Paigham-e-Islam

اسلام،قرآن اور مسلمان

اسلام،قرآن اور مسلمان

اسلام،قرآن اور مسلمان

قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ(المائدہ:۱۵)
(بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب)
فقیہ ابو اللیث سمرقندی رضی اللہ عنہُ فرماتے ہیں ’’ وَھُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَالْقُرْآنُ‘‘ یعنی نور سے مراد محمدﷺ َ اور قرآن ہیں۔(سمرقندی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱ / ۴۲۴)
آج سےتقریباً پندرہ سو سال پہلے خالق کا ئنات نے اپنا آخری پیغام نازل کیا اور اس پیغام کی حفاظت بھی اپنے ذمہ لی اور اس کتاب کی تعلیم دینے والی ذات کوبھی ساتھ بھیجا۔اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید اور اللہ کے محبوب ،صاحب قرآن ﷺ کی سیرت اپنی اصل حالت میں چودہ صدیوں سے محفوظ ہے اور رہتی دنیا تک اسی حالت میں رہے گی۔نہ قرآن کے ایک حرف میں فرق آسکتا ہے اور نہ ہی صاحب قرآن کی کتاب زندگی پرکوئی حرف لا سکتا ہے۔اللہ نے کتاب اور صاحب کتاب دونوں کومحفوظ فرمادیاہے۔
بہرحال!آئیے ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ عصر حاضر میں سب سے زیادہ تیز رفتار دین کون سا ہے؟ کس مذہب کے پیروکاروں کی تعداد اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ دیگر مذاہب سراسیمگی کا شکار ہور ہے ہیں؟ جی ہاں! وہ  دین صرف اسلام اور اسلام ہے۔
آخر کیا بات ہے کہ ہزار مخالفتوں کے باوجود لوگ اس کے گرد سمٹتے چلے آرہے ہیں۔ آخر کیوں’’ کنہیالال گا با‘‘(م:۱۹۸۱)جیسے کامیاب سیاست دان،قلم کار اور بیرسٹر’’خالد لطیف گابا ‘‘بن گئے۔قبول اسلام کے بعد ۱۹۳۴ میں انھوں نے سیرت نبوی ﷺ پر ایک معرکۃ الآرا کتاب ’’پرافٹ آف دی ڈیزرٹ ‘‘(پیغمبر صحرا) نامی کتاب لکھی ،جو علمی حلقوں بہت مقبول ہوئی۔اسلام قبول کرنے کے بعد انھیںہندؤوں اور انگریزوں کی جانب سےبہت اذیتیں برداشت کرنی پڑیںلیکن ان کے پائے استقلال میں ذرا بھی لرزش نہیں آئی۔لاہور کی بادشاہی مسجد میں جہاںعلامہ اقبال بھی موجود تھے  ’’میں نے کیوںاسلام قبول کیا؟‘‘کے موضوع پرانھوں نے جو تقریر کی ہے وہ پڑھنے اور سننے سے تعلق رکھتی ہے۔جناب خالد لطیف گابا نےاپنی اس مختصر تقریر میں اسلام کی حقانیت،تعلیمات،مساوات،خوب صورتی اور اس کے حسن کا ایک خلاصہ اور مجموعہ پیش کردیاہے۔(ویکی پیڈیا)
مار ماڈیوک پکھتال((Marmaduke pickthall(م:۱۹۳۶ء)جیسے فلسفی، صحافی ،سیاسی اور مذہبی رہنماجنھیںانگریزی زبان میں قرآن کے اولین ترجمے کے لیے بھی جانا جاتا ہے،اور انھیں اسی قرآن کے ترجمے نے ہی اسلام قبول کرنے پر مجبور کردیا۔قبول اسلام کے بعد اپنانام’’ محمد‘‘ رکھ لیا اور محمد پِکھتال بن گئے،جب وہ نماز کے لیے اٹھتے تو چہرہ سرخ ہوتا،خشیت الہی سے کپکپاتے نظر آتے،خشوع وخضوع میں ڈوب کر نماز ادا کرتے۔کسی نے ان سے اس عجیب کیفیت کی وجہ پوچھی جووہ محسوس نہیں کرتے تو ان کا جواب تھا:Because I am a Muslim by choicee,you are by birth.یعنی  ایسا اس لیے ہے کہ میں اپنی مرضی مسلمان ہوا ہوں اور آپ اپنی پیدائش سےمسلمان ہیں۔(ویکی پیڈیا)
    ان کے علاوہ کیسیئس مارسیلس کلے اورمائیک ٹائسن جیسے باکسنگ کے عظیم کھلاڑی ، وائن پارنیل اور یوسف یوحنا جیسےمیدان کرکٹ کے ہیرو، کیٹ سٹیونس اور مائیکل جیکسن جیسے مشہور زمانہ گلوکار ،اے آر رحمان اور ہنس راج ہنس جیسے موسیقار،ہیلا ریون ہیگی اور ابراہیم رچمنڈ جیسے مشہور زمانہ پادری اپنے سیکڑوں عقیدت مندوں کے ساتھ آخر کیوں اسلام قبول کرتے ہیں ؟ان سب لوگوں نے اس وقت اسلام قبول کیا ، جب مادی دنیا کی ہر آسائش ان کے قدموں کے نیچے تھی اور اسلام قبول کرنا ان کے منصب اور مقام کو نقصان پہنچا سکتا تھا مگرباوجود اس کے جب اسلام کی حقانیت ،قرآن کا معجزہ اور صاحب قرآن ﷺ کی سیرت کا حسن ان کی نگاہوںسے ہوکر روح تک اترگیا تو وہ کسی لومۃ ولائم کی پرواہ کیے بغیرخود کوقبول حق سے روک نہ سکے ۔اسلام قبول کرنے والی ایسی مشہور ومعروف شخصیات کا دائرہ کوئی
محدود ومخصوص نہیں ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں میں ہے؎
  دین   فطرت   میں   اگر  کچھ   اثر   جذب   نہیں
اس  کی  آغو ش  میں  کیوں  آئے  ہزاروں  پکھتال
فرانس ،جرمنی اور امریکہ ویوروپ میں اسلام جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس نے اسلام دشمنوں کی نیندیں اڑادیں ہیں۔خود کو سپر پاور کہنے والےامریکہ کے اعداد و شماریہ واویلا کر رہے ہیں کہ اگر اسی رفتار سےاسلام وہاں پھیلتا رہا تو ۴۰؍۲۰۳۰ ء تک اسلام امریکہ کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ مسلمانوں کی بڑھتی تعداد مسلم گھرانوں میں زیادہ بچے پیدا ہونے کی وجہ کر نہیں ہے بلکہ غیروں کی گود سے اسلام کی آغوش میں آجانے والے بچوں کی وجہ کر ہے۔
لیوپولڈ ویز:یہودیت چھوڑ کو اسلام قبول کرنے والے مسلمان ہیں۔ جولائی ۱۹۰۰ء میں موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں پیدا ہوئے ۔لیوپولڈ ویز کے اہل خانہ نسلوں سے یہودی ربی تھے لیکن ان کے والد ایک وکیل تھے۔ انھوں نے ابتدائی عمر میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی تھی۔۲۳؍سال کی عمر میں عرب دنیا میں ٹرین میں سفر کے دوران میں ایک عرب ہم سفر نے لیو پولڈویز کو جانے بغیر اسے کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو یہ خود پسند اور اپنی ذات کے خول میں گم مغربی دنیا کے اس نوجوان کے لیے بڑا عجیب تجربہ تھا۔ پھر اس نے عرب معاشرے میں باہمی تعلقات، بھائی چارے، محبت اور دکھ درد میں شرکت کو دیکھا تو حیران رہ گیا اور وہیں سے دل اسلام کی جانب راغب ہو گیا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی کے ساتھ برلن کی زیر زمین ٹرین سے سفر کر رہے تھے، تو انھوں نے ٹرین میں بیٹھے افراد پر نظر ڈالی جو بظاہر خوشحال اورصاحب حیثیت نظر آ رہے تھے۔ لیکن ان کے چہروں پر بے اطمنانی اور حرماں نصیبی کے آثار دیکھے جس کو’’خوشحال بے چینی‘‘کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی بیوی کو بھی اس بات کی طرف متوجہ کیا۔ تو انھوں نے بھی ایسا ہی محسوس کیا جب وہ گھر واپس ہوءے تو اتفاقاًان کی نظر قرآن مجید پر پڑی۔ وہ اس کو بند کر کے دوسری جگہ رکھنا چاہتے تھے تو معاً ان کی نظر ان آیات پر پڑی :اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۔حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۔ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(تمہیں غافل کیے رکھا ہے بہتات کی طلب نے !یہاں تک کہ تم قبروں کو پہنچ جاتے ہو۔کوئی بات نہیں ! بہت جلد تمہیں معلوم ہوجائے گا۔پھر کوئی بات نہیں ! بہت جلد تمہیں معلوم ہوجائے گا۔)
سورہ تکاثر کی ان آیات نے پولڈویز کو اندر سے ہلاکر رکھ دیا، وہ ایک لمحہ کے لیے گُم صُم ہو گئے اور قبول اسلام کے لیے دروازہ کھل گیا۔ ان کو یقین ہوچکا تھاکہ قرآن مجید کسی انسان کی حکمت اور دانائی کا نتیجہ نہیں۔بظاہر یہی معلوم ہوتا تھا کہ یہ کتاب عربوں پر کیسے نازل ہو سکتی تھی کیونکہ عرب میں تو بہتات کے مسائل اس وقت تک پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور عرب کے غریب بدو تو بڑی مشکل سے اس وقت اپنی گزراوقات کر رہے تھے۔ قرآن کا مصنف تو بیسویں صدی کا کوئی یورپی شخص ہونا چاہیے تھا کیونکہ سورہ تکاثرنے بہتات کی حرص کے حوالے سے جس قسم کے مسائل کی طرف اشارہ کیا تھا، وہ صرف بیسویں صدی میں یورپ میں رونما ہوئے تھے۔ جب لوگوں کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ آسائشیں موجود تھیں اور مزید کی ہوسں انہیں بے چین کیے رکھتی تھی ۔انہیں قرآن مجید کے اندر حضرت محمدﷺ سے زیادہ گہری اور اونچی آواز سنائی دی۔
یوں قرآن کی ان دو آیتوں نے اس مغربی یہودی مفکرکے دل پر وہ اثرات رونما کیے کہ انھوں نے اپنی اہلیہ ایلسا کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔ پورے قرآن پاک کو پڑھا، اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ صحیح بخاری کا بھی انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، بہت سی کتب تصنیف کیں،دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیااور عالم اسلام میں علامہ محمد اسد کے نام سے معروف ومشہور ہوئے۔
  محمد اسد نے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’اسلام لوگوں کے دل میں بس ایک چور کی طرح خاموشی سے داخل ہوتا ہے‘‘۔ چور کی تمثیل یہاں ختم ہوجاتی ہے، چور چپکے چپکے داخل تو ہوتا ہے مگر کچھ لے کر چپکے سے نکل بھی جاتا ہے،مگر اسلام داخل تو چپکے چپکے ہی ہوتا ہے لیکن کچھ لینے کے لیے نہیں، کچھ دینے کے لیے اور پھر ہمیشہ اسی گھر میں رہنے کے لیے۔
ایک دوسرے جرمن نو مسلم ولفریڈ ہوفمین (Dr Murad Wilfried Hofmann)نے ان کے لیے کہا تھا کہ’’ محمد اسد‘‘ اسلام کے لیے یورپ کا تحفہ ہیں۔ جبکہ دوسرے دانشوروں نے لکھا ہےکہ ’’میرا خیال یہ ہے کہ دور جدید میں اسلام کو جتنے غنائم یورپ سے ملے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے‘‘۔(ویکیپیڈیا)
ولفریڈہوفمین:( Dr Murad Wilfried Hofmann )کا نام جب آہی گیا ہے تو کچھ ان کا بھی تذکرہ کرتا چلوں۔یوں بھی تیزی سے پھیلتی معلومات کے طوفان میں رک کر کسی ایسے شخص کو یاد کرنا بہت بھلالگتا ہے جس کا آپ سےاسلامی رشتہ ہو۔ ڈاکٹر مراد ہوفمین کی شخصیات کا ذکر کرنا بھی ایک ایسا ہی خوش گوار کام ہے۔
مراد ہوفمین ۱۹۳۱ میں جرمنی میں ایک کیتھولک نصرانی خاندان میں پیدا ہوئے ۔ جرمنی کی میونخ یونیورسٹی اور امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد سفارت کاری کے شعبے میں قدم رکھا ، نام کمایا اور جرمن وزارت خارجہ میں اعلی عہدوں پر رہے ، اسی دوران مراکش اور الجزائر میں سفیر رہے ، مشہور مصنف اور سفارت کار کی حیثیت سے کئی ملکوں سے مختلف سرکاری انعامات حاصل کر چکے ۔ ۱۹۸۰ء میں جب الجزائر میں تعینات تھے تو الجزائری عوام کی جنگ آزادی سے متاثر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا ۔ مشہور جرمن نومسلم عالم محمد اسد رحمہ اللہ کی مانند آپ بھی اسلامی فنون کے ایک بڑے مداح ہیں اور بہت محبت سے اسلامی تہذیب کے جمالیاتی پہلو کی تعریف کرتے ہیں ۔ محمد اسد نےاپنے سفر عرب کی داستان’’ روڈ ٹو مکہ‘‘ بہت حسین پیرائے میں لکھی تھی ، مراد ہوفمین نے’’ اے جرنی ٹو مکہ‘‘ لکھ کر دلچسپ انداز میں اپنے سفر حج کی داستان کو دنیا کے لیے پیش کر دیا ۔
ایسے دور میں جب دنیا کی چند بڑی ریاستیں متحد ہو کر اسلامی دنیا پر ٹوٹ پڑیں اور مسلم میڈیا پر بھی لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنے کا کام شروع ہو گیا ، لوگوں کو یہ بات بہت عجیب لگے گی کہ جرمنی کا ایک مشہور مصنف اور سفارت کار قبول اسلام کے بعد اپنی کتابوں میں اسلام ہی کو متبادل قرار دیتا ہے ، اس کی کتابوں میں اسلام سے گہری محبت کی خوشبو ہے ۔وہ اسلام کو عروج کا دین اور تیسرے ہزارئیے کا مذہب قرار دینے کے علاوہ یورپ میں بیٹھ کر مسلسل اسلام کے دفاع کا فریضہ انجام دیتا ہے ۔
مراد ہوفمین کی اسلام سے محبت اور خلوص کا اندازہ ان کی تخلیقات سے ہوتا ہے جو خاص طور پر اا؍ ستمبر کے واقعے کے بعدجسے نائن الیون حملوں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔جس کے بعد اسلام کے خلاف ہرطرح سے زبردست حملوں اور تنقیدوں کا سلسلہ شروع ہوچکاتھا۔ایسے نازک دور میںوہ مستقل اسلام کے دفاع اور پر جوش حمایت میںسامنے آتے ہیں ۔ اسلام پر کئی قیمتی کتابیں اور مقالے تصنیف کر تےہیں اور دنیا کے سامنے اسلام کا اصل اور خوب صورت چہرہ پیش کرتے ہیں۔ان کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں :
Journey to Islam
1. Diary of A German Muslim
2. Journey to Makkah
3. The Future of Islam in the West and the East Religion of the Rise
4. Islam in the 3rd Millennium
5. Islam in the West
6. Islam and Quran
7. The Alternative Islam
اللہ جل شانہ کے دین کو خادموں کی کمی کبھی بھی نہیں رہی ، تب بھی نہیں جب تین سو تیرہ کا عدد دشمن کے سامنے صف آراتھا اور آج بھی نہیں جب مسلمان اربوں کی تعداد میں ہیں لیکن ان کے تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت دین سے بے بہرہ اور اللہ کے احکامات کی نافرمانی میں مصروف ہے ۔ اللہ تعالی کو جب کام لینا ہوتا ہے تو وہ کافروں کی صف اول سے اپنے خادم چن کر انہیں دین اسلام کی نعمت عطا کر دیتا ہے ۔جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَ لَا تَضُرُّوْهُ شَیْــٴًـاط وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(توبہ :۳۹)یعنی اگر تم رسول اکرم ﷺ کے حکم کے مطابق اللہ کی راہ کی طرف کوچ نہیں کرو گے تووہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گااور تم اس کا کچھ نہیں بگا ڑ سکوگے اور اللہ ہرشے پر قادرہے۔
  افسوس ہےآج ہمارے مسلم ادبا وشعرا اور قلم کاروں پر جوساقط انگریزی ناولوں اور تیسرے درجے کی بے حیافلموں سے عنوانات مستعار لیتے نہیں شرماتے لیکن انہیں مراد ہوفمین اور لیوپولڈ ویز محمد اسد جیسے قابل فخر مسلم دانشوروں کا حوالہ دینے کی کبھی توفیق نہیں ہوتی ۔
مارگریٹ کینیڈی :جرمنی کی ایک ماہر تعمیرات ہیں اور انہوں نے موجودہ دور کےمادی وسائل کا جائزہ لینے کے لیے بینکاری پر ایک کتاب تصنیف کی ، ان کی کتاب کا نام (Interest Free Banking) یعنی بلاد سود بنکاری ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام مسلم ممالک کی بینکاری میں سود کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، لیکن جرمنی کی ایک خاتون ماہر تعمیرات اپنے مطالعہ اور سوچ کی بنیاد پر اس نتیجہ پر پہنچی کہ اگر اقتصادیات کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا میں غریب ، غریب تر نہ ہوا اور امیر، امیر نہ ہو تو اس کے لیے صرف ایک راستہ ہے کہ وہ بینکاری میں سے سود کو نکال دیا جائے۔ مارگریٹ کینیڈی اس تحقیق وجستجو ایک دن قرآن کی اس آیت تک پہنچتی ہے تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں :اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ط ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواج وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواط (جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر اس شخص کے کھڑے ہونے کی طرح جسے آسیب نے چھو کرپاگل بنادیا ہو۔ یہ سزا اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے کہا: خریدوفروخت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ نے خریدوفروخت کو حلال کیا اورسود کو حرام کیا ہے۔)سود کے نقصانات کو آج ہم سمجھ رہے ہیں مگر اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے اس کی سخت مذمت کررہا ہے۔قرآن کی صرف ایک آیت نے مارگریٹ کے دل کی دنیا بدل دی اور اس نے اسلام قبول کرلیا۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ دین اور سائنسی قوانین میں تضاد ہے دراصل یہ بیان عیسائیت کے پیرو کاروں کا ہے تا کہ وہ انجیل کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش نہ کریں۔چنانچہ اکثر عیسائی سائنس دانوں نے سولہویں اور سترھویں صدی تک جس نوعیت کی کلیسا کی دشمنی مول لے کر سائنس کے قوانین مرتب کیے ، ان کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں قرآن کو ترجمہ کے ساتھ الفاتحہ سے الناس تک اس تواتر کے ساتھ پڑھو ،ٹھہر ٹھہر کر اور غور وفکر کے ساتھ ، کوئی لفظ کوئی جملہ، کوئی حوالہ یہاں تک کہ کوئی شائبہ بھی ایسا نہیں ملتا، جو موجودہ دور کی سائنسی دریافتوں سے ٹکراتا ہو۔ چودہ برس پہلے جب سورہ بنی اسرائیل کی اولین آیت اتری تو کفار نے جب یہ سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک جانے اور واپس آنے کا دعویٰ کیا ہے تو ان کے کلیجے شق ہو گئے ۔ انہوں نے وہ تمام لوگ اکٹھے کیے جو مسجد اقصیٰ تک سفر کر چکے تھے اور انہوں نے رسول برحق سے مسجد اقصی کے بارے میں سوالات کرنا شروع کر دیئے ۔ حضور علیہ السلام نے اس طرح ان کے سوالوں کے جواب دیئے کہ مسجد اقصیٰ اس وقت ان کی نظروں کے سامنے کردیا گیا۔ لیکن یہ حقیقت ہضم کرنا ان کی فہم سے بہت دور تھا کہ کوئی شخص راتوں رات ایسا سفر کر سکتا ہے۔ جو ان کی سرخ اونٹیاں بھی تین ماہ سے کم عرصہ میں نہ کر پاتی تھیں ۔ آج آئن سٹائن نے’’ Timeاور SPACE ‘‘کا دہ فارمولا در یافت کر لیا ہے کہ ایک دس سالہ بچہ بھی اس صورتحال کی وضاحت کر سکتا ہے۔ پیغمبر اسلام کا سفر معراج ایک بہت بڑی سائنسی حقیقت ہے۔
موریس بوکائلے: فرانس کے صف اول کے سرجن اور سائنسدان تھے ان کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ انہیں حکومت مصر نے فرعونوں کے مردہ جسموں کے مطالعہ اور دیکھ بھال کے لیے مصر آنے کی دعوت دی۔ فرعونوں کے مردہ جسم دیکھنے اور ان کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان میں سے ایک فرعون کا جسم ایسا ہے جو پانی میں ڈوب کر ہلاک ہوا تھا۔ اس سے ڈاکٹر موریس بوکائلے اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ فرعون ( منفتاح) ہوگا ۔ جو موسیٰ علیہ السلام کا پیچھاکرتے ہوئے سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوا تھا۔فرعون کا جسم تقریبا چار ہزار برس تک لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہا اور یہ انکشاف چندسالوں قبل ہوا کہ’’ منفتاح ‘‘کا مردہ جسم کون سا ہے اس سے پہلے یہ حقیقت کسی کو معلوم نہ تھی ۔واضح رہے کہ فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ شاہان مصر کا لقب تھا۔ جس طرح چین کے بادشاہ کو خاقان اور روس کے بادشاہ کو زار اور روم کے بادشاہ کو قیصر اور ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے تھے اسی طرح مصر کے بادشاہ کو فرعون کہتے تھے۔جس فرعون کے زمانے میں حضرت موسیٰ پیدا ہوئے اور جس کے یہاں پرورش پائی وہ رمسيس ثانی تھا،اس وقت بہت بوڑھا ہو چکا تھا اس نے اپنے بیٹے منفتاح کو شریک حکومت کر لیا تھا اس کی ڈیڑھ سو اولادوں میں سے 13 تیرھویں نمبر پر تھا اور جو عذاب الٰہی میں مبتلا ہوئے وہ منفتاح نامی فرعون تھا فرعون کی فہرست میں کم از کم 14 نام موجود ہیں ـ۔
بہرحال!آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس دریافت کا اسلام کی حقانیت سے کیا تعلق تو اس کے لیے ہمیں سورۂ یونس میں موسیٰ علیہ السلام کے فلسطین کی جانب خروج اور فرعون کا ان کا پیچھا کرنےکی روایت پڑھنا ہو گی ،جس کے مطابق موسیٰ علیہ السلام سمندر پار کرنے لگے تو تو سمند ر کے دوحصے ہوگئے اور وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان دو حصوں کے درمیان سے گزر گئے۔ جب فرعون وہاں سے گذرنے لگا تو وہ ڈوب گیا اور ایسا ڈوبا کہ اس کا جسم ۱۸۹۸ء تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا اور تقریباً ۱۳؍ سو سال تک کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ وہ فرعون جو موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا پیچھا کر رہا تھا اس کا جسم کون سا ہے اور وہ واقعی محفوظ ہے یا وقت کےہاتھوں ضائع ہو چکا ہے۔ لیکن سورہ یونس میں ارشاد ہے: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةًط وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ(یونس:۹۲)  آج ہم تیری لاش کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بن جائے اور بیشک لوگ ہماری نشانیوں سے ضرور غافل ہیں ۔یعنی چودہ سو برس قبل قرآن پاک فرعون کے ڈوبنے کا ذکر کرتا ہے تو یہ نہیں کہتا کہ ہم ضائع کرتے ہیں یا غرق کرتے ہیں تیرے جسم کو بلکہ یہ کہا کہ بچائے دیتے ہیں۔ اب کوئی کہہ سکتا کہ اگر فرعون کا جسم بچانے کا وعدہ کیا تھا تو وہ کہاں ہے۔ انجیل میں بھی فرعون کے ڈوبنے کا ذکرتھا ہے مگر اس کے جسم کی حفاظت کا حوالہ نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی فرعون کے جسم کا کوئی حوالہ موجود نہ تھا۔ تیرہ صدیوںتک مسلمانوں نے فرعون کے جسم کو جانے بغیر سورہ یونس کی اس آیت پر ایمان رکھا ۔ یہاں تک کہ عصر حاضر میں اللہ تعالیٰ کے کلام کی حقانیت تمام دنیا پر آشکار ہوئی۔ بات صرف غور وفکر کرنے کی ہے۔ اسی لیے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دین میں غور و فکر کرو ۔ہی وہ سائنسی حقائق ہیں جن کو دیکھ کر غیر مسلم مسلمان ہو رہے ہیں، مگر افسوس کہ آج ایسےخاندانی مسلمان بھی موجود ہیں جو نہ صرف قرآن وحدیث سےکوسوں دور ہیں بلکہ دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی وہ لاتعلق ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ اگر آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسے بہت سے مسلمان نظر آئیں گے جو لمبی لمبی ڈگریاں تو لے چکے ہیں لیکن اسلام کے ابجد سے بھی نا واقف ہیں اور ان کے مسلمان ہونے کی صرف ایک وجہ ہوتی ہے وہ یہ کہ وہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے جس میں مسلمانوں والی کوئی بات نہیں ان لوگوں کے نزدیک نماز پڑھنی نہ آتی ہو کوئی بات نہیں، غسل کرنا نہ آتا ہو کوئی بات نہیں اگر کسی عزیز کا انتقال ہو جائے تو اسے غسل دینے سے قاصر ہیں اور کبھی تو نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اجرت پر غسل دینے والا ملنا محال ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے عزیز یا والدین کی وفات کے بعد ان کے لیے دعائے مغفرت نہیں کر سکتے بلکہ یہ لوگ کلمہ توحید ورسالت کے معنی و مفہوم سے بھی نہ آشنا ہیں لیکن کوئی بات نہیں۔ انہیں اس بات کی نہ تو کوئی فکر ہے اور نہ ہی اس کا کچھ احساس ۔ان ہی حالات کے پیش نظر علامہ اقبال نےتڑپ کر یہ کہاتھا ؎
شور   ہے  ،   ہو گئے   دنیا   سے   مسلماں    نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ   تھے  بھی  کہیں  مسلم   موجود  !
وضع   میں  تم  ہو  نصاریٰ   تو   تمدّن   میں   ہنود
یہ  مسلماں  ہیں  !  جنھیں  دیکھ  کے  شرمائیں   یہود
یوں  تو  سیّد  بھی  ہو،  مرزا  بھی  ہو،  افغان  بھی  ہو
!    تم   سبھی   کچھ   ہو  ،  بتاؤ   تو  مسلمان  بھی   ہو
آج غیر مسلم قرآنی حقائق سے آشنائی کے نتیجے میں مسلمان ہو رہے ہیں مگر مسلمان اپنے بچوں کوا سکولوں اور کالجوں میں ڈارون کی تھیوری پڑھا کر قرآن کا انکاری بنا رہے ہیں ۔ ’’نیوٹن اور اوہم ‘‘کے قوانین پڑھائے جاتے ہیں ۔ ہمیں آئن سٹائن ، نیوٹن، شیکسپیئراور ایڈیسن کی زندگیوںکے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ہماری اسلامی و قومی تہذیب کو مغربی تہذیب سے کمتر ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے اور مغرب کی ہر چیز کو ، ہر ادا کو ، طرز زندگی کو بہترین ثابت کر کے ہماری نوجوان نسل کو احساس کمتری کا شکار بنایاجا رہا ہے اور یہ سب ہمارے نام نہادا کا برین اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کر رہے ہیں لیکن تمام جہانوں کا بادشاہ اپنے کلام میں اس امر کی تردید فرماتا ہے، فرمان الہی ہے۔آپ سے یہود و نصاری ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے مذہب کے تابع نہ ہو جائیں: وَ لَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِـعَ مِلَّتَهُمْ(البقرہ:۱۲۰)
  ہماری نوجوان نسل مغربی تہذیب کی دلدادہ ہے، جنس ٹی شرٹ اور تھری پیس سوٹ پہننے میں فخر اور ٹوپی پہن کر مسجد آنے میں بھی شرم محسوس کرتی ہے، ہمارے بچوں کو قرآن و حدیث نہیں ’’بے بی بے بی یس ماما‘‘ یاد کرایا جاتا ہے۔ ہمارا نوجوان آدھی زندگی انگریزی سیکھنے اور آدھی زندگی شیکسپیئر اور انتھونی ہوپ کوپڑھ کر اپنا انگلش تلفظ((pronunciation ٹھیک کرتا ہے ۔ہماری موجودہ نسل ایک ان دیکھے راستہ پر ایک ان دیکھی منزل کی طرف دوڑی چلی جارہی ہے اور امت کا درد رکھنے والے بھی ساری خرابیوں کی وجہ میکالے کے نظام نظام تعلیم کو بتا کر اپنے فرض سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اگر میکالے نے ہمیں ایک خراب نظام تعلیم دیا تو ہم نے کونسا اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہمارے پاس ایک مکمل نظام حیات قرآن وحدیث کی صورت میں موجود ہے جس سے ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں مدد ملتی ہے لیکن ہم نے اس قرآن کوپڑھنا سمجھتا اور اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے اور اسی کمزوری کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے: اور رسول اللہ ﷺ(قیامت کے روز ) فرمائیں گے:یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا(  الفرقان:۳۰) اس قرآن پر عمل نہ کرنا اس پر غور و فکر کرنا اس کے احکامات پر عمل نہ کرنا اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دیتا ہے،یہی قرآن کا ترک کر دینا یا اس کو چھوڑ دینا ہے جس کے خلاف روز قیامت رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے کہ میری یہ امت ہے جس نے تیرے قرآن کو چھوڑ دیا تھا اس قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ اسلام جیسے نظام حیات کے ہوتے ہوئے ہم مغربی نظام سے بھیک مانگ رہے ہیں خود اللہ رسول اللہ من کا فرمان ہے:اللہ اس کتاب کے ذریعے بہت سی قوموں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور اس کی وجہ سے دوسروں کو ذلت و پستی میں دھکیل دیتا ہے۔“ (إن اللهَ يَرفعُ بهذا الكِتابِ أقْواماً ويَضَعُ به آخَرِينَ:رواہ مسلم)
ہماری اسی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئےجناب اقبالؔ نے کہاتھا کہ:
 وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
 اور تم خوار ہوئے تارک ِ  قرآں  ہو کر
یعنی قرآن میں وہ نظام حیات ہے جس کے ذریعے اللہ قوموں کو ذلت اور بلندیاں عطاکرتا ہے اور جب قوم قرآن سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہے تو ذلت وخواری انکا مقدر بن جاتی ہےپھر زمانے کی کوئی طاقت انہیں ذلیل و رسوا ہونے سے نہیں بچا سکتی آج کا موجودہ دور اس بات کامنہ بولتا ثبوت ہے ۔ آج مسلمانوں کے پاس تمام تر معد نیات ، تیل کے بڑے بڑے ذخائر میںلیکن اس کے باوجود ذلیل و رسوا ہیں اس کی صرف و صرف ایک ہی وجہ ہے کہ ہم نے قرآن کو پس پشت ڈال کرجہالت وبے دینی ،مادہ پرستی،ذات و برادی، فرقہ بندی اور مختلف خانوں میں تقسیم ہوکر قعر مذلت کی گہرائیوں میںگرگئےہیں۔ قرآنی دعوت اورتحقیق وتدقیق کے بجائے آپس میںاس کے ذریعہ مناظرے ومجادلے کر کے اپنی فتح کے جھوٹے جھنڈے گاڑرہے ہیں۔ کسی دانا کا قول ہے کہ’’ جو اپنوں سے لڑتے ہیں وہ غیروں سے مقابلےکی طاقت نہیں رکھتے‘‘ ۔ہماری اس کمزوری کی وجہ سے پوری دنیا میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور ذلت ہمارا مقدر بن چکی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے: وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ(الانفال:۶۰ ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان یعنی مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمارہاہے کہ اے ایمان والو! کافروں کے مقابلے کے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت وقوت تیار رکھو لیکن اس آیت پر عمل مومن نہیںکا فر کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ قوت جمع کر رہے ہیں ۔آپ دیکھیں کہ دنیا میں پانچ بڑی طاقتیں ہیں اور پانچوں ہی غیر مسلم ۔ دراصل قومیں اور مملکتیں تو صرف طاقت کے بل بوتے پرہی زندہ رہتی ہیں۔ اسرائیل کی مثال آپ کے سامنے ہے وہاں ہر شخص کو فوجی ٹریننگ دی جاتی ہے اور وہ بے گناہ فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہےاور دنیا بھر کے تقریباً دو ارب مسلمان اپنی کمزوری اور بزدلی کی بنیاد پر ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل کے سامنے خاموش تماشائی بنے کھڑے ہیں۔نباض قوم علامہ اقبال ؔ نے اسی لیے گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے ؎
افسوس،  صد  افسوس  کہ  شاہیں  نہ  بنا  تُو
دیکھے نہ تری آنکھ نے  فطرت  کے  اشارات
تقدیر کے قاضی کا  یہ  فتو یٰ  ہے  ازل  سے
ہے  جُرمِ  ضعیفی  کی  سزا  مرگِ  مفاجات!
                             سید سیف الدین اصدق چشتی
                  بانی وسربراہ: تحریک پیغام اسلام جمشیدپور