Paigham-e-Islam

اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی نشانیاں

اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی نشانیاں

الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّااِلَیْهِ رٰجِعُوْنَﭤ(البقرہ:۱۵۶)
وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔
وَ مَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍﭤ(الشوریٰ :۳۰)
اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تووہ معاف فرمادیتا ہے۔
  ۔      قرآن وحدیث کے مطالعےسے پتہ چلتا ہے کہ ’’منافقت‘‘سب سے بڑی دل کی بیماری ہے ۔دل اگر بیمار ہوجائے تو دماغ کے ساتھ ساتھ پورا جسم بیمار نظر آنے لگتا ہے۔بیمار  جسم کا علاج اگر ضروری ہے تو بیماردل و روح کا علاج اس سےکہیں زیادہ ضروری ہے۔
    مسلمانوں کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ’’ان کا مسلمان نہ ہونا ہےـ‘‘۔علم کا گراف تو بڑھ رہاہے مگر بے عملی کا گراف بھی آسمان چھورہا ہے۔ایمان صرف زبان سے اقرار کانام نہیں بلکہ دل سے تصدیق زیادہ ضروری ہے۔زبان سے صرف دعویٔ اسلام والا بندہ دنیا والوں کی نظر میں تو مسلمان ہوجائے گا مگر اللہ جل شانہ جو علیم وخبیر ہے ،اس کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔اس کے برخلاف اگر کسی نے زبان سے کلمہ نہ پڑھا مگر دل نے اس کی تصدیق کردی ہے تو پھر وہ دنیا والوں کی نظروں میں کچھ بھی ہو،اللہ ورسول کے نزدیک صاحب ایمان ہے۔قلندرلاہوری نے اسی لیے بہت سچ کہا ہے کہ؎
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل ونگاہ جو مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
آج زوال امت مسلمہ پر بات تو ہورہی ہے،اور خوب ہورہی ہے، اس کےمختلف وجوہات بھی بیان کیے جارہے ہیں۔کوئی سیاسی میدان میں بچھڑنا اس کی وجہ بتاتا ہے۔کوئی کہتا ہے علمی میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہماری یہ حالت ہوئی۔کسی کا کہنا ہے معاشی کمزوری نے ہماری کمر توڑدی ہے۔ کوئی قیادت کے فقدان کو اپنی تباہی کی وجہ بتاتا ہے اور کوئی قوم میں اتحاد واتفاق کے نہ ہونے کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔لیکن افسوس! کسی کی نظر نہیں جاتی تو اپنی دینی،اسلامی اور عملی زندگی کی طرف نظر نہیں جاتی۔یہ ساری باتیں سچ ہیں مگر مکمل سچ نہیں ،آدھا سچ ہے۔چونکہ دین اوراس کا دستور قرآن ہماری زندگی میں نہیں ۔اس لیے ہمارے پاس نہ علم ہے،نہ سیاست ہے،نہ قیادت ہے،نہ اتحاد ہے،نہ مقصد زندگی ہے اور نہ فکر آخرت ہے۔نباض قوم جناب اقبالؔ کہتے ہیں؎
سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال  بندہ ٔ  مومن  کا   بے   زری   سے   نہيں
اللہ نے ہمیں اپنی عبادت،رضا جوئی ،اعلائے کلمۃ اللہ ،نیکیوں کی دعوت اور اقامت دین کے لیے پیدا فرمایا تھا مگر ہم نے سب کچھ چھوڑ کراپنی زندگی کا مقصدصرف حصول دنیا اور طلب دنیا بنالیا۔زندگی دنیا سے شروع ہوتی ہے اور دنیا ہی پر ختم ۔ہوس دنیا اورخواہش دنیا نے ہمیں کسی لائق نہیں چھوڑا ہے۔خواہشات کا ایسا سلسلہ ہے جوختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔بقول  مرز اسد اللہ خاںغالبؔ؎
ہزاروں  خواہشیں  ایسی  کہ  ہر  خواہش  پہ  دم  نکلے
بہت  نکلے  مرے   ارمان  لیکن  پھر  بھی  کم  نکلے
صرف اپنی دنیا بنانے کے لیے جینااصلاً بے مقصد زندگی ہے۔کیوں کہ ایک مومن کا مقصد دنیا نہیں آخرت ہوتا ہے،وہ دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری کرتا ہے۔کسی دانشور نے بہت خوب کہا ہے کہ ’’جو مقصد کے لیے مرتے ہیں وہ مرتے نہیں ہیں اور جو بے مقصد جیتے ہیں ،وہ جیتے ہی نہیں ہیں۔درحقیقت ہم زندہ ہوکر بھی مردہ ہیںاور ہمارے اسلاف آج دنیا سے جانے کےباوجود مختلف جہتوں سے زندہ ہیں،کیونکہ ان کی زندگی کا مقصد دین کوسربلند کرنا تھا ۔وہ اس شعر کی عملی تصویر تھے کہ؎
میری  زندگی  کا  مقصد  تیرے  دین  کی  سرفرازی
میں   اسی   لیے  مسلماں  میں   اسی   لیے   نمازی
نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:  مَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا ہَمَّہُ فَرَّقَ اللّٰہُ عَلَیْہِ أَمْرَہُ ، وَجَعَلَ فَقْرَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ ، وَلَمْ یَأْتِہِ مِنَ الدُّنْیَا إِلَّا مَا کُتِبَ لَہُ ، وَمَنْ کَانَتِ الْآخِرَۃُ ہَمَّہُ جَمَعَ اللّٰہُ لَہُ أَمْرَہُ، وَجَعَلَ غِنَاہُ فِی قَلْبِہِ ، وَأَتَتْہُ الدُّنْیَا وَہِیَ رَاغِمَۃٌ(ابن ماجہ)حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص کی سوچ وفکر کا محور دنیا ہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو بکھیر دیتا ہے اور اس کے فقر کو اس کی آنکھوں کے سامنے کردیتا ہے۔اور اسے دنیا سے اتناہی ملتا ہے جو اس کیلئے لکھا جا چکا ہے۔اور جس آدمی کی سوچ وفکر کامحور آخرت ہو تو اللہ تعالی اس کے معاملات کو سمیٹ دیتا ہے اور غنا اس کے دل میں رکھ دیتا ہے۔اور دنیا نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پاس چلی آتی ہے۔
حضور علیہ الصلاۃ والسلام یہ بھی فرماتے ہیں کہ:لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ ان کا مقصد ان کا پیٹ ہوگا،دولت ان کی عزت ہوگی ، عورت ان کا قبلہ ہوگااور روپیہ ان کا دین ہوگا ۔وہ بدترین لوگ ہوں گے اور آخرت میں ان کا حصہ نہیں ہوگا۔(کنزالعمال)
حضرت عبداللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’ الزہد والرائق‘‘میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا ایک قول نقل کرتے ہیں کہ :لَیَاْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَکُوْنُ ھَمُّ اَحَدِھِمْ فِی بَطْنِہِ ،وَدِیْنُہُ ھَوَاہُ (الزھد والرائق لابن مبارک ،باب فی طلب الحلال)
لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں آدمی کا اہم مقصد پیٹ پالنا ہوگا اور اپنی خواہش چلنا اس کا دین ہوگا۔
حضرت مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جب لوگ فقرا سے دشمنی رکھیں،دنیاوی شوکت وحشمت کا اظہار کریں،روپے جمع کرنے پر حریص ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان پر چار مصیبتیں نازل فرماتا ہے: قحط سالی ،ظالم بادشاہ،خائن حاکم اور دشمنوں کی ہیبت۔(کنزالعمال)
اللہ نے جس مقصد اور مشن کے تحت ہمیں پیدا کیا تھا ،ہم نے اسے پس پشت ڈال کر جب من مانی زندگی جیناشروع کیا تو اللہ کی ناراضگی کا شکار تو ہمیں بننا ہی پڑے گا۔یہ ناراضگی کبھی اجتماعی صورت میں((Collectivelyپوری قوم پر ظاہر ہوتی اور کبھی انفرادی اور شخصی طورپر(Individually)اللہ کا غضب اوراس کی ناراضگی سامنے آتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا اٹھتا ہے کہ اس کی ناراضگی کی نشانیاں کیا ہیں اور کیسے پتہ چلے کہ ہمارا رب ہم سے ناراض ہے؟تو سنیں:
حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہی بات ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ : یا اللہ جب تو ناراض ہوتا ہے تو تیری کیا نشانی ہوتی ہے ؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ :دیکھنا جب بارشیں بے وقت ہوں ، حکومت بے وقوفوں کےپاس ہو، اور پیسہ بخیلوں کے پاس ہو تو جان لینا کہ میں ناراض ہوں، پھر موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ : جب یا اللہ تو  راضی ہوتا ہے تو اس کی کیا نشانی ہے ؟ اللہ تعالی نے فرمایا : موسیٰ جب بارشیں وقت پر ہوں ، حکومت نیک اور سمجھ دار لوگوں کے ہاتھ میں ہو ، اور پیسہ سخیوں(سخاوت کرنے والے) کے ہاتھ میں ہو تو سمجھ لینا کہ میں راضی ہوں۔’’ اذا رضي الله عن قوم أنزل عليهم المطر في وقته، وجعل المال في سُمَحائهم، واستعمل عليهم خيارَهم؛ وإذا سخط على قوم أنزل عليهم المطر في غير وقته، وجعل المال في بُخلائهم، واستعمل عليهم شرارَهم‘‘ (العقد الفرید۔علامہ ابن عبدالبر(۵/۲۸۸)
اور اس حدیث قدسی کو بھی دل کی آنکھوں سے ملاحظہ فرمائیں: أوحى الله تعالى إلى بعض أنبيائه:’’إذا عصاني من يعرفني، سلطتُ عليه من لا يعرفني‘‘(العقوبا ت لابن أبي الدنيا ص:٣٣)  یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بعض انبیا ئے کرام کو وحی فرمائی کہ’’جب مجھے پہچاننے والا (یعنی مومن ومسلم بندہ) میری نافرمانی کرتا ہے تو میں اپنے نہ پہچاننے والوں (یعنی کافرومشرک بندوں )کو ان کے اوپر مسلط کردیتا ہوں۔
تاریخ میں اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں ۔ان میں سب سے بڑی مثال قوم یہود یعنی بنی اسرائیل کی ہےکہ اللہ جل شانہ نے انھیں اپنی ان گنت نعمتوں سے نوازا۔جیسا کہ ایک جگہ ارشاد فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ الْکِتٰبَ وَ الحُکْمَ وَ النُّبُوَّۃَ وَ رَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلنٰھُمْ عَلَی العٰلَمِینَ (الجاثیہ:۱۶) اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائی، اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے انہیں (ان کے ہم زمانہ) جہانوں پر (یعنی اس دور کی قوموں اور تہذیبوں پر) فضیلت بخشی۔
لیکن یہ چھٹی صدی قبل مسیح کی بات ہے، بنی اسرائیل کی سرکشی، نافرمانیاں اور مشرکانہ حرکتیں حد سے تجاوز کر چکی تھیں۔ ہر طرف ظلم و جبر، فساد اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ تو قوم عمالقہ کا ظالم بادشاہ بخت نصربابل سے ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ آندھی و طوفان کی مانند راستے میں آنے والی تمام حکومتوں کو پامال کرتا ہوا فلسطین پہنچ گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ چالیس ہزار سے زائد ان کےعلما اور راہبوں کو قتل کردیا یہاں تک کہ وہاں ایک عالم بھی زندہ نہ بچا۔ بخت نصر بنی اسرائیل کے اسی ہزار افراد کو قیدی بنا کر بابل لے گیا۔ بخت نصر کی فوج نے بیت المقدس میں عظیم الشان محلات کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ ہیکل سلیمانی میں موجود و سیع و عریض نادر اور نایاب کتب سے مزین کتب خانہ جلا کر راکھ کر دیا جن میں دوسرے مذاہب کے اصلی نسخے بھی شامل تھے۔قدرت کسی قوم پر اپنا قہر اور عذاب ایک دم سے نازل نہیں فرماتی بلکہ انہیں پہلے سدھرنے کے پورے پورے مواقع فراہم کرتی ہے، پھر اسے جھنجوڑ تی ہے اور سبق سکھاتی ہے۔ تفسیر فاران میں ہے کہ جب یہودیوں نے فساد شرانگیزی اور اللہ کے احکامات سے روگردانی کی تو اللہ عزو جل نے کسی ایسے شخص کو ان پر مسلط کر دیا جس نے ان کو ہلاکت اور بربادی سے دو چار کر دیا۔ پہلے جب انہوں نے فتنہ فساد کیا اور توریت کے احکامات کو رد کیا تو بخت نصر کو انکی طرف بھیجا جس نے انکو تہس نہس کر دیا۔
کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ انہوں نے سراٹھایا تو طیطوس رومی نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ انہوں نے شرانگیزی شروع کی تو فارسی مجوسیوں نے ان کو ملیا میٹ کر دیا۔ اس طرح ۵۱۵؍ قبل مسیح میں بیت المقدس دوبارہ آباد ہوا۔ بنی اسرائیل نے حضرت عزیر السلام کی موجودگی میں رو رو کر توبہ کی اور آئندہ خدا کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کیا۔ لیکن یہ زندگی بنی اسرائیل کو پھر راس نہ آئی۔ فارغ البالی نصیب ہوئی تو ایک دوسرے سے اختلاف اور جھگڑے پھر معمول کا مشغلہ بن گئے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بنی اسرائیل پھر اسی حالت کو پہنچ گئے جس میں ان پر بخت نصر کی شکل میں عذاب نازل ہوا تھا۔
اسی قوم کی ترقی اور غلامی سے آزادی کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بہت زیادہ جدوجہد کی، لیکن ان کی اکثریت فرعونی غلامی کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکی۔ انھوں نے فرعون کی غلامی سے آزادی اور حریت حاصل ہونے، اُن پر تورات ایسی اعلیٰ کتاب کے نازل ہونے، صحرائی زندگی کے انعامات، مَنّ و سلویٰ حاصل کرنے، پانی کی منصفانہ تقسیم، ابتدائی اجتماعیت سے لے کر قومی اجتماعیت ایسے بڑے انعامات حاصل کرنے کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے احکامات کی پوری پاسداری نہیں کی۔ اُن کے تعلیم و تربیت کے اقدامات کو قبول نہیں کیا، بلکہ مسلسل اُن کی نافرمانی کرتے ہوئےکبھی بچھڑے کی پوجا کی، کبھی مشاہدۂ باری تعالیٰ کا مطالبہ کیا،کبھی بستی میں داخل ہوتے وقت توبہ اور استغفار کے بجائے نافرمانی پر مبنی الفاظ ادا کیے،کبھی پانی کی منصفانہ تقسیم کے بجائے ناانصافی کے رویے کو اپنائے اور شہری زندگی کے اُمور میں ظلم و عدوان کی عادت اپنائی۔ اس کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسے تمام قوانین شکن بنی اسرائیلیوں پر ذلت و مسکنت اور غضبِ الٰہی کا عذاب نازل کیا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:  ضُرِبَتْ  عَلَیْهِمُ  الذِّلَّةُ  اَیْنَ  مَا  ثُقِفُوْۤا  اِلَّا  بِحَبْلٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَحَبْلٍ  مِّنَ  النَّاسِ  وَ  بَآءُوْ  بِغَضَبٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  ضُرِبَتْ  عَلَیْهِمُ  الْمَسْكَنَةُط ذٰلِكَ  بِاَنَّهُمْ كَانُوْا  یَكْفُرُوْنَ  بِاٰیٰتِ  اللّٰهِ  وَ  یَقْتُلُوْنَ  الْاَنْۢبِیَآءَ  بِغَیْرِ  حَقّطذٰلِكَ  بِمَا  عَصَوْا  وَّ  كَانُوْا  یَعْتَدُوْنَ(آل عمران:۱۱۲)یہ جہاں بھی پائے جائیں ان پر ذلت مُسلَّط کردی گئی سوائے اس کے کہ انہیں اللہ کی طرف سے سہارا مل جائے یا لوگوں کی طرف سے سہارا مل جائے۔یہ اللہ کے غضب کے مستحق ہیں اور ان پر محتاجی مسلط کردی گئی۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق شہید کرتے تھے، اوراس لیے کہ وہ نافرمان اور سرکش تھے۔
اسی طرح مسلمانوں کی بھی نافرمانیوں اور نعمتوں کی قدر نہ کرنے کی بنیاد پر اللہ نے ان سے بھی حکومت وسلطنت چھین کر ظالم وجابر حکمرانوں کو ان کے اوپر مسلط کردینے کی ایک لمبی تاریخ ہے۔وحشی تاتاریوںکے بغداد ،نیشاپور،خراسان اور بے شمار مسلم ممالک کو تہس نہس کردینے کی لرزہ خیزداستان سے کون ذی شعور واقف نہیں۔اسپین پر صدیوں حکومت کرنے کے بعد عیسائیوں کے ہاتھوں کس طرح وہ ملک تاراج ہوا،یہ تاریخ کا ایک لرزادینے والا باب ہے۔علامہ اقبال ؔ نے اپنے سفر ہسپانیہ میں ایک عظیم الشان گرجا گھر کے اندر جو کبھی جامع قرطبہ کہلاتی تھی اور عربوں کی فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ تھی،اس کے صحن میں کھڑے ہوکر بڑی حسرت کے ساتھ کہا تھا؎
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش   اذانیں   ہیں   تری  بادِ  سحر   میں
پھر اسی ہند کی سرزمین پر تقریباً سات سو سال حکومت کرنے کے بعد انگریزوں نے ہمارا کیا حشر کیا ،اس کس نگاہ سے پوشیدہ ہے۔پھر ملک آزاد ہوا مگر یہ آزادی شاید اس غلامی سے بدتر ہے۔آنکھیں ہماری کب کو کھل جانی چاہیے تھیں مگر غفلت کی ایسی مہر ہمارے دل ونگاہ پر لگ گئی کہ الامان والحفیظ۔
یہ تو اللہ جل شانہ کی اجتماعی طور پر ظاہر ہونے والی ناراضگی کی کچھ نشانیاں تھیں ،کچھ انفرادی ناراضگی کی علامتوں کو بھی ملاحظہ فرمالیں۔ ویسےحقیقی بات تو یہی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور ناراضگی کا مکمل علم نہیں ہو سکتا؛ البتہ علمائے اسلام نے کچھ ایسی علامتیں اور نشانیاں بیان کی ہیں جن کا ظہور اگر ہونے لگے توبندے کو فوراً ہوش میں آ جانا چاہیے اور رجوع و انابت، توبہ و استغفار اور عبادت و اطاعت میں مستعدی کا مظاہرہ کرنا چاہیے،کیوں کہ وہ علامتیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی پر دلالت کرتی ہیں۔یہاں مختصراً چند علامات اور نشانیاں پیش کی جاتی ہیں۔
قساوتِ قلبی:
قساوت قلبی کا مطلب یہ ہے کہ انسان انتہائی سخت مزاجی، سنگ دلی اور کٹھورپن کا شکار ہو جائے، رحم دلی اور نرم مزاجی اس کی طبیعت میں باقی نہ رہے، دل کے اندر سختی اور بے رحمی معاصی و ذنوب پر جری ہو جانے اور مسلسل گناہوں پر اصرار کرنے کے باعث پیدا ہوتی ہے؛ حتی کہ انسان بڑے بڑے گناہوں کو بھی بلا خوف و خطر اور بے حیائی سے انجام دینا شروع کر دیتا ہے، ظاہر ہے گناہوں پر مصر ہو جانا اللہ تعالی کے غیض و غضب کو دعوت دینا ہے۔اسی سخت دلی کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا ہے:ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً١ؕ وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ١ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ١ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(بقرہ:۷۰)پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے خوف سے گرپڑتے ہیں اور خدا تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں۔
مشہور تابعی مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قسوة القلب عقوبةٌ للعاصي، ونزع الرحمة منه دليلٌ على غضب الله -تعالى- من صاحبه‘‘یعنی دل کا سخت ہو جانا گناہ گار کے حق میں سزا ہے اور دل سے رحم کا مادہ نکل جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے ناراض ہے۔
نعمتوں پر شکر ادا نہ کرنا:
جس طرح اللہ تعالی کی نعمتوں پر سجدۂ شکر اور آزمائشوں پر سجدۂ صبر بجا لانا رضائے الہی کی ضامن ہے، اسی طرح انعامات الہیہ کی ناقدری کرنا، شکر ادا نہ کرنا اور مصائب و آلام کے لمحات میں بجائے صبر و تحمل کے زبان پر حرفِ شکایت لانا اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر ناخوش رہنا اس کی ناراضگی اور غیض و غضب کو دعوت دینا ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(ابراہیم :۷) یعنی ’’اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے‘‘۔
چناں چہ حق تعالیٰ جب کسی بندے سے خفا ہوتاہے تو اس سے نعمتوں پر شکر اور آزمائشوں پر صبر کی توفیق بھی چھین لیتا ہے، وہ ہر لمحہ بے چینی و اضطراب، فکر و الم اور بے کلی و بےتابی میں مبتلا رہتا ہے، مال و زر کی بہتات اور آسائش و راحت کے اسباب کی فراوانی کے باوجود بھی اس کے اندر قناعت و صبر کی صفت پیدا نہیں ہوتی ہے، اور جس بندے کو حق تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو جاتی ہے وہ اپنے معمولی اور محدود سرمایہ میں بھی صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزار لیتا ہے وہ اللہ کے فیصلے پر راضی رہتا ہے مصیبت کی گھڑی ہو یا راحت کا موقع ہو وہ ہر وقت قضا و قدر کو بجان و دل تسلیم کر لیتا ہے اور زبان کو آلودۂ شکوہ نہیں کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے بندہ اپنے خالق کے تئیں جو گمان و خیال کرتا ہے خالق اسی کے مطابق بندے کے ساتھ معاملہ فرماتا ہے، یعنی بندہ اگر خالق سے بہر حال راضی ہے تو یہ بندے سے خالق کے راضی ہونے کی علامت ہے، اسی طرح اگر خالق کے فیصلوں سے ناخوش ہے تو یہ خالق کے ناراضگی کی نشانی ہے، جیسا کہ مسلم شریف کی روایت ہے: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي(مجمع الزوائد)یعنی میرا معاملہ بندے کے ساتھ ویسا ہوتا ہے جیسا بندے کا گمان میرے متعلق ہوتا ہے اور جب بندہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔
گناہ کی کثرت کے باوجود نعمتوں کی فراوانی:
جو انسان معصیت و نافرمانی میں ہر دم ڈوبا رہتا ہے، احکامات الہیہ کی ادائیگی میں غفلت و بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتا ہے، اس کے باوجود اس کے پاس آسائشوں اور راحتوں کی فراوانی اور دولت و ثروت کی ریل پیل ہے، تو سمجھ جانا چاہیے کہ اس پر اللہ تعالی ناراض ہیں اور یہ سامان عیش و نشاط در حقیقت اس وجہ ہیں؛ تاکہ وہ دنیا میں عیش کوشی کی غفلت میں سوتا رہے اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہ رہے، جیسا کہ حق تعالی نے ایسے سرکشوں اور نافرمانوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ (سورہ محمد:۱۲) اور کافر عیش کوشی میں مبتلا ہیں اور جانوروں کی طرح کھا رہے ہیں اور جہنم ان کا ٹھکانہ ہے۔
توبہ کی توفیق نہ ملنا:
جب انسان کے دل پر غفلت کی پرتیں جم جاتی ہیں اور اپنے خالق و مالک کو فراموش کر بیٹھتا ہے، مسلسل گناہوں میں ملوث رہتا ہے اور توبہ و انابت کا خیال تک اس کے دل میں نہیں آتا ہے تو سمجھ جانا چاہیے کہ اللہ تعالی اس پر ناراض ہیں؛ کیوں کہ جب وہ ناراض ہوتے ہیں تو بندے سے توبہ کی توفیق چھین لیتے ہیں اور اسے معصیت کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیتے ہیں جیسا کہ خود اس کا فرمان ہے: وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ(سورہ الحشر:۱۹)’’اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے خود انھیں اس کی ذات سے غافل کر دیا، یہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔
یعنی جب بندہ اللہ کے حقوق اور احکامات کو فراموش کر بیٹھتا ہے تو حق تعالی اس کو اس قدر غفلت میں ڈال لیتے ہیں کہ انھیں توفیقِ توبہ میسر نہیں ہوتی ہے اور اسی غفلت کی حالت میں معاصی و ذنوب کا بار گراں سر پر اٹھائے آخرت کی طرف اپنے اعمال کی سزا پانے چل پڑتا ہے۔
اب ذرا ایک مومن کی حیثیت سے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا اور اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں اللہ کی ناراضگی کی نشانیاں ہماری زندگی میں ظہور پذیر تو نہیں ہو رہی ہیں اور ہم سے ہمارا پروردگار ناراض تو نہیں ہے، اگر یہ نشانیاں ظاہر نہ ہوں تب بھی ہمیں ہر آن اس کی رضاجوئی اور خوشنودی کی جستجو میں مگن رہنا چاہیے۔
دنیا کی محبت نے ہمیں کس قدر بزدل بنادیا ہے یہ کسی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ۔ہم وہ قوم ہیں کہ جس کی بہادری کےکبھی چرچے ہوتے تھےلیکن آج ہم اپنے درودیوار سے بھی وحشت زدہ ہیں ۔اپنے سائے تک سے ہم ڈر رہے ہیں۔جن کی ہمارے سامنے کوئی حیثیت نہیں  وہ ہمیں آنکھیں دکھاتے پھررہے ہیں۔اگر ہم کل بہادر تھے تو آج بزدل کیسے بن گئے؟اسلا م اور بزدلی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے ۔نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ مومن سب کچھ ہوسکتا ہے بزدل نہیں ہوسکتا۔مسلمان حق بات کہنے میں ہمیشہ دلیر ہوتا ہے۔مسلمان ناانصافی برداشت نہیں کرسکتا۔خوف وہراس ،بزدلی اور نامرادی کو دل سے نکالنے کے لیے ہمیں عیش وعشرت اور دنیا کی محبت سے دور ہونا ہوگا۔
آخر میں ایک حدیث پاک اپنے پیارے نوجوانوں کے حوالے کرکے اس موضوع کو ختم کرتا ہوں۔ہماری نئی نسل کا ایک بڑا طبقہ لایعنی باتوں،سیرسپاٹوں ،بے وقت سونے اوربے وقت جاگنے والے ،دنیا میں الجھے اور دین سے بالکل غفلت کے شکار ہیں۔ اگرایسے لوگ سنجیدگی کے ساتھ صرف اس ایک حدیث پاک پر غور وفکر کرلیںتو ان شاء اللہ ان کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا ہوسکتا ہے۔
اللہ کے پیارے رسولﷺ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّ اللّٰہَ: یُبْغِضُ کَلَّ جَعْظَرِيٍّ جَوَّاظٍ، سَخَّابٍ فِيْ الْأَسْوَاقِ، جِیْفَۃٍ بِاللَّیْلِ، حِمَارٍ بِالنَّھَارِ، عَالِمٍ بِالدُّنْیَا، جَاھِلٍ بِالْآخِرَۃِ( صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۸۷۸)
یعنی’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر بکواس کرنے والے، شیخی بگھارنے والے، بازاروں میں شور شرابا کرنے والے، رات کو مردار، دن کو گدھا بننے والے، دنیا کے عالم اور آخرت سے جاہل انسان سے ناراض ہوتا ہے۔ اللہ اکبر! یہ حدیث پاک ہمارے لیے آئینہ ہے کہ اس کے سامنے ہم اپنا معمول زندگی رکھیں کہ کیسے ہماری صبح ہوتی ہے اور کیسے شام ہوتی ہے۔حضور ﷺ کا یہ فرمان ہر ایک کو اس کی صحیح تصویر دکھادے گا اور اسے اس بات کا خود علم ہوجائے گا کہ اس کا رب اس سے راضی یا ناراض!!!خلاصۂ کلام یہ ہے کہ :
اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو ظالم حکمرانوں کو ہمارے اوپر مسلط فرمادیتا ہے۔
اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو موسم کا مزاج بھی بدل جاتا ہے۔
اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو بخیلوں اور کنجوسوں کے ہاتھوں میں دولت آجاتی ہے۔
اللہ جب ناراض ہو تا ہے تو روٹی نہیں چھینتا بلکہ سجدے کی توفیق چھین لیتا ہے۔
اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو قرآن کریم بھی ہم سے بات کرنا چھوڑدیتا ہے۔
اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو بندہ صبروشکر کی دولت سے محروم ہوجاتا ہے۔
اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو قدرت کے حسین نظارے بھی عذاب بن جاتے ہیں۔
اللہ جب ناراض ہوتا ہے بندہ گناہوں پر افسوس کرنا بھی چھوڑدیتا ہے۔
اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو بندے کو اپنا عیب بھی ہنر معلوم ہوتا ہے۔
جناب جوہرؔ صدیقی بنارسی کے کچھ مناجاتی اشعار پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
                 گنا  ہوں  پر  ہوں  شرمندہ  الہی    درگزر  کر   دے         بڑا  مجرم ہوں میں تیرا  الہٰی در گزر کر دے
                 خطا کوئی نہیں چھوڑی کبھی  عصیاں نہیں  چھوڑا           بس  اب  کرتا  ہوں  میں  توبہ  الہی  در گزر
                 کھلونا   ہاتھ   کا  اپنے   بنا  رکھا ہے  شیطاں    نے           بنا لے  اپنا  تو   بندہ  الہٰی  در گزر  کر دے
                 تیرے دینے سے اے مولا تیرا تو کچھ نہ بگڑے گا           مگر بن جائے گا  میرا  الٰہی  در گزر کر دے
                  اگر مجھ پر تیری رحمت  نہ  ہو  ایک  پل خداوندا            تو ہو جاؤں گا میں رسوا  الٰہی در گزر کر دے
                  خطائیں   کر   کے    میں   آ ج   آنسو    بہاتا   ہوں            تو رحمت  کا  بہا دریا  الٰہی  در گزر کر دے
                  بھکاری بن کے  آیا ہوں تو اپنے در  سے  اے  داتا            مجھے خالی  نہ لوٹانا  الٰہی  د ر گزر کر دے
                  وہ  جس   پہ  چل کہ  بندوں  نے تیرا انعام ہے  پایا           د کھا مجھ کو بھی وہ راستہ الٰہی درگزرکر دے
                  سنور     جائے      میری     دنیا      میرا      عقبیٰ            جو  ہو  جائے  کرم   تیرا  الہٰی در گزر کر دے
                  نبی  کا   واسطہ   دے  کر  صدا  دیتا  ہے یہ  جوہرؔ            رضا  کا   دے  کہ  پروانہ  الٰہی درگزر کر دے
                             سید سیف الدین اصدق چشتی
                  بانی وسربراہ: تحریک پیغام اسلام جمشیدپور