ظہور مہدی اور فتنۂ شکیلیت
مخبر صادق،نبی آخرالزمانﷺ نے فتنوں کے نزول سے متعلق مدینہ منورہ کے ایک ٹیلےپر چڑھ کر لوگوں سے ارشاد فرمایا: هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَىٰ؟ قَالُوا لَا،قَالَ: فَإِنِّي لَأَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَوَقْعِ الْقَطْرِ ،میں جو کچھ دیکھتا ہوں کیاتم بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا نہیں ! تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں فتنوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ تمہارے گھروں کے درمیان اس طرح گر رہے ہیں جیسے بارش برستی ہے ۔“(صحیح بخاری:۷۰۶۰)
اس بات میں اب ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کےفرمان کے مطابق یہی وہ فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے اور روئے زمین کا کوئی بھی گوشہ اب ان فتنوں سےمحفوظ ومامون نہیں رہا ۔ملت اسلامیہ پر سازشی فتنوں،گمراہ فرقوں اور باطل تحریکوں کی چہار طرفہ یلغار ہے ،بدعقیدگی و بدعملی کا فتنہ،مادیت پسندی و نفس پرستی کا فتنہ ،خدابیزاری اور دہریت کا فتنہ،تہذیبی زوال اور حیاباختگی کا فتنہ ،اسلام دشمنی اور گروہ بندی کا فتنہ اور خود کو مہدی موعود اور مسیح ظاہر کرکے مسلمانوں کا استحصال کرنے والےضمیر فروشوں کا فتنہ سرچڑھ کر بول رہا ہے۔آج کے اس خوف ناک ماحول میں گلی گلی ، کوچے کوچے اور گھر گھر میں آزمائشوں کی بساط بچھی ہوئی ہے ،علم وشعور کی دولت سے محروم لوگوں کی ایک بڑی تعدادان فتنوں کے جال میں پھنس کر تباہ ہو رہی ہے۔ کفر اپنی پوری توانائی کے ساتھ حملہ آور ہے اور جنگ کی صورت حال یہ ہے کہ اندرون خانہ بھی یہی مشق جاری ہے،اک ذرا سی غفلت ہوئی اور لمحے بھر میں آدمی شکار ہو گیا ۔ ایک طرف اسلام دشمن عناصر اپنی پوری قوت سے حملہ آور ہیں اور دوسری طرف اسلام کا نام لے کر اس کا استحصال کرنے والے بھی اپنا پورازور اسی پر صرف کر رہے ہیں ۔امت کی آزمائش کا ایسا سخت ترین زمانہ اگر چہ تاریخ میں پہلے بھی رہا ہے،مگر ان خوفناک اسلحوں ،تسلسل و روانی ،حشر سامانی اور فریب کاری کے ساتھ کبھی نہیں رہا ہے۔
ایک اور روایت میں عصر حاضر کی فتنہ سامانیوں اور ہنگامہ خیزیوں سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نےارشاد فرمایا: بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا،أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنْ الدُّنْيَا۔یعنی ’’اندھیری رات کے اندھیروں جیسے فتنوں سے قبل نیک عمل کر لو [جن میں] انسان صبح مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا یا شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر ہو جائے گا، وہ اپنا دین دنیا کے مال و متاع کے عوض بیچ دے گا۔ ( صحیح مسلم:۱۱۸)
آقاﷺ کے بیان کردہ زہرناک فتنوں میں سے جھوٹے اور کذاب مہدی ومسیح کےپیدا ہونے کا بھی فتنہ ہے ۔جوآئے دن دنیاکے مختلف علاقوں میں جنم لے رہے ہیں اور اچھے خاصےبھولے بھالے جاہل مسلمانوں کو صراط مستقیم سے بھٹکانے میں کامیاب ہوجارہے ہیں ۔عموماً اس طرح کے فتنے اپنے پڑوسی ملک پاکستان میں زیادہ پیدا ہوتے ہیں مگرابھی اپنے ملک ہند میں ایک ’’شکیل بن حنیف ‘‘نام کا فتنہ پیدا ہوا ہے۔اس’’ کذاب مہدی ومسیح ‘‘کا فتنہ ان دنوں سر چڑھ کر بول رہاہے۔معتبر ذرائع کے مطابق ہندوستان بھر میں اب تک ۱۰؍ ہزار سے زائد مسلمان اس فتنہ کے شکار ہوکر مرتد ہوچکے ہیں ،بہار ،یوپی اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستیں سب سے زیادہ متاثر ہیں ،ا س پورے معاملے میں چونکانے والی رپوٹ یہ ہے کہ مرتد ہونے والوں میں ۸۰؍ فیصد تعداد تبلیغی جماعت سے وابستہ رہ چکے افراد کی ہے ۔اس سے اس جماعت کی اپنے کارکنان اور متعلقین کی ناقص بنیادی دینی تربیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
شکیل بن حنیف اوراس کا طریقۂ کار:
شکیل بن حنیف، دربھنگہ، بہار کے موضع عثمان پور کا رہنے والا وہ بدنصیب شخص ہے،جس نے مال وزراور حشم وجاہ کی ہوس میں اپنا ضمیر وایمان بیچ دیا ہے ۔یہ ابتد امیں خودتبلیغی جماعت کا ایک رکن تھااوردہلی میں اپنا مسکن بنارکھا تھا۔ نہ جانے کس طرح اس کے دماغ میں یہ خبط سوار ہوا،یا سوار کرایا گیا کہ اس نے مہدی ا ورمسیح موعود ہونے کا دعویٰ کردیا۔اس طرح اس نے ایک نئی قادیانیت کی داغ بیل ڈالی۔وہ دہلی کے مختلف محلوں میں پوشیدہ طور پر اپنی مہدویت ومسیحیت کی تبلیغ کرتارہا،لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں کے بعد ہٹنا پڑا۔اس دوران وہ بہرحال کچھ سادہ لوح نوجوانوں کو اپنے دام فریب میں لانے میں کامیاب ہوگیا،جو دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔دہلی کے بعداس نے اپنی بود وباش مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں اس طرح اختیار کرلی کہ کسی اس کے دولت مند اندھ بھکت نے ایک پورا علاقہ خرید کر ایک نئی بستی بسادی، جہاں اب وہ اور اس کے ”حواری“ رہتے ہیں۔اسی جگہ کو اس نے اپنا ہیڈ کوارٹر بنارکھاہے اور اس کے ماننے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔متعدد شہروں میں شکیل بن حنیف نے خلفاکے نام پراپنےایجنٹ بھی بنارکھےہیں، جو اس کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اس جھوٹے مہدی ومسیح کی دعوت وتبلیغ کا سلسلہ برسوں سے خاصی تیزی کے ساتھ جاری ہے۔جس میں بہار میں پٹنہ ، سیمانچل کے اضلاع اور چمپارن ضلع اور اس کے اطراف سب سے زیادہ اس فتنہ سے متاثر ہیں، تقریبا چار ہزار لوگ اب تک مرتد ہوچکے ہیں،کئی گھرانے مکمل طور پر اس اس فتنہ کے شکار ہیں۔
دوسرے نمبر پر مدھیہ پردیش کا معروف شہر بھوپال ہے ،جہاں فتنہ شکیلیت بہت مضبو ط ہوچکی ہے اور اب تک وہاںڈھائی ہزار سے زائد مسلمان مرتد ہوچکے ہیں۔
تیسرے نمبر پر یوپی ہے جہاں گورکھپور ، بدایوں ، سدھارتھ نگر ،رامپور ،جونپور سمیت متعدد اضلاع اس کی زد میں ہیں اور تقریبا دو ہزار سے زائد لوگ مرتد ہوچکے ہیں،اس کے علاوہ آندھر اپردیش ، مہاراشٹرا ، کرناٹک ، گوا سمیت متعدد صوبوں میں بھی یہ فتنہ تیزی سے بڑھ رہاہے ۔اس فتنے کی دعوت اور طریقۂ کار کے بارے میں الیاس نعمانی صاحب لکھتے ہیں :
یہ خفیہ طور پر کسی نوجوان سے رابطہ کرتے ہیں، یہ نوجوان عام طور پر کسی کالج یا یونیورسٹی کا ایسا طالب علم ہوتا ہے کہ جس کا کسی عالم، دینی جماعت یا دینی تنظیم سے کوئی رابطہ نہ ہو، یہ پہلے اس سے عام دینی گفتگو کرتے ہیں، اور چونکہ اس فتنہ کے تمام داعی اپنا حلیہ ایسا بنائے پھرتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر ہر شخص یہی محسوس کرے کہ یہ متبعِ سنت قسم کے دین دار نوجوان ہیں،مثلا لمبی داڑھیاں رکھتے ہیں، لباس میں لمبے کرتے اور اونچی شلوار کا اہتمام کرتے ہیں، گفتگو میں بار بار الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ، ان شاء اللہ اور ان جیسے دیگر الفاظ کی کثرت رکھتے ہیں؛ اس لیے وہ سادہ لوح اور ناواقف نوجوان ان سے بہت زیادہ متاثر ہوجاتا ہے، اور انہیں بہت دین دار سمجھنے لگتا ہے،اپنی بابت یہ تاثر قائم کرنے کے بعد یہ اپنے مخاطب سے علاماتِ قیامت کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کا مصداق نئے انکشافات، نئی ایجادات اور معاصر دنیا کے بعض حالات وواقعات کو قرار دیتے ہیں، اس درمیان یہ بہت ہوشیاری کے ساتھ یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ اپنے مخاطب کے ذہن میں علماکی تصویر ایسی بنادیں کہ وہ ان کی کسی بات کی تصدیق علماسے کرانے کی ضرورت نہ سمجھے، مثلا یہ کہتے ہیں کہ علماکو ان علامات قیامت کا کچھ علم نہیں ہوتا، اس لیے کہ انھیں زمانہٴ طالب علمی میں یہ حدیثیں پڑھائی ہی نہیں جاتیں، انھیں بس حدیث کی کتابوں کے چند منتخب ابواب پڑھا دیے جاتے ہیں، جن کا تعلق نماز، روزہ جیسے مسائل سے ہوتا ہے،تاکہ یہ کسی مسجد کے امام یا کسی مدرسہ کے مدرس بن سکیں۔ ان کامخاطب جو اب تک ان کے دین دار ہونے کا تاثر رکھتا ہے، یہ باتیں سن کر ان کو دین کا ایسا ماہر بھی سمجھنے لگتا ہے کہ جو علما سے زیادہ دین کو جاننے والا ہے، اور اب اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ یہ اسے جو بتادیں وہ اس پر یقین کرلے۔
اس کے بعد انھیں باور کراتے ہیں کہ دجال کی آمد ہوچکی ہے، وہ امریکا وفرانس کو دجال بتاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ایک حدیث میں جو یہ بتایا تھا کہ دجال کی پیشانی پر ’کافر‘ لکھا ہوگا اس سے آپ ﷺ کا اشارہ یہی دونوں ممالک تھے،اس لیے کہ جب ان دونوں کا نام ایک ساتھ لکھا جائے (امریکا فرانس) تو بیچ میں کافر لکھا ہواہوتا ہے، دجال کی ایک آنکھ ہونے کا مصداق وہ سیٹلائٹ کو قرار دیتے ہیں، بعض روایات میں دجال کے بارے میں ہے کہ وہ ایک گدھا ہوگا، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد فائٹر پلین ہے، اور اسی طرح کی کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔
دجال کی بابت اپنی ایسی گفتگو کے بعد داعیانِ شکیلیت یہ کہتے ہیں کہ دجال کی آمد کے بعد مہدی ومسیح کو آنا تھا، اور وہ آچکے ہیں، اور اب نجات کا بس یہی ایک ذریعہ ہے کہ ہم ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں، اگر مخاطب بہت سادہ لوح ہوتا ہے اور یہ خواہش ظاہر کرتا ہے کہ مجھے بھی اس ’’سفینہٴ نجات‘‘ میں سوار ہونا ہے تو اسے (عام طور پر) پہلے صوبائی امیرکے پاس بھیجا جاتا ہے، مثلاً یوپی میں بنارس بھیج دیا جاتا ہے، جہاں بنارس ہندو یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک نوجوان سے اس کی ملاقات ہوتی ہے،یہ صاحب یوپی میں اس جھوٹے مہدی ومسیح کے مشن کے امیربتائے جاتے ہیں، اور پھر کچھ دنوں کے بعد اورنگ آباد بھیج کر شکیل کے ہاتھ پر بیعت کرادی جاتی ہے؛ لیکن اس بات کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے کہ بیعت سے پہلے اس جھوٹے مہدی ومسیح کا اصلی نام سامنے نہ آئے، یہاں تک کہ لوگوں کے دریافت کرنے پر بھی یہ لوگ اس کا اصلی نام نہیں بتاتے ہیں؛تاکہ اگر یہ شخص کہیں کسی سے تذکرہ کر بھی دے تو بھی لوگوں کو معلوم نہ ہوپائے کہ یہ کس ’’مسیح‘‘کی دعوت دی جارہی ہے۔(ماہ نامہ دارالعلوم ،مارچ:۲۰۱۶)
’’امام مہدی‘‘ اور ’’کذاب شکیل ‘‘احادیث کی روشنی میں:
احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدی رضی اللہ عنہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو الگ الگ شخصیات ہیں، جب کہ ’’شکیل بن حنیف ‘‘ مشہور کذاب ’’غلام احمد قادیانی ‘‘کی طرح اس بات کا دعوے دار ہے کہ وہ بیک وقت مہدی بھی ہے اور مسیح بھی، ظاہر ہے کہ یہی ایک بات ان دونوں کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہےمگر شرط یہ ہے کہ اتنا علم اورشعور رکھنے والا بندہ ہو۔
امام مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میںرسول اکرم ﷺ کی حدیثوں میں متعدد علامتیں بیان کی گئی ہیں، ذیل میں ہم ان میں سے چند کا تذکرہ کریں گے، اور پھر ان کی روشنی میں’’ شکیل‘‘ کا جائزہ لیں گے:
۱۔ رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا کہ مہدی کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا۔(ابوداود: ۴۲۸۲، کتاب المہدی) جب کہ شکیل کے باپ کا نام حنیف ہے، محمد بن عبد اللہ نہیں۔
۲۔ آقاﷺ نے یہ بھی بتایا تھا کہ(امام) مہدی آپ کی ہی نسل سے ہوں گے،اور ان کا سلسلہٴ نسب حضرت فاطمہ تک پہنچے گا، (ابوداود:۴۲۸۴، کتاب المہدی)جب کہ شکیل کا اس خاندان اور نسل سے کوئی تعلق نہیں، وہ تو ہندوستانی نسل کا ہی ہے جس کے دادا پرداد اوغیرہ نے سودو سوسال پہلے کسی اللہ والے کے ہاتھ پر کفروشرک سے نکل کر اسلام قبول کیا ہوگا۔
۳۔ حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدی روشن پیشانی کے ہوں گے، یعنی گورے رنگ کےخوب صورت انسان ہوں گے،(ابوداود:۴۲۸۵، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل ایک مکروہ صورت انسان ہے۔
۴۔آقا ﷺ نے یہ بھی بتایا ہےکہ ان سے پہلے دنیا بھر میں ظلم ونا انصافی کا راج ہوگا، اور وہ ظلم کا خاتمہ کرکے دنیا میں عدل وانصاف کا بول بالا کردیں گے۔(ابوداود: ۴۲۸۲، کتاب المہدی) جب کہ شکیل کے دعوائے مہدویت کو پندرہ برس سے زائد کا عرصہ گزرگیا ہے، اور اس عرصہ میں دنیا میں ظلم ونا انصافی بڑھی ہی ہے، کم نہیں ہوئی ہے۔
۵۔حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکمراں بھی ہوں گے۔(ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی) اور شکیل حکمرانی کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتا،بلکہ وہ بلوں میں چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
۶۔ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ محمد بن عبد اللہ مہدی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ نو برس رہیں گے ۔(ترمذی: ۲۲۳۲،ابواب الفتن، باب بعد باب ماجاء فی المہدی)،جن میں سے سات برس وہ حکومت فرمائیں گے۔(ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی) شکیل بن حنیف کے دعوائے مہدویت کو تقریباً پندرہ برس سے زیادہ عرصہ گزرگیاہے اور ابھی تک نہ اس کا انتقال ہوا ہے اور نہ اس کی حکومت قائم ہوئی ہےاورنہ ہونے والی ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ رمضان المبار ک کے مہینے میں ابدال کعبہ شریف کے طواف میں مشغول ہوں گے وہاں اولیاحضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہچان کر ان سے بیعت کی درخواست کریں گے۔ آپ انکار فرمائیں گے۔ غیب سے آواز)آئے گی’’ ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللہِ الْمَھْدِیْ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَاَطِیْعُوْہ‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ مہدی ہیں ان کا حکم سنو اور اطاعت کرو۔ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستِ مبارک پر بیعت کریں گے وہاں سے مسلمانوں کو ساتھ لے کر شام تشریف لے جائيں گے۔آپ کا زمانہ بڑی خیر و برکت کا ہوگا۔ زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی۔(کتاب العقائد،ج: ص۳۰،۳۱)
ظہور امام مہدی سے متعلق ایک روایت ذراتفصیل کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے: ایک خلیفہ کی وفات کے وقت اختلاف ہوگا (اس کا نام معلوم نہیں مگر یہ آخری خلیفہ ہوگا جس کے بعد امام مہدی خلیفہ ہوں گے ممبروں میں اختلاف ہوگا کہ کسے خلیفہ چُنیں) تو اہلِ مدینہ میں سے ایک صاحب مکہ معظمہ کی طرف تیزی سے تشریف لے جائیں گے (اس خوف سے کہ کہیں اُنہیں خلیفہ نہ چُن لیا جائے) اہلِ مکہ میں سے کچھ لوگ ان کے پاس آئیں گے (وہ لوگوں سے چھپے ہوئے مکۂ مکرمہ کے کسی گھر میں تشریف فرما ہوں گے مگر مکہ والے ان کے دروازے پر پہنچ کر ان سے گزارش کریں گے اور) انہیں باہر لائیں گے (اور انہیں اپنا خلیفہ مان کران کے ہاتھ مبارک پر بیعت کریں گے) حالانکہ وہ صاحب اسے ناپسند کرتے ہوں گے یہ لوگ اُن سے مقامِ ابراہیم اور حجرِ اسودکے درمیان بیعت کریں گے (اس وقت شام کا بادشاہ کافر ہوگا، جب اسے ان کی خلافت کا پتا لگے گا تو وہ ان سے جنگ کرنے کے لیے) ان کی طرف شام سے ایک لشکر بھیجے گا (جس کا نام لشکرِ سفیانی ہوگا)۔ اُس لشکر کو مکہ و مدینہ کے درمیان ایک میدان میں دھنسا دیا جائے گا (اس لشکر میں صرف ایک شخص بچے گا جو ان کی ہلاکت کی خبر لوگوں تک پہنچائے گا) جب حضرت امام مہدی کی یہ کرامت لوگوں میں مشہور ہوگی تو ان کے پاس شام کے اَبدال اورعراق والوں کی جماعتیں آئیں گی تو اُن کو بیعت کرلیں گے پھر قریش کا ایک شخص نکلے گا جس کے ماموں بنو کَلْب سے ہوں گے (یہ خبیث انسان اپنے ماموؤں کی مدد سے) حضرت امام مہدی کے مقابلہ میں ایک لشکر بھیجے گا امام مہدی کا لشکراُن پر غالب آئے گا۔( ابوداؤد، حدیث: ۴۲۸۶ملخصاً۔مراٰۃ المناجیح،ج :۷،ص:۲۶۷تا ۲۶۹ملخصاً)
ایک دوسری روایت میں ہے:نقصان میں ہوگا وہ شخص جو بنی کلب سے حاصل شدہ مالِ غنیمت میں شریک نہ ہو۔ خلیفہ مہدی خوب مال تقسیم کریں گے اور لوگوں کو ان کے نبی ﷺ کی سنّت پر چلائیں گے اور اسلام مکمل طور پر زمین میں مستحکم ہوجائے گا۔(مسنداحمد،حدیث:۲۶۷۵۱ملخصاً)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے بارے میں بھی کتب احادیث سے روایات نقل کی گئیں تو تحریر طویل ہوجائے گی۔اس لیے امام مہدی رضی اللہ عنہ کے ہی ذکر سے بات سمجھ میں آگئی کہ یہ ’’شکیل بن حنیف‘‘ کس درجے کا جھوٹا ،کذاب اورفتنہ ہے۔ساتھ ہی اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ آج دین کا نام لے کر کس کس طرح دین سے خارج کردینے والے شرانگیز فتنے ہمارے معاشرے میں پنپ رہے ہیں۔ان سے خود بچنا،اپنےاہل خانہ کو بچانا اوراپنے معاشرے کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے۔
فتنہائے زمانہ اور ہماری ذمہ داریاں:
اس طرح کے فتنوں کے بارے میں سن اور پڑھ کر جہاں روح کانپ جاتی ہے وہیں ہمارا دل اللہ کی بارگاہ میں ہدیہ تشکر پیش کرتا ہے کہ ہم صراط مستقیم پر گامزن ہیں ہیں۔لیکن صرف اسی پر خوش ہوجانا حماقت کے سوا کچھ اور نہیں بلکہ علما ومشائخ اور تمام خواص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے طریقے سے اپنے متعلقین کی علمی وعملی تربیت کرتے رہیں ۔علما مساجد،مدارس،جلسہ ،جلوس اور محافل وغیرہ میں ان موضوعات پر سنجیدہ گفتگو کریں۔پیران عظام اپنے مریدین ومعتقدین اور حلقۂ ارادت کی کم از کم خبر رکھیں اورنصیحتیں کرتے رہیں۔اسی طرح اپنی نسلوں کے ایمان وعقیدے کی حفاظت کے لیے مستقل جدوجہد کرنا ہرمسلمان کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔اس طرح کے فتنوں کے شرسےجو خیرکے پہلونکلتے ہیں توآپ اسے بھی ذراپڑھیں ،سنیں اورعمل کریں تو ان شاءاللہ خاطر خواہ فائدہ ہوگا،مثلاً:
(۱) ایمان وعقیدے پر ہونے والے اس طرح کے حملوں سے چند باتیں کھل کر سامنے آتی ہیںجس سےجماعت اہل سنت کی حقانیت اور اہمیت کا بھی پتہ چلتاہے۔اس لیے’’ علمائے حق اور اہل سنت وجماعت‘‘’’مشائخ خانقاہ‘‘ اور’’پیران عظام‘‘ سے محبت و تعلق اور سچی وابستگی بہت ضروری ہے۔ان کی رہنمائی ہمیں ہر طرح کے فتنوں سے بچنے میں مدد دے گی۔
(۲) یہ جماعت اہل سنت ہی ہے جو اللہ کی توحید وکبریائی کے ساتھ ،نبی پاک ﷺ کی عظمت وشان بیان کرتی ہے اورامت کا رشتہ اولیا ءاللہ اور بزرگان دین کے ذریعہ’’ حقیقی دین‘‘ سےجوڑ کر رکھتی ہے۔یہ جماعت اپنے متعلقین کو مکمل بنیادی عقائد ومسائل بھی بتاتی ہے اور قرآن کریم نے اپنے جن انعام یافتہ بندوں کی راہ کو’’ صراط مستقیم ‘‘کہا ہےوقتاً فوقتاً ان کے دن مناکر ان کی محبت دلوں میں ڈالتی رہتی ہے۔یعنی انبیا وصدیقین ،شہدا وصالحین اور اولیا وبزرگان دین ،اس لیے ان سے ہی وابستہ رہنے میں نجات اور کامیابی ہے۔
(۳)مشہور تابعی امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: إنَّ هٰذا الْعِلمَ دِينٌ، فانظُرُوْا عَمَّنْ تأخُذُوْنَ دِينَكُمْ(مقدمہ صحیح مسلم ۔حدیث:۲۶۳)یعنی :یہ علم، دین ہے ، پس تم دیکھ کہ کس شخص سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو۔اس میں ہمارے لیے یہ پیغام ہے کہ کسی بھی جماعت اور تنظیم کو یوں ہی جوائن نہ کرلیں ،سوشل میڈیا کے ذریعہ کسی کی بھی تحریر وتقریربغیر تحقیق کے ہرگز نہ پڑھیں نہ سنیں ۔جب تک کہ اس بات کا علم نہ جائے کہ اس کا مسلک وعقیدہ انبیا،اولیا اور بزرگان دین سے محبت وقربت والا ہے۔
(۴)دین پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے ،نہ کہ صرف نماز وروزہ اور حج وزکوٰۃکی ادائیگی اور اس کے مسائل کے جاننے کا نام دین ہے ۔اس لیے اگر کوئی تنظیم وتحریک دین کے دائرے کو محدود کرتی ہے تو اس سے دامن بچالینے میں ہی بھلائی ہے۔
(۵)ہر مسلمان کے لیے دین کےبنیادی عقائدومسائل کی تعلیم انتہائی ضروری ہے،انگلش میڈیم کے ہوڑ میں جس کی جانب کم سے کم توجہ ہوتی جارہی ہے ۔ہمارے اعلیٰ دنیاوی تعلیم یافتہ حضرات مدرسوں کی تعلیم پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور وہاں ماڈرن ایجوکیشن کے نافذ کرنے پر بہت ضرور دیتے ہیں ،ان کے لیے اس میں سبق ہے کہ وہ اسکول اور کالجز کے بچوں کو دینی تعلیم دلانےکی بھی بات کریں۔اس لیے کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے ہوسکتا ہے کہ دنیاوی مال کمانے میں پیچھے رہ جائیں مگر اسکول وکالج میں پڑھنے والے بچوں کا اگر ایمان چلا گیا تو بتائیں ذمہ دار کون ہوگااورگھاٹے میں کون رہا!!!شاعر مشرق علامہ اقبال ؔ نے برسوں پہلےکیا خوب کہا تھا ؎
دین ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہوملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
سید سیف الدین اصدق چشتی
آستانہ چشتی چمن پیربیگھہ شریف نالندہ(بہار)
بانی وسرپرست: تحریک پیغام اسلام جمشید پور(جھارکھنڈ)