونَ اللہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَئِکَ ھُمُ الصَّادِقُون(الحشر:۸)(ان فقیر مہاجروں کے لیے جو اپنے گھروں اوراپنے مالوں سے نکالے گئے اس حال میں کہ اللہ کی طرف سے فضل اور رضا چاہتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ،وہی لوگ سچے ہیں ۔)اہل عراق نے کہا: ہم ان لوگوں میں سے نہیں جن کے بارے میں الله تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔
حضرت علی بن حسین نے پھر کہا: کیا تم لوگ ان لوگوں میں سے ہو جن کے بارے میں الله تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا: وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیْمَانَ مِن قَبْلِھِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ھَاجَرَ إِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِیْ صُدُورِھِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ(الحشر:۹)(اوروہ جنہوں نے ان (مہاجرین) سے پہلے اس شہر کواور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور وہ اپنے دلوں میں اس کے متعلق کوئی حسد نہیں پاتے جو ان کو دیا گیا اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں ۔)اہل عراق نے کہا، ہم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں الله نے یہ ارشاد فرمایا ہے ۔
اس کے بعد حضرت امام زین العابدین نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں نے خود اقرار کیا کہ تم آیات میں مذکور دونوں فریقوں میں سے نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں الله نے یہ ارشاد فرمایا:وَالَّذِیْنَ جَاؤُوا مِن بَعْدِھِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ(الحشر:۱۰) اوران کے بعد آنے والے عرض کرتے ہیں 🙁 اے ہمارے رب! ہمیں اورہمارے ان بھائیوں کوبخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان، بہت رحمت والا ہے۔)
پھرفرمایا:تم لوگ میرے پاس سے اٹھ جاوٴ، اللہ تمہارا گھر قریب نہ کرے،تم اپنے آپ کو اسلام کے لبادے میں چھپاتے ہو، جب کہ تم اہل اسلام میں سے نہیں ہو۔(حلیۃالاولیا:  ۱۳۶۔۱۳۷/۳۔تھذیب الکمال:۳۹۴۔۳۹۵/۲۰۔سیر اعلام النبلاء:۳۹۵/۴)
حضرت امام جعفر بن محمدرضی اللہ عنھمانے اپنے والد سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے والدکے پاس ایک آدمی آیا او رکہنے لگا مجھے ابوبکر وعمرکے بارے میں بتائیں۔ انھوں نے فرمایا: صدیق کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ اس آدمی نے کہا آپ انہیں”صدیق“ کہہ رہے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا: تیری ماں تجھے گم کردے! مجھ سے بہتر یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رمہاجرین وانصار نے ان کو ”صدیق“ کہا ہے، پس جو ان کو صدیق نہ کہے، الله اس کی بات کو سچا نہ کرے ، جاؤ! ابوبکر وعمرسے محبت کرو اور انھیں عزیز رکھو، اس کی تمام ذمہ داری میری گردن پر ہے۔(تہذیب الکمال: ۳۹۳۔۳۹۴/۲۰۔سیر اعلام النبلاء:۳۹۵/۴)
حضرت یحییٰ بن سعید کہتے ہیں علی بن حسین المعروف زین العابدین رحمۃ الله علیہ نے فرمایا: الله کی قسم! حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ناحق شہید کیا گیا ہے۔ (الطبقات: ۲۱۶/۵۔سیر اعلام النبلاء:۳۹۷/۴)
ان واقعات میں ان لوگوں کے لیے بڑا سبق اورنصیحت ہے جو خود کو اہل سنت کہنے کے باوجود اہل بیت کی محبت کے نام پر خلفائے راشدین جیسی مقدس جماعت تک پررافضیوں کے بہکاوے میںآکران ہی کی روش اختیار کرتے ہیں۔اگرہمارے دلوں میں اہل بیت کی محبت ہے اور بے شک ہے تو کم ازکم اپنے کرداروعمل سے بھی ان کی غلامی کا ثبوت پیش کرنا چاہیے۔
وفات:  حضرت علی بن حسین سانحۂ کربلا میں موجود تھے، اس وقت ان کی عمر ۲۳؍ یا۲۵؍ سال تھی، لیکن بیماری کی وجہ سے لڑائی میں شریک نہ ہو سکے۔ یہ اس سانحے میں بچ جانے والے واحد مرد تھے۔ ان کوپابہ زنجیرکوفہ اور پھر دمشق میں یزید کے سامنے لے جایا گیا۔ وہاںبھرے دربار میںبنت علی بن ابی طالب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے ساتھ آپ کے جوشیلے خطبات نےجذبۂ علی اورجرأت حسینی کاایسانمونہ پیش کیا کہ ابن زیاد ویزید کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور انھیں اپنے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکتی نظر آئی۔پھوپھی اور بھتیجے کی تقاریر سےنئے اسلام قبول کرنے والوں کو اہل بیت کی عظمت وشان اور ان کےمقام و منزلت سے واقفیت حاصل ہوئی ۔کچھ دنوں کےبعد دیگر خواتین کے ساتھ آپ کو واپس مدینہ بھیج دیاگیا، جہاں انھوں نے چند اصحاب کے ساتھ تقریباً عزلت نشینی کی زندگی بسر کی۔ کہا جاتاکہ واقعہ کربلا کے بعد انھیں کسی نے ہنستے اورمسکراتے نہیں دیکھا،آنکھوں سے بیشتر وقت اشک رواں رہتا۔ظاہرہےکہ جس کی نگاہوں کے سامنے ایسادردناک سانحہ پیش آیا ہو،پورے خاندان کوبےدردی کے ساتھ ذبح کردیا گیا ہو ، اس کی جوکیفیت ہوگی ،اس پر جوبیت رہی ہوگی ،اس حال ِدل کوبھلا دوسرا کون جان سکتاہے!!
مدینہ منورہ آنے کے بعد ان کی زندگی اور بیانات مکمل طور پر طہارت وپاکیزگی اور مذہبی تعلیمات کے لیے وقف تھی، زیادہ تر دعاؤں اور التجاؤں میں آپ مشغول رہتے۔ آپ کی مشہور مناجات صحیفۂ سجادیہ کے نام سے معروف ہے۔
۵۸؍برس کی عمر میں ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دیا جس کی وجہ سے حضرت امام محرم الحرام ۹۴ھ میں شہادت کے منصب پر فائز ہوکر مدینہ شریف کے جنت البقیع میں آرام فرما ہوئے ۔ اللہ کریم اپنے حبیب مکرم ﷺ کے صدقے ان کے ظاہری و باطنی برکات سے مسلمانوں کو متمتع اور فیض یاب فرمائے اور ان کی اخلاص مندانہ قربانیوں کی برکت سے اسلام کو ہمیشہ مظفرو منصور رکھے۔آمین۔
  وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلیٰ خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖوَعِتْرَتِہٖ اَجْمَعِیْن
                           سید سیف الدین اصدق
                  بانی وسربراہ: تحریک پیغام اسلام