Paigham-e-Islam

عظمتِ انسانیت

عظمتِ انسانیت

گھٹے  اگر  تو بس  اک  مشتِ  خاک  ہے  انساں
بڑھے  تو   وسعت ِ  کونین   میں  سما   نہ   سکے
دنیا میں انسانوں کو بہت سارے ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ بہت ساری تعریفیں کی گئی ہیں۔حیوان محض کہا گیا،حیوان ناطق کہا گیا،معاشرتی حیوان ((Social Animalکہا گیا۔ڈارون کے نقطۂ نظر سے انسان کو بندروں کی ترقی یافتہ شکل کہا گیا لیکن قرآن نے انسان کی جو تعریف کی ہے اسے سن کر آپ جہاں اسلام کے تقدس کو سلام کریں گے وہیں انسانی عظمتوں کو بھی خراج پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔فرمان باری تعالیٰ ہے :وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا(بنی اسرائیل:۷۰)(اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی۔)پھر کہیں فرمایا: وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۔وَسَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ۔وَسَخَّرَ لَکُمْ مَافیِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْض۔یعنی سورج وچاند،رات ودن اور زمین وآسمان میں جو کچھ ہے ،اللہ ان سب کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔ان جیسی متعدد آیات کریمہ انسان پر خدائی فضل وکرم کی گواہ ہیں ۔آج انسان جو نِت نئی ایجادات کو دنیا کے سامنے پیش کررہاہے،چاند کی بلند ترین چوٹیوں پر اپنے ملک کے جھنڈے گاڑ کر جوکریڈٹ لے رہا ہے،اصلاً اس کا سارا کریڈٹ اورسہرا اسلام اور قرآن کے سربندھتا ہے۔’’اہل ایمان ایسے کسی انسان کو انسان ماننے کے لیے تیار نہیں جو مطلق جانور تھا اورترقی کرکے انسان بن گیا ‘‘۔یہ ڈارونی عقیدہ کسی اورکا تو ہوسکتا ہے مگر کسی مومن ومسلم کا ہرگز نہیں ہوسکتا۔حضرت اکبر الٰہ آبادی نے کیا ہی خوب کہا ہے؎
ڈارون صاحب حقیقت سے نہایت دور تھے
میں نہ مانوں گا کہ مورث آپ کے لنگور تھے
بندر یا لنگور ڈارون یا ان کے ہم نواؤں کا باپ تو ہوسکتا ہے مگر ہمارا نہیں۔ہمارا باپ تو وہ حضرت آدم ہے جو ابوالانبیا ہے،خشت بشریت کی پہلی اینٹ ہے،مسجود ملائک ہے ، جنت میں جگہ پانے والا پہلا بندۂ خدا ہے۔دردؔ دہلوی کہتے ہیں؎
باوجود یکہ  پر  و  بال  نہ  تھے  آدم   کے
  وہاں  پہنچا کہ  فرشتوں  کا  مقدور  نہ  تھا

اور حضرت اقبالؔ کی زبان میں :            بدل ڈالا ہے اب تو اپنا انداز ِ بیاں ہم نے

                                         نہیں تو بند کردی تھی فرشتوں کی زباں ہم نے
انسان اپنی جسمانی طاقت وقوت کے لحاظ سے تو ایک عاجز وکمزور مخلوق ہے ۔وہ نہ سورج وچاند کی طرح روشن ہے نہ سنگ وفولاد کی طرح مضبوط ،نہ اس میں سمندروہوا کا بہاؤ ہے، اور نہ وہ موسم کی شدت سے بے نیاز سدا بہار اور تناور درخت کی طرح ہے، جو مئی جون کی گرمی ہو ،یا اگست ستمبر کی برسات، یا دسمبر وجنوری کی سرد ہوائیں ،ہر موسم میں کھڑا انسان کی عجزوناتوانی پر مسکراتا رہتا ہے۔لیکن ان سب کے باوجود انسان ہی اس کائنات کا مقصود ہے ۔خدا نے اس دنیا کو دراصل اس کی راحت کے لیے پیدا کیا ہے’’هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا‘‘(وہی ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے بنایا ) اور انسان کو خود اپنی عبادت کے لیےبنایا:وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ؎
 میں   فقیر  آستاں   ہوں  ،  مری   لاج   رکھ    خدایا
                                   یہ  جبین  شوق  میری ،  ترے  در  پہ  جھک  گئی  ہے
انسان تو چاند کی روشنی اور گلاب کی رنگت پر ریجھتا ہے،نرگس کے پھول کی اپنی آنکھوں سے بڑھ کر تعریف کرتا ہے ،آبشاروں کے ترنم اور کہساروں کے حسن پر فدا ہوجاتا ہےلیکن اللہ جل شانہ نے اپنی حقیقت سے ناواقف انسانوں کو بتا یا ہے کہ اس کی مخلوقات میں سب سے خوب صورت ڈھانچہ اے میرے بندے تیرا ہے:  لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(سورہ والتین) (بیشک یقیناہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا ۔)اگر سورج کو زباں ملتی تو وہ انسانی تخلیق کا مدح خواں ہوتا۔اللہ پاک اگر چاند کو قوت گویائی عطا فرماتا تو وہ انسان کی خوش روئی کی داد دیتا پھرتا۔اگرچمن ومَرغ زاروں، کہساروں اور حسیں وادیوں کوتشبیہ و تعبیر اورا ظہار خیال کی طاقت ہوتی تووہ اپنے حسن کو انسان کے حسن وجمال پر نچھاور کردیتا۔اس لیے انسان کوبالکل یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی سوریہ کو نمشکار کرے،چندرما کو پرنام کرے،سانپ چھوچھندر اور بندر پر اپنی آستھا جتائے،کسی ندی نالے میں ڈبکی لگاکر بیکنٹ باشی ہونے کا خبط پالے،جانوروں کی غلاظتوں کو کھاکر پی کر مست رہے اور اسے اپنےلیے باعث برکت جانے،ہرکنکرپتھراور ذلیل وحقیر چیزوں کودیوتا سمجھ کر متّھا ٹیکے۔
ایک انسان کے لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتاہے کہ اسے کائنات کی کسی شئے کے آگے نہیں بلکہ صرف اور صرف خدائے وحدہ لاشرک کے آگے جھکنے کا حکم دیا گیا ۔ہم اس پر جتنا ناز کریں وہ کم ہے ۔یہ غلامی آقائی سے اور یہ بندگی بادشاہی سے ہزار درجہ بہتر ہے،کیونکہ جو انسان خدا کی بندگی سے نکل جاتا ہے ،اسے کتنی ہی مخلوقات خدا کی بندگی کرنی پڑتی ہے اور نہ جانے کتنے در پر وہ سجدہ ریز نظر آتا ہے؎
          وہ ایک سجد ہ  جسے تو گراں سمجھتا ہے
                                              ہزار سجدو ں سے دیتا آدمی کو نجات
شرف انسانیت کا ایک خوب صور ت واقعہ:
حضرت بہلول کا نام تو آپ نے ضرور سنا ہو گا جنہیں بہلول دانا بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پانچویں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور (مارچ 766 ء سے مارچ 809ء) میں ایک فلاسفر، ولی کامل اور تارک الدنیا درویش کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ان کا کوئی گھر یا ٹھکانہ نہیں تھا، شہر میں ننگے پاؤں پھرتے اور جس جگہ تھک جاتے، وہیں ڈیرہ ڈال لیتے۔ بعض لوگوں نے انہیں مجذوب بھی لکھا ہے کیونکہ وہ عشق الٰہی میں گم اور اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوتے تھے۔ بہت کم لوگوں کی طرف التفات کرتے لیکن جب کبھی عوام الناس کی طرف منہ کرتے تو حکمت و دانائی کی بہت ہی عجیب و غریب باتیں کرتے۔آپ کوفہ میں پیدا ہونے والے بہلول کا اصل نام ’’وہب بن عمرو ‘‘اور تعلق عرب قبیلے بنو امان سے تھا۔ ان کے والد چھٹے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے، لیکن کچھ وقت ساتویں امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کی صحبت میں بھی گزارا۔ بہلول کا شمار بھی امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کے خاص معتقدین میں ہوتا تھا۔ جب خلیفہ ہارون رشیدنے امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کو قید کرنے کے بعد ان کے متبعین ومعتقدین کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو وہب اور کچھ دوسرے لوگوں نے امام سے قید خانے میں ملاقات کر کے آئندہ لائحہ عمل کے لیے ہدایات مانگیں۔
حضرت امام نے جواب میں صرف ایک لفظ ’ج‘ لکھ کر اپنے عقیدت مندوں کے حوالے کر دیا۔ ہر شخص نے ’ج‘ کو اپنے اپنے انداز میں لیا۔ کچھ نے اسے جلا وطن سمجھا اور بعض نے اس کے معنی جبل یعنی پہاڑوں میں روپوشی لیا، لیکن وہب نے اسے جنون یعنی مجنونیت میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے اپنی شاہانہ زندگی ترک کی اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر گلیوں میں نکل آئے۔
خلیفہ ہارون رشیدسے ان کی ملاقات۱۸۸ھ میں خلیفہ کے سفر حج کے دوران کوفہ میں ہوئی، جس کا ذکر امام ابن کثیر نے بھی کیا ہے۔ بہلول نے ہارون کو جو نصیحتیں کیں ان سے متاثر ہو کر وہ انہیں اپنے ساتھ بغداد لے آیا اور پھر بہلول کا ٹھکانہ بغداد کی گلیاں ہی رہیں۔ بہلول کا مزار بھی بغداد میں ہی ہے، جس کے ایک گوشے کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں سکھ مذہب کے بانی گرو نانک نے چلہ کاٹا تھا۔بہلول دانا کے علم،ذہانت ،بزرگی اور دنیا سے بے نیازی کی بنا پر خلیفہ ہارون رشید کے ساتھ اس کی بیوی ملکہ زبیدہ خاتون بھی ان سے خاص عقیدت رکھتی تھی۔کہا جاتا ہے کہ ایک چودھویں کی شب محل کی چھت پر ملکہ اپنے شوہر کے ساتھ چہل قدمی کررہی تھی ۔ماہتاب فلک پوری آب وتاب کے ساتھ اپنی روشنی بکھیررہا تھا کہ ہارون رشید نے کہا کہ ملکہ یہ بتائیں کہ یہ چاند زیادہ حسین ہے یا آپ کا چہرہ، ملکہ نے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے بڑی ادا سے کہا کہ میرے سرتاج ! یہ چاند کا حسن کیا ہے،یقیناً میں اس سے زیادہ حسین ہوں۔
حضرت سعدی فرماتے ہیں کہ بچوں کی آواز اور بادشاہ کے مزاج کا کوئی بھروسہ نہیں ۔یہی ہوا اور بادشاہ نے تیور بدل کر کہا کہ بیگم! اگر یہ بات آپ نے ۲۴؍گھنٹے میں ثابت نہ کی تو طلاق ۔بس!پھرکیاتھاعشق وعاشقی کاسارا رنگ کرکرا ہوگیا،کسی طرح رات گذری اور ملکہ ہراساں وپریشاں صبح ہی صبح بہلول دانا کے پاس پہنچی ،حالات بتائے،حضرت بہلول نے تسلی دلائی کہ کوئی بات نہیں ،آپ بے فکرہوکر محل جائیں،مسئلہ کوئی بڑا نہیں ،میں بادشاہ کو سمجھا دیتا ہوں ۔شام کو دربار لگا تو حضرت بہلول بھی حاضر ہوئے،ہارون رشید نے معمول کے مطابق عزت افزائی کی،آنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا :میں قرآن کی ایک مشہور سورہ والتین پڑھتا ہواگزررہاتھا کہ مجھے ذرا شبہ ہوا،سوچا کیوں نہیں آپ کو سناکر اصلاح لے لی جائے،اورپھر سورہ والتین کی تلاوت شروع کردی : لَقَدْ خَلَقْنَا الشَّمْسَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ،پڑھا تو بادشاہ نےبڑے ادب سے کہا :حضور!اس آیت کو پھر سے پڑھاجائے،آپ نے اس بار پڑھا:لَقَدْ خَلَقْنَا القَمَرَفِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ،بادشاہ نے پھر ٹوکا۔آپ نے کہا :بادشاہ سلامت! آپ ہی اسے پڑھ دیں کہ اس جگہ کیا ہے؟تو بادشاہ نے پڑھا:لَقَدْ خَلَقْنَا الشَّمْسَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ،توحضرت بہلول نے ایک خاص انداز سے فرمایاکہ حضور والا!اللہ جب فرماتا ہے کہ ہم نے سورج کو نہیں،چاند کو نہیں ،ستاروں کو نہیں ،انسان کو سب سے زیادہ حسین وجمیل بنایا ہے تو پھر ملکہ نے اگرخود کوچودھویں رات کےچاند سے زیادہ خودحسن وجمال کا مالک کہہ دیا تو تردد کیسا؟اور طلاق کاناروا اور مکروہ لفظ آپ کی زبان پر کیوں کر آیا؟۔بادشاہ نے معذرت کرتے ہوئے اپنی گردن جھکالی اور یوں ایک بار پھر بغداد کی گلیوں میں حضرت بہلول کی دانائی کے چرچے ہونے لگے۔(واقعات بہلول دانا)
اور ایک حدیث پاک میں ہے کہ حضور ﷺ کاارشاد عالی ہے: أَ لَا أُنَّبِئُکُمْ بِخِيَارِکُمْ؟ قَالُوْا: بَلٰی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ: خِيَارُکُمُ الَّذِيْنَ إِذَا رُؤُوْا، ذُکِرَ اﷲُ عزوجل.(ابن ماجہ رقم:۴۱۱۹) کیا میں تمہیں تم میں سے بہترین لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کیوں نہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں کہ جب انہیں دیکھا جائے تو اﷲتعالیٰ یاد آ جائے‘‘۔کسی اہل دل شاعر نے بہت خوب کہا ہے؎
اہل  معنی  جز  نہ   بوجھے  گا  کوئی   اس   رمز  کو
                               ہم  نے  پایا  ہے  خدا  کو  صورت  انساں  کے  بیچ
صاحبو! آپ جسمانی اعتبار سے بھی انسان کا مطالعہ کیجیے: اللہ نے جسم انسانی کو ایک قیمتی الماری بنادیا ہے ،جس میں نہایت عظیم الشان نعمتیں محفوظ کردی گئی ہیں ۔کہیں دماغ ہے جوپورے جسم کا فرماں روا ہے ،پرانی باتیں محفوظ بھی کرتا ہے اور نئی باتیں سوچتا بھی ہے۔پورے جسمانی نظام پر ہر لمحہ نظر رکھتا ہے اور اسے کنٹرول بھی کرتا ہے ۔ اس سے نیچے اترئیے تو پہلو میں دل ہے،جس کی دھڑکن سے سارا وجود قائم ہے۔اس کی اہمیت طبیبوں،شاعروں اور صوفیوں تینوں طبقوں میں یکساں ہے۔اس سے قریب پھیپھڑا ہے جو مسلسل سانس لینے اور چھوڑنے پر اللہ کی طرف سے معمور ہے۔اسی جسم میں جگر ہے ،اسی میں گردہ ہے جو گویا خون صاف کرنے کا کارخانہ ہے ،پھر معدہ ہے جو کیسی کیسی سخت جاں چیزوں کو گلاکر ہضم کرتا ہے،غرض کتنی ہی نعمتیں ہیں جو اس چھوٹے سے وجود میں محفوظ ہیں ،دماغ اور قلب کا تو کیا کہنا ! لیکن پھیپڑا ہی کام کرنے میں کوتا ہی کرنے لگے تو اور مصنوعی آلۂ تنفس،جسے انگلش میں (ventiletar)کہتے ہیں ،لگانا پڑ ے توروزانہ ہی ہزاروں روپے خرچ ہوجائیں ۔اگر گردہ متاثر ہوجائے اور نوبت ڈائلسس کی آجائے تو ایک دفعہ میں کئی ہزار روپے چلے جائیں ۔اس پہلو سے انسان اگر اپنے جسم کے اندر کام کرنے والی چیزوں کا اندازہ لگائے تو ،اس کی اجرت پر غور وفکر کرے تو لاکھوں روپے کا تخمینہ ہوگا ۔یہ تمام نعمتیں کیا انسان نے اپنے پیسوں سے خریدی ہیں یا کیا ان کو انسان اپنی ذہانت اور کاریگری کے ذریعہ وجود بخشا ہے؟ہرگز نہیں!انسان اگر اسی پر غور کرلے تو اس کی زبان ہمہ وقت ذکر الٰہی اور حمدالٰہی سے تر رہے۔
محسن انسانیت کادرس انسانیت:
آج دنیا سمٹ کر مٹھی میں چلی آئی ہے اور آج کا انسان جدید آلات کی بنا پر کائنات کی ہر شئی کو پہچانتا ہے۔ہر مشین کے بارے میں جانتا ہے۔تمام آلات کی خوبی وخامی سے واقف ہے۔کائنات کے ہر بلند وپست مقام سے آگاہ ہے،مگر افسوس! آگاہ نہیں تو خوداپنی ذات سے آگاہ نہیں ۔ہم میں سے کتنےلوگ ہیں جو اپنے اعضا کی قدروقیمت پر غوروفکر کرتے ہیں اور اس نوعیت سے اس کی قدر کرتے ہیں؟اسی وجہ کر کہا گیا ہے کہ جو خودی سے بیگانہ وہ خدا سے بیگانہ ہےاور جس نے خود کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘۔ہمارے آقا ﷺ سے چالیس سال کی عمر میں اعلان نبوت کا حکم فرمایا گیا کیوں ؟حکمت یہی تھی کہ اے محبوب !پہلے زمانے کو یہ بتاؤ کہ انسان کا خاصّہ کیا ہے،مقام انسانیت کیا ہےاور وجہ شرف انسانیت کیا ہے؟اس لیے جو انسان نہیں ہوگا وہ بھلا مسلمان کیا ہوگا!!انسان انس سے بنا ہے ،جس کا معنی محبت ،اخوت،شفقت،ملاطفت اور رحمت ہے۔جس کے اندر یہ انسانی خوبیاں نہ ہوں وہ بہ صورت انسان تو ہوسکتا ہے مگر حقیقت میں انسان نہیں ہوسکتا ۔
  اگر ہم سیرت نبوی ﷺکا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ محسن انسانیتﷺ نے کفار و مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ انسانیت کے تحفظ اور قیام امن کے لئے بہت سے معاہدے کیے تاکہ ظلم وستم کا سد باب ہو۔ اس کے ساتھ ہی آقا ﷺ انسانیت کے دشمن پر بھی کڑی نظر رکھتے، کہ کہیں کوئی فساد سر نہ اٹھا سکے اور انسانیت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
  انسان جب اپنی اس حیثیت کو بھول جاتا ہے یا احساس برتری میں مبتلا ہوجاتا ہےیااپنے مقام انسانیت سے گرتا ہے تو فتنہ وفساد پر آمادہ ہو جاتا ہے،قتل وغارت گری میں مبتلا ہوتاہے،خوں ریزی اس کا مشغلہ ہوتا ہے، چوری وڈاکہ زنی ،حسدو غیبت، کبرونخوت، چغلی وبہتان تراشی،بدکاری و بداخلاقی جیسی بیماریوں کا شکار ہوکرمعاشرے اور انسانی سوسائٹی کے لیے ناسور بن جاتا ہے۔ اس صورت میں اسے اصلاح و تربیت کی بے حدضرورت ہوتی ہے۔ مولانا الظاف حسین حالیؔ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا؎
فرشتے  سے  بڑھ  کر  ہے  انسان   بننا
                                         مگر  اس  میں  لگتی  ہے  محنت   زیادہ
ایک حدیث پاک میں نبی کریم ﷺنے انسانیت کی عظمت پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پوچھے گا: ’’اے بنی آدم، میں بیمار ہوا لیکن تم مجھے دیکھنے نہیں آئے؟ انسان جواب میں کہے گا کہ اللہ! آپ تمام جہانوں کے رب تھے۔ میں آپ کے پاس کیسے حاضر ہو سکتا تھا؟ اللہ تب فرمائے گا؛ کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ میرا ایک بندہ بیمار ہو گیا ہے لیکن تم اس کی عیادت کے لیے نہیں آئے۔ کیا تم نہیں جانتے تھے کہ اگر تم اس کے پاس جاتے تو مجھے اس کے پاس پاتے؟
اے بنی آدم میں نے تم سے کھانا مانگا تھا لیکن تم نے مجھے نہیں دیا، اللہ پوچھے گا، انسان جواب دے گا، اللہ تو جہانوں کا پالنے والا ہے میں تجھے کیسے کھلاتا؟ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے ایک بندے نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے اس سے انکار کر دیا اگر تو نے اسے کھلایاہوتا تم مجھے اس کے قریب پاتے‘‘۔
خدا پوچھے گا اے بنی آدم میں نے تم سے پانی مانگا تھا لیکن تم نے انکار کر دیا انسان پھر جواب میں کہے گا کہ توتو رب العالمین تھا میں تیری پیاس کیسے بجھا سکتا تھا؟ خدا جواب دے گا کہ میرے ایک بندے نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے انکار کر دیا اگر تو اسے پانی پلاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا‘‘۔اندازہ کیجیے کہ اللہ رب العزت نے خود کو بھوکا،پیاسا اور بیمار کہاجو ناممکن ومحال ہے ،لیکن کیوں؟ تاکہ انسانوں کے اندر آپس میںبھلائی ،ہمدردی،بھائی چارگی اور نیکی کےجذبے کے ساتھ ان کےاندر روح انسانیت پیدا ہو؎
دردِ    دل    کے    واسطے   پیدا   کیا    انسان  کو
ورنہ  طاعت  کے  لیے  کچھ  کم  نہ  تھے  کرّوبیاں
حکم رب پر اللہ کے رسول سےبڑھ کر عمل کرنے والا کون ملے گا ۔آپ سیرت رسول اکرم ﷺ کا جائزہ لیں تو خدمت انسانیت اور احترام انسانیت کے شہ پارے جگہ بجگہ بکھرے نظر آئیں گے۔آپ کی راہ میں کانٹے بچھانے والی یا کوڑا پھینکنے والی عورت کی عیادت کا منظر دیکھیں۔بیمارے یہودی لڑکے کی عیادت اور اسے جہنم سے رہائی دلانا دیکھیں۔ایک یہودی کی گزرتے جنازے کےلیے آپ کاکھڑا ہونا ملاحظہ فرمائیں۔مکہ کے قحط زدہ مشرکین کے لیے آپ ریلیف بھیجتے ہیں،جس میں اتنا غلہ تھا کہ مکہ کا قحط دور ہوگیا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم یہ ریشمی جوڑا اپنے مشرک بھائی کو مکہ معظمہ بھیج دو۔سرکار دوعالم ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے خلفا اور اہل بیت واصحاب نے بھی اس خدمت واحترام کے نہ جانے کتنے چراغ روشن کیے۔پھر اسی نبوی مشن کو لے کر صوفیہ کی جماعت چلی تو چاردانگ عالم اسلام کا غلغلہ بلند کردیا اور زمانےوالے ان کے اخلاق کی خوشبو،کردار کی پاکیزگی اور خدمت انسانیت کے حسن سے غلام بے دام بن گئے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ دین اسلام ،پیغمبر اسلام اور صوفیائے کرام کی تعلیمات ،سیرت اور طریقِ کار کی روشنی میںسب سے پہلے ہم خود انسانیت کی ایک خوب صورت تصویر بنیں،خدمت انسانیت کا فریضہ انجام دیں اورانسانیت کی سربلندی کے لیے جدوجہد کریں۔اگر ایسا ہم کرسکے تو ضرورلوگ ایک بار پھر جوق درجوق اسلام کی طرف کھنچتے چلے آئیں گے؎
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت  عام سہی  عرفان محبت  عام نہیں
                                        سید سیف الدین اصدق چشتی
                          آستانہ چشتی چمن پیربیگھہ شریف نالندہ(بہار)
                                     بانی تحریک پیغام اسلام جمشیدپور