آئین جواں مرداں حق گوئی وبے باکی
وَّ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ(ص:۶۵)
( اور کوئی معبود نہیں مگر ایک اللہ جوسب پر غالب ہے)
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ (رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَة)(حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظالم بادشاہ یا ظالم حکمران کے سامنے انصاف کی بات کہنا اَفضل ترین جہاد ہے۔)
عقیدۂ توحید انسان کو بلا کا جری،غضب کا حق گو اور انتہائی نڈروبے باک بنادیتا ہے۔کیوں کہ ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ سے یہ عقیدہ مومن کے دل میں راسخ ہوجاتا ہے کہ تمام طاقت وقوت رب قدیر ہی کے دست قدرت میں ہے۔وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے،اور اگر وہ نہ چاہے تو کسی کی چاہت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔یہی وجہ ہے کہ مردانِ حق آگاہ کوکسی ظالم وجابر کا دبدبہ ،شاہانِ وقت کی تمکنت اورحاکمانِ زمانہ کاوقار انھیں کلمۂ حق کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔انھوں نے ہرڈر اور خوف کو دل سے نکال کر طاغوتی طاقتوں کے سامنے کسی بھی طرح کی سجدہ ریزی سے انکار کردیا۔جناب اقبالؔ نے کیا خوب کہا ہے؎
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
آپ مکہ کی وادی سے لے کر کربلاکی سرزمین تک دین حق کی سربلندی اور اسلام کی حفاظت وصیانت کی لیے دی جانے والی قربانیوں کا منظر دیکھیں اور ان حق پرستوں کی عظمت کو سلام کریںکہ جنھوں نے جان دینا تو گوارا کیا لیکن اظہارِ حق سے ایک لمحہ کے لیے بھی دست بردار ی اختیار نہیں کی۔ان کی زبان دل کی رفیق رہی اور منافقت کو انھوں نے پاس پھٹکنے نہ دیا۔
اسلام کے دبدبہ اور جلال کے عظیم شاہکار سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے اگر ایک بدو دوگرہ کپڑے کے متعلق بھرے مجمعے میںسوال کردیتا ہے ،اور آپ اسے نہ ڈانتے ہیں، نہ کوئی سزا دینے کے احکام جاری فرماتے ہیں بلکہ اسے مطمئن کرتے ہیں۔ اس واقعے میں سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت اور کمال کے جوپہلو ہیں وہ تو ہیں ہی ہیں ۔ــ۔۔۔۔داد تو اس بدو کو بھی دینی چاہیے کہ جوبھرے مجمعے میں عمر جیسے عظیم حکمران سے سوال کرتاہے۔۔۔ آج ہےکسی میں جرأت کہ وہ’’ سی ایم،پی ایم‘‘ نہیں کسی وارڈ کمشنر سے سوال کردے؟؟؟ذراسوچیے !کہ اگر وہ بدو سوال نہ کرتا توسیدنا فاروقِ اعظم کی زندگی کا یہ روشن پہلو کیوں کر سامنے آتا؟
یہ دور تو خیر آسمانی خلافت کے قیام کا دور تھا اور حضرت شاہ ولی اللہ کے الفاظ میں ’’دورِ رسالت کا تتمہ اور تکملہ‘‘مابعد ادوار میں بھی جب خلافت بادشاہی بن کر رہ گئی تھی،حق گوئی وبے باکی کے حیران کن نمونے امت نے چھوڑے ہیں۔تاریخ میں ایسے بہت سے منظر محفوظ ہیں کہ بڑے کروفر والے سخت گیر حاکم بھی کلمۂ حق کے سبب اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوئے۔
حجاج بن یوسف کی سخت گیری اور ظلم سے کون ناواقف ہوگا۔حجاج بن یوسف نے ہی قران پاک پر اعراب لگوائے، الله تعالیٰ نے اسے بڑی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے نوازا تھا ۔وہ حافظ قران بھی تھا۔شراب نوشی اور بدکاری سے بچتا تھا۔ وہ جہاد کا دھنی اور فتوحات کا حریص تھا، اس کے دور میں مسلمان مجاہدین، چین تک پہنچ گئے تھے،مگر اس کی ان تمام اچھائیوں پر اس کی ایک برائی نے پردہ ڈال دیا تھا اور وہ برائی تھی ظلم وجبر،نا انصافی،انسانیت کی خوں ریزی۔
ایک دن اسے پتہ چلا کہ عراق کا بوڑھا فقیہ یحییٰ بن یعمر اپنی کتب میں حسنین (علیہ السلام) کو ’’ابن رسول اللہ‘‘ لکھتا ہے۔ حجاج نے حکم دیا اس بوڑھے کو ذرا دربار میں پیش کرو، اسے میں سبق سکھاتا ہوں۔حضرت یحییٰ بن یعمررضی اللہ عنہ کو پابند رسن حجاج کی دربار میں پیش کیا گیا۔ حجاج نے کہا یحییٰ بن یعمر بتاؤ کیا وجہ ہے کہ تم حسنین (علیھم السلام ) کو رسول کا بیٹا کہتے ہو جب کہ قرآن کہتا ہے’’ مَا کَانَ مُحمَّدٌ اَبَا اَحَدِ مِّنْ رِّجَالِکُمْ ‘‘ محمد تم مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے۔(احزاب: ۴۰)
حضرت یحییٰ نے کہا میں انہیں اولاد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہونے کی بنیاد پر ابن رسول کہتا ہوں۔حجاج نے کہا یحییٰ بن یعمر! اولاد باپ سے چلتی ہے، ماں سے نہیں۔یعمر نے کہا: میں اپنے قول کو قرآن سے ثابت کروں گا۔ حجاج نے کہا اگر تم نے جواب دیا تو انعام دوں گااگر نہیں تو میں تمہیں قتل کرنے کا مجاز ہوں۔حضرت یحییٰ نے کہا قبول ہے مگر کیا تم حسنین (علیھم السلام) کو اولاد پیغمبر نہیں مانتے؟
حجاج بولا نہیں، آپ نے فرمایا: قرآن میں سورہ ٔانعام کی آیت ۸۴؍پڑھو۔ وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ۰ۭ كُلًّا ہَدَيْنَا۰ۚ وَنُوْحًا ہَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ *ذُرِّيَّتِہٖ* دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۸۴ۙ
(اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے، سب کی رہنمائی بھی کی اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی *اور ان کی اولاد میں سے* داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کی بھی اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں۔)
حضرت یحییٰ نے کہا اس میں اولاد ابراھیم کی بات ہو رہی ہے نا؟حجاج بولا بالکل! یحییٰ نے کہا اگلی آیت پڑھو: وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَ۔ (اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کی بھی، (یہ) سب صالحین میں سے تھے۔)
یحییٰ بن یعمر رضی اللہ عنہ نے کہا عیسیٰ(علیہ السلام) کیسے اولاد ابراھیم (علیہ السلام ) ہیں جب کہ ان کا تو باپ ہی نہیں تھا؟؟؟
تم کہتے ہو اولاد باپ سے چلتی ہے ۔ قرآن اگر عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے کئی پشتوں کے بعد بھی اولاد ابراہیم (علیہ السلام ) کہہ رہا ہے تو حسن و حسین (علیھم السلام) تو رسول اللہ(ﷺ) کے بہت قریب تھے وہ کیوں ابن رسول اللہ نہ کہلائیں؟۔
حجاج جیسا سخت گیر اور شعلہ مزاج آدمی بھی اس حق گوئی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔کہنے لگا میں نے اس آیت کو بارہا پڑھا لیکن کبھی میرا ذہن اس طرف نہیں گیا۔بخدا ! یہ بہت عجیب استنباط ہے۔پھر اس نے کہا اسے آزاد کر دو، جانے دو، بعض روایات کے مطابق حجاج کو وعدے کے مطابق مجبور ہوکر انھیںانعام بھی دینا پڑا۔ (حوالہ: احتجاجات۔ترجمہ جلد چہارم بحار الانوار، جلد۲، ص: ۱۴۵)
(۲)سعید بن جبیر کی جرات ایمانی :حضرت سعید بن جبیررضی اللہ عنہ جو کے ایک تابعی بزرگ تھے ایک دن ممبر پر بیٹھے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے ’’حجاج ایک ظالم شخص ہے‘‘۔ادھر جب حجاج کو پتہ چلا کہ آپ میرے بارے میں ایسا گمان کرتے ھیں تو آپکو دربار میں بلا لیا اور پوچھا۔کیا تم نے میرے بارے میں ایسی باتیں بولی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا ہاں!بالکل تو ایک ظالم شخص ہے۔ یہ سن کر حجاج کا رنگ غصے سے سرخ ہوگیا اور آپ کے قتل کے احکامات جاری کر دیے۔ جب آپ کو قتل کے لیے دربار سے باہر لے کر جانے لگے تو آپ مسکرا دیے۔حجاج کو ناگوار گزرا اس نےپوچھا کیوں مسکراتے ہو؟ تو آپ نے جواب دیا: تیری بےوقوفی پر اور جو اللہ تجھے ڈھیل دے رہا ہے اس پر مسکراتا ہوں۔حجاج نے پھر حکم دیا کہ اسے میرے سامنے ذبح کر دو، جب خنجر گلے پر رکھا گیا تو آپ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ جملہ فرمایا:اے اللہ میرے چہرہ تیری طرف ہے تیری رضا پر راضی ہوں یہ حجاج نہ موت کا مالک ہے نہ زندگی کا۔جب حجاج نے یہ سنا تو بولا اس کا رخ قبلہ کی طرف سے پھیر دو۔ جب قبلہ سے رخ پھیرا تو آپ نے فرمایا: یااللہ رخ جدھر بھی ہو تو ہر جگہ موجود ہے، مشرق مغرب ہرطرف تیری حکمرانی ہے۔ میری دعا ہے کہ میرا قتل اس کا آخری ظلم ہو، میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا۔جب آپ کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا اس کے ساتھ ہی آپ کوقتل کر دیا گیا اور اتنا خون نکلا کہ دربار تر ہو گیا۔ ایک سمجھ دار بندہ بولا کہ اتنا خون تب نکلتا ہے جب کوئی خوشی خوشی مسکراتا ہوا اللہ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے۔ ع راضی ہوں میں اسی میں جس میں تری رضا ہو
حجاج نے اپنی زندگی میں ایک خوں خوار درندے کا روپ دھار رکھا تھا۔ایک طرف موسیٰ بن نصیر اور محمد بن قاسم کفار کی گردنیں اڑا رہے تھے اور دوسری طرف وہ خود الله کے بندوں،اولیااور علما کے خوں سے ہولی کھیل رہا تھا۔ حجاج نے ایک لاکھ بیس ہزار انسانوں کو قتل کیا ہے ،اس کے جیل خانوں میں ایک ایک دن میں اسی اسی ہزار قیدی ایک وقت میں ہوتے جن میں سے تیس ہزار عورتیں تھیں۔اس عظیم تابعی اور زاہد و پارسا انسان حضرت سعید بن جبیر رضی الله عنہ کا قتل ،ان کی دعا کے مطابق آخری قتل ثابت ہوا۔
ان کی شہادت کے بعد حجاج پر وحشت سوار ہو گئی تھی، وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا، حجاج جب بھی سوتا، حضرت سعید بن جبیر اس کے خواب میں ا کر ا س کا دامن پکڑ کر کہتے کہ اے دشمن خدا تو نے مجھے کیوں قتل کیا، میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟ جواب میں حجاج کہتا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیا ہے۔؟اس کے ساتھ حجاج کو وہ بیماری لگ گئی جسےزمہریری کہا جاتا ہے ،اس میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی تھی ،وہ کانپتا تھا ،آگ سے بھری انگیٹھیاں اس کے پاس لائی جاتی تھیں اور اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اسکی کھال جل جاتی تھی مگر اسے احساس نہیں ہوتا تھا، حکیموں کو دکھانے پر انہوں نے بتایا کہ پیٹ میں سرطان ہے ،ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا۔
تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کے ساتھ بہت عجیب نسل کے کیڑے چمٹے ہوئے تھے اور اتنی بدبو تھی جو پورے ایک مربع میل کے فاصلے پر پھیل گی۔ درباری اٹھ کر بھاگ گئے حکیم بھی بھاگنے لگا، حجاج بولا تو کدھر جاتا ھے علاج تو کر۔ حکیم بولا :تیری بیماری زمینی نہیں آسمانی ہے۔ اللہ سے پناہ مانگ حجاج، جب مادی تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہ الله علیہ کو بلوایا اور ان سے دعا کی درخواست کی۔
وہ حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے اور فرمانے لگے میں نے تجھے منع کیا تھا کہ نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا، ان پر ظلم نہ کرنا ،مگر تو باز نہ آیا …آج حجاج عبرت کا سبب بنا ہوا تھا،وہ اندر ،باہر سے جل رہا تھا ،وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا. حضرت بن جبیر رضی الله تعالی عنہ کی وفات کے چالیس دن بعد ہی حجاج کی بھی موت ہو گئی ۔
حجاج نے جب دیکھا کہ اس کےبچنے کا امکان نہیں تو قریبی عزیزوں کو بلایا جو بڑی کراہت کے ساتھ حجاج کے پاس آئے۔ وہ بولا میں مر جاؤں تو جنازہ رات کو پڑھانا اور صبح ہو تو میری قبر کا نشان بھی مٹا دینا کیوں کہ لوگ مجھے مرنے کے بعد قبر میں بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اگلے دن حجاج کا پیٹ پھٹ گیا اور اسکی موت واقع ہوگئی۔اللہ ظالم کی رسی دراز ضرور کرتا ہے، لیکن جب ظالم سے حساب لیتا ہے تو، فرشتے بھی خشیت الہی سے کانپ جاتے ہیں، عرش ہل جاتا ہے۔اللہ ظالموں کے ظلم سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔!!
(۳)عباسی خلیفہ منصور اپنے دربار میں تخت نشین تھا کہ ایک مکھی اسے بار بار تنگ کرنے لگی ۔ اس نے مکھی کو بھگانے کی بہت کوشش کی لیکن مکھی نے جان نہ چھوڑی یہاں تک کہ وہ پریشان ہوگیا ۔ اس نے دربان سے کہا کہ دیکھو محل میں کوئی عالم ہے ؟دربان نے کہا : جی ہاں !مقاتل بن سلیمان موجود ہیں ۔منصور نے کہا : انہیں اندر بلاؤ۔جب وہ تشریف لے آئے تو منصور نے کہا : آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ اللہ نے مکھی کو کس مصلحت کے لیے پیدا کیا ہے ؟مقاتل بن سلیمان رحمہ اللہ مسکرائے اور فرمایا : متکبر لوگوں کو ذلیل کرنے کے لیے۔(تاریخ الخلفا)
(۴)یہ شام کے امام ،امام اوزاعی ہیں ،عباسی خلیفہ سفاح کا چچا عبداللہ بن علی ان سے پوچھتا ہے :ہم نے بنوامیہ کی جو خوں ریزی کی ہے اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟اس کے اصرار پر امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’بخدا! ان لوگوں کا خون تم پر حرام تھا‘‘۔یہ سن کر عبداللہ غصے سے بے قابو ہوگیا ۔مگر آپ پورے اطمنان وسکون کے ساتھ تشریف فرما رہے۔
(۶)خلیفہ ہارون رشید اپنے بیٹوں امین ومامون کے ساتھ حضرت امام مالک کے درس میں پہنچا اور کہنے لگا کہ ’’حدیث کی قرأت میں کروں گا مگر شرط یہ ہے کہ عام سامعین کو آپ اپنے حلقۂ درس سے نکل دیجیے‘‘۔حضرت امام نے فرمایا: اگر خاص لوگوں کی خاطر عام لوگوں کو محروم کردیا جائےتو پھر خاص لوگوں کو بھی کوئی فائدہ نہیں والا۔پھر کمال ِ بے نیازی کے ساتھ اپنے ایک شاگرد سے فرمایا: قرأت شروع کرو۔اس نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور خلیفہ کو خاموشی کے ساتھ بیٹھ جانا پڑا۔
(۷) یہ شارح صحیح مسلم’’ امام نووی‘‘ ہیں۔مصر کا مشہور فرماں روا’’ رکن الدین بیبرس ‘‘ہے،بڑے جاہ وجلال کا مالک اورچنگیزخان جیسے باجبروت حکمران کے دانت کھٹے کردینے والا۔ایک مرتبہ وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں سے جہاد کے لیے مقررہ رقم کے علاوہ کچھ زائد رقم وصول کرے تو امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:مجھے معلوم ہے کہ تو امیر بند قدار کا زرخرید غلام تھااور ایک پیسے کا مالک نہیں تھا۔اللہ رب العزت نے تجھے سلطنت دی اور تو نے ہزاروں غلام خرید ڈالے ،تیرے تمام سامان سونے اور چاندی کے ہیں،تیرے محل میں سوکنیزیں ہیں جوزروجواہرات سے لدی ہوئی ہیں۔جب تک مجھے معلوم نہ ہوجائے کہ تونے جہاد کے اخراجات کے لیے یہ سب قیمتی چیزیں اپنے غلاموں اور لونڈیوں سے لے نہیں لیے ہیں ،اس وقت تک میں غریب مسلمانوں کے مال لینے کا فتویٰ تیرے حق میں لکھ نہیں سکتا۔بیبرس ؔ یہ سن کر ناراض ہوجاتا ہے اور امام صاحب کو ملک بدر کردیتا ہے۔کچھ دنوں کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور علامہ سے واپس آنے کی التجا کرتا ہے،لیکن اللہ کے در کا یہ فقیر بے نیازی کے ساتھ دیتا ہے کہ ’’جب تک بیبرس موجود ہے میں نہیں آؤں گا‘‘۔ایک ماہ کے بعد بیبرسؔ فوت ہوجاتا ہے توآپ واپس مصر تشریف لاتے ہیں۔
(۸)دسویں صدی ہجری کا عظیم مرد مجاہد: حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی (پیدائش: 26 جون 1564ء۔ وفات: 10 دسمبر 1624ء) دسویں صدی ہجری کے نہایت ہی مشہور عالم و صوفی تھے۔ جو مجدد الف ثانی اور قیوم اول سے معروف ہیں۔
جس دور میں اکبر بادشاہ کی دینی بے اعتدالی عروج پر تھی ،جائزوناجائز،حلال وحرام کوخلط ملط کیا جارہا تھا اور دین وشریعت کے احکام کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں۔ایسے حالات میں ایک عارف کامل اور مرد مجاہد کی ضرورت تھی جو اسلام کی مدافعت میں سینہ سپر ہو کر باطل قوتوں کے سامنے کھڑا ہو جائے اور اپنے سینے میں وہ عزم ، جوش اور ولولہ پیدا کر کے میدان عمل میں آگے بڑھے کہ اس کی ہیبت وصولت سے قدم قدم پر کامرانی اس کی قدم بوسی کرے۔ اس زمانے میں آگرے کا نام اکبر آباد تھا۔حضرت شیخ احمد مجدّد الف ثانی ؒسرہند سے آگرہ روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ نے بڑی دلیری سے اکبر کے درباریوں سے فرمایا،’’اے لوگو! تمہارا بادشاہ اللہ اور اس کے رسولؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے پھر گیا اور اللہ کے دین سے باغی ہوگیا ہے۔ جاؤ اسے میری طرف سے جاکر کہہ دو کہ دنیا کی یہ دولت و حشمت اور تخت و تاج سب فانی ہیں۔ وہ توبہ کر کے اللہ اور اس کے رسولؐ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہوجائے اور ان کی اطاعت کرے ورنہ اللہ کے غضب کا انتظار کرے۔‘‘
درباریوں نے آپ کا پیغام اکبر کو پہنچا دیا۔ اکبر نے آپ کو مباحثہ کا چیلنج کر دیا، جسے آپ نے فوراً قبول کر لیا۔ دنیا کو دین پر ترجیح دینے والے علماء اکبر کی طرف تھے۔ دنیا کو دین پر قربان کرنے والے چند بوریہ نشین اصحاب آپ کے ساتھ۔ مباحثے کا انتظام ہوچکا تھا مگر کارکنان قضا وقدر کو منظور نہیں تھا کہ اکبر جیسے بے دین بادشاہ کے دربار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر مر مٹنے والوں کی رسوائی ہو۔ ابھی مباحثے کا آغاز ہونے بھی نہ پایا تھا کہ ہوا کا ایک سخت طوفان آیا اور دربارِ اکبری تہہ و بالا ہوگیا۔قدرت خدا کہ اکبر اور اس کے تمام ساتھی تو زخمی ہوئے لیکن حضرت شیخ سرہندیؒ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے درویشوں میں سے کسی کو خراش تک نہ پہنچی۔ مورخین کہتے ہیں کہ انہی زخموں کی وجہ سے اکبر کی موت واقع ہوئی۔نیز کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ اکبر بستر مرگ پر نئے سرے سے اسلام قبول کر کے دُنیا سے گیا۔ اور کچھ کہتے ہیں کہ اکبر اپنے اسے دین پرقائم رہتےہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔واللہ تعالیٰ اعلم
اکبر کے بعد اس کا بیٹا جہانگیر تخت نشیںہوا اوراپنے باپ کی ہی روش اپنائی اور ادھر حضرت مجدد نے بھی اس کےباطل افکار ونظریات اورطرزعمل سے امت مسلمہ کو بچانے کی جدوجہد تیز کردی ۔آصف جاہ نامی ایک خاص درباری جو حضرت مجدد الف ثانی کا سخت ترین دشمن تھا۔ اس نے جہانگیر کو یہ یقین دلایا کہ ’’حضرت مجددؒ آپ کی حکومت کے باغی ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ آپ کے لئے تعظیمی سجدہ بھی روا نہیں رکھتا حالانکہ سلطنت دہلیہ کے بہت سے علما اس کے حق میں فتویٰ دے چکے ہیں بلکہ شیخ احمد سر ہندیؒ تو سجدۂ تعظیمی کو حرام قرار دیتا ہے۔ اگر اس بات کا یقین نہ ہو تو جہاں پناہ دربار میں بلا کر اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔‘‘ جہانگیر نے آخر کار اس تصدیق کی خاطر حضرت مجددکو شاہی فرمان کے ذریعے بلا بھیجا اور آپ کی زیارت کا اشتیاق ظاہر کیا۔ حضرت اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دربار شاہی میں داخل ہوئے اور سجدۂ تعظیمی ادا نہ کیا جس کی جہانگیر آس لگائے بیٹھا تھا۔ بلکہ آپ نے سلام تک نہ کیا۔جہانگیر غصہ سے تلملا اُٹھا اور کہا:’’تم درباری آداب کیوں بجا نہیں لائے؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’اسلام کا یہ حکم ہے کہ ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو السلام علیکم کہا جائے۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ میرے سلام کا جواب نہیں دیں گے۔ لہٰذا میں نے السلام علیکم کہنا بھی گوارا نہ کیا۔‘‘ جہانگیر نے مطالبہ کیا کہ آپ درباری آداب کو ملحوظ رکھیں اور مجھے سجدہ کریں۔حضرت مجددنے فرمایا:’’خدا کا بندہ خدا کے علاوہ کسی کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا جو احکم الحاکمین کی بارگاہ میں جھکنا جانتا ہو وہ کسی فانی حاکم کے جاہ و حشمت کے سامنے اپنا سر نہیں جھکا سکتا۔ اپنے ہی جیسے ایک مجبورانسان کو سجدہ ہرگز روا نہیں۔ شریعتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ والتحیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں۔
مفتی عبد الرحمن نے جو اس وقت شیخ الاسلام کا درجہ رکھتا تھا کتب فقہ سے سلاطین کے لئے تعظیمی سجدہ کا جواز پیش کیا اور کہا کہ میں فتویٰ دیتا ہں کہ اس وقت شہنشاہ کو تعظیمی سجدہ جائز ہے، مگر حضرت مجدد الف ثانی ’’اَفْضَلُ الْجِھَادِ مَنْ قَالَ کَلِمَۃَ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ ‘‘(سب سے افضل جہاد اس شخص کا ہے جو ظالم بادشاہ کو سچی بات کہہ دے) کی عملی تفسیر بن گئے۔ آپ کی گردن شہنشاہ ہندوستان نور الدین جہانگیر کی سطوت و جبروت کے سامنے خم نہ ہوئی۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں؎
دارا و سکند ر سے وہ مرد فقیر اولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
جہانگیر کو گمان بھی نہ تھا کہ حضرت مجدداس کی حکم عدولی کریں گے۔ بادشاہت کا یہ دستور ہے کہ جو سر شہنشاہ کے سامنے جھکنا نہ جانے اسے قلم کر دیا جائے۔ جہانگیر کے غیظ و غضب کی آگ بھڑک اُٹھی، اس نے فی الفور حضرت مجددؒ کے قتل کا حکم دے دیا، مگر حق گوئی و بے باکی کے اس عظیم پیکر اور عزم و ثبات کے اس ہمالے کی پیشانی پر خوف و ہراس کے کوئی آثار نظر نہ آئے،جہانگیر کا خیال تھا کہ اس انتہائی سزا کے خوف سے حضرت مجددؒ فوراً گھٹنے ٹیک کر فوراً تعظیمی سجدہ بجا لائیں گے، مگر جب اس نے دیکھا کہ حضرت مجدد صاحب اس مرحلۂ عشق میں سولی پر لٹک جانے کے لئے بھی تیار ہیں تو اس نے کچھ سوچ کر فیصلہ بدل دیا اور حضرت امام کو گوالیار کے قید خانے میں بند کر دیا۔ حضرت مجددنے فرمایا:دولت مندوں کو ان کی دولت مبارک، لیکن مسکین عاجز کے لئے درد و الم کے گھونٹ مبارک ہوتے ہیں۔
قارئین کرام! تاریخ شاہد ہے کہ آخر دو سال بعد جہانگیر نے حضرت مجددکو قید خانے سے نکال کر اُن کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کا اتنا گروید ہوا کہ آپ کو شاہی مہمان کی حیثیت سے اپنے پاس رکھا، تین، چار سال تک اسلامی احکام نافذ ہوتے رہے۔ آخر شہزادہ خرم (شاہجہاں) کو بھی آپ کی بیعت کا حکم دیا۔جہانگیر اپنے گناہوں پر بہت نادم تھا۔ حضرت مجددسے اپنی مغفرت کے لئے دُعا کی اور سفارش کی درخواست کی، حضرت مجددنے فرمایا:’’جب احمد سرہندی کو خدا جنت میں لے جائے گا تو وہ جہانگیر کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘ اس عظیم مرد مجاہد کی بارگاہ میں علامہ اقبال ؔ اپنی عقیدتوں کا یوں نذرانہ پیش کرتے ہیں ؎
حاضر ہوا میں شیخ مجدّد کی لحد پر وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے جس کے نفس گرم سے ہے گرمی ٔ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہبان اللہ نے بر و قت کیا جس کو خبردار
سید سیف الدین اصدق چشتی
آستانہ چشتی چمن پیربیگھہ شریف نالندہ(بہار)
بانی وسربراہ:تحریک پیغام اسلام جمشیدپور