Paigham-e-Islam

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

خدائے واحد پرایمان انسان کو بے مثل جری،غضب کا حق گو اور انتہائی نڈروبے باک بنادیتا ہے۔کیوں کہ ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ سے یہ عقیدہ مومن کے دل میں راسخ ہوجاتا ہے کہ تمام طاقت وقوت رب قدیر ہی کے دست قدرت میں ہے۔وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے،اور اگر وہ نہ چاہے تو کسی کی چاہت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔یہی وجہ تھی کہ اہل بیت وصحابہ کی مقدس جماعت اور ان کے نقوش قدم پر چلنے والوں کوکسی ظالم وجابر کا دبدبہ ،شاہانِ وقت کی تمکنت اورحاکمانِ زمانہ کارعب کلمۂ حق کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔انھوں نے ہرڈر اور خوف کو دل سے نکال کر طاغوتی طاقتوں کے سامنے جھکنے  سے انکار کردیا۔جناب اقبالؔ نے کیاہی خوب کہا ہے
                                        وہ  ایک سجدہ  جسے تو گراں سمجھتا  ہے
                                        ہزار سجدوں سے دیتا  ہے آدمی  کو  نجات
آپ مکہ کی وادی سے لے کر کربلا کی دھرتی تک دین حق کی سربلندی اور اسلام کی حفاظت وصیانت کی لیے دی جانے والی قربانیوں کا منظر دیکھیں اور ان حق پرستوں کی عظمت کو سلام کریںکہ جنھوں نے جان دینا تو گوارا کیا لیکن اظہارِ حق سے ایک لمحہ کے لیے بھی دست بردار ی اختیار نہیں کی۔ان کی زبان دل کی رفیق رہی اور منافقت کو انھوں نے پاس پھٹکنے نہ دیا۔
اس عظیم اور مقدس جماعت کی زندگی کا محور توحیدالٰہی تھا،ان کا قبلہ وکعبہ صرف نبی ٔ رحمتﷺ کی ذات تھی،اسلامی تعلیمات کی اشاعت ان کی زندگی کا مقصد تھا،کردار ان کا اعلیٰ اوراخلاص ان کا جامہ تھا،اعلائے کلمۃ اللہ ان کا عمل تھا،وہ ڈرتے تھے تو صرف خداسے،اورحق گوئی وبے باکی ان کی زندگی کا وطیرہ تھا۔ شاہوں کے سامنے بھی وہ کلمہ حق پیش کرنے سے نہ گھبرائے۔
جعفر ابن ابی طالب شاہِ حبشہ کے دربار میں:
حضرت سیِّدنا جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ آقائے کریم ﷺکے چچا زاد بھائی ،حضور کے محبوب ودل دار،مولا علی شیرخدا کے سگے بھائی اورعمر میں ان سے دس سال بڑےہیں۔ حضورﷺ ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مشغول عبادت تھے،خاندان ہاشم کے سردار ابوطالب نے اپنے دوعزیزوں کو بارگاہ صمدیت میں سربسجود دیکھا تو دل پرخاص اثرہوا، اپنے صاحبزادہ حضرت جعفر کی طرف دیکھ کر کہا، جعفر !تم بھی اپنے ابن عم یعنی چچا زاد بھائی کے پہلو میں کھڑے ہوجاؤ، حضرت جعفر نے بائیں طرف کھڑے ہوکر نماز ادا کی،ان کو خدائے لایزال کی عبادت وپرستش میں ایسا مزہ ملا کہ وہ بہت جلد آقا ﷺ کےجاں نثاروں میں شامل ہو گئے ،اس وقت تک۳۱؍یا ۳۲؍آدمی اس سعادت سے مشرف ہوئے تھے۔
کفارِ مکہ کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف اور مسلسل ظلم وتشددکی وجہ سےنبی کریم ﷺکے اِعلانِ نبوت کے پانچویں سال،رسول اللہﷺ سے اِجازت لے کر ۸۰؍مردوں کے ساتھ حبشہ کی جانب ہجرت فرمائی۔ لیکن قریش نے یہاں بھی چین لینے نہ دیا۔نجاشی کے دربار میں مکہ سے گراں قدرتحائف کے ساتھ ایک وفد آیا اوراس نے درباری پادریوں کوتائید پر آمادہ کرکے نجاشی سے درخواست کی کہ ’’ہماری قوم کے چند ناسمجھ نوجوان اپنے آبائی مذہب سے برگشتہ ہوکر حضور کےدائرۂ حکومت میں چلے آئے ہیں، انھوں نے ایک ایسا نرالا مذہب ایجاد کیا ہے جس کو پہلے کوئی جانتا بھی نہ تھا، ہم کو ان کے بزرگوں اور رشتہ داروں نے بھیجا ہے کہ حضور ان لوگوں کو ہمارے ساتھ واپس کر دیں،درباریوں نے بھی بلند آہنگی کے ساتھ اس مطالبہ کی تائید کی‘‘۔ نجاشی نے مسلمانوں سے بلا کر پوچھا کہ وہ کون سانیا مذہب ہے جس کے لیے تم لوگوں نے اپنا خاندانی مذہب چھوڑدیا؟مسلمانوں نے نجاشی سے گفتگو کے لیے اپنی طرف سے حضرت جعفر طیارکو منتخب کیا،اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں جو تقریر کی ہے وہ ادب کا عظیم شاہکار ،توحیدورسالت کا حسین پیغام اوراسلام کانہایت خوب صورت تعارف ہے۔فرماتے ہیں:
بادشاہ سلامت! ہماری قوم نہایت جاہل تھی،ہم بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو ستاتے تھے، طاقتور کمزوروں کو کھا جاتا تھا، غرض! ہم اسی بد بختی میں تھے کہ خدا نے خود ہی ہماری جماعت میں سے ایک شخص کو ہمارے پاس رسول بنا کر بھیجا، ہم اس کی شرافت، راستی، دیانت داری اور پاکبازی سے اچھی طرح آگاہ تھے،اس نے ہم کو شرک وبت پرستی سے روک کر توحید کی دعوت دی، راست بازی، امانت داری، ہمسایہ اور رشتہ داروں سے محبت کا سبق ہم کو سکھایا اور ہم سے کہا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں، بے وجہ دنیا میں خونریزی نہ کریں، بدکاری اور فریب سے باز آئیں،یتیم کا مال نہ کھائیں،شریف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں،بت پرستی چھوڑ دیں،ایک خدا پر ایمان لائیں،نماز پڑھیں، روزے رکھیں، زکوٰۃ دیں،ہم اس پر ایمان لائے اور اس کی تعلیم پرچلے ہم نے بتوں کو پوجنا چھوڑا،صرف ایک خدا کی پرستش کی،اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا، اس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی، اس نے طرح طرح سے ظلم و تشدد کرکے ہم کو پھر بت پرستی اور جاہلیت کے برے کاموں میں مبتلا کرنا چاہا، یہاں تک کہ ہم لوگ ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آپ کی حکومت میں چلے آئے۔
خود کو مسلمان کہنے والے اور اسلام کے دعوے داروں کو حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی اس تقریر سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔کیا دور جاہلیت میں جو باتیں روا تھیں اور جسے چھوڑکر اس دور کے لوگوں نے اسلام قبول کیا،آج وہ ساری خرابیاں ہمارے معاشرے ،سوسائٹی اور خود کی ذات میں موجود نہیں ہے؟کسی نے سچ کہا ہے ؎
ڈرو خدا سے ہوش کرو ، کچھ مکر و ریا سے کام نہ لو
  یا  اسلام  پہ چلنا  سیکھو  یا  اسلام کا نام نہ  لو
بہرحال! حضرت جعفر کی تقریر پر بادشاہ نجاشی نے کہا: تمہارے نبی پر جو کتاب نازل ہوئی ہے، اس کو کہیں سے پڑھ کر سناؤ ، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے سورۂ مریم کی چند آیتیں تلاوت کیں تو نجاشی پر ایک خاص کیفیت طاری ہو گئی ،آنکھوں سے آنسو گرنے لگے،اہل دربار وجد میں آگئے۔تھوڑی دیر کے بعد جب اس کی حالت بہتر ہوئی تو اس نے کہا خدا کی قسم ! یہ کلام اور تورات ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں اور قریش کے سفیروں سے مخاطب ہوکر بولا واللہ! میں انھیں کبھی تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔
سفرائے قریش جب ناکام ہوگئے تو پھر ایک نئے حربے کے ساتھ دوبارہ دربار میں پہنچےاور عرض کیا :حضور! آپ کچھ یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کے متعلق ان لوگوں کا کیاخیال ہے؟نجاشی نے جواب دینے کے لیے مسلمانوں کو بلایا،مسلمانوں کو سخت تردد اور پریشانی دامن گیر ہوئی کہ اب کیا جواب دیا جائے کیونکہ یہ تو بڑا حساس معاملہ ہے اور عیسائیوںکے عقیدہ سے وابستہ ہے۔مگر حضرت جعفرابن ابی طالب نے نہایت مومنانہ شان کے ساتھ کہا :کچھ بھی ہو، خدا اور رسول نےہمیں جو کچھ بتایا ہے ہم اس سے ایک ذرہ برابر انحراف نہیں کریں گے۔غرض مسلمانوں کی جماعت دربار میں پہنچی تو نجاشی نے پوچھا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعلق سے تم کیا عقیدہ رکھتےہو ؟ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہاوہ اللہ کے بندے،اس کے رسول اورروح اللہ ہیں۔نجاشی نے یہ سن کرزمین سے ایک تنکا اٹھایا اور بھرے دربار میں کہا کہ’’واللہ جو کچھ تم نے کہا ہے،عیسی بن مریم اس سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں ہیں، یہ سن کر دربار کے پادری جو ابن اللہ کا عقیدہ رکھتے تھے، نہایت برہم ہوئے ،نتھنوں سے خرخراہٹ کی آوازیں آنے لگیں، لیکن نجاشی نے کچھ پروا نہ کی اور قریش کی سفارت ناکام واپس آئی۔ (مسند احمد :1/201 تا 203)
آئین جواںمرداں حق گوئی وبے باکی
اللہ کے شیروں کو  آتی  نہیں  روباہی
بعض روایتوں کے مطابق نجاشی نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے ہی ہاتھ پراسلام بھی قبول کیا تھا۔
فقیہ عراق کی جرأت ایمانی:
حجاج بن یوسف ثقفی (م: ۹۵ھ)کی سخت گیری اور ظلم وجبرسے کون ناواقف ہوگا۔گرچہ وہ حافظ قرآن بھی تھا۔اس نے قران پاک پر اعراب بھی لگوائے۔الله تعالیٰ نے اسے بڑی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے نوازا تھا۔شراب نوشی اور بدکاری سے بچتا تھا۔ وہ جہاد کا دھنی اور فتوحات کا حریص تھا۔ اس کے دور میں مجاہدین اسلام چین تک پہنچ گئے تھے،مگر اس کی ان تمام اچھائیوں پر اس کی ایک برائی نے پردہ ڈال دیا تھا اور وہ برائی تھی ظلم وجبر،نا انصافی اورانسانیت کی خوں ریزی۔
ایک دن اسے پتہ چلا کہ عراق کا بوڑھا فقیہ یحییٰ بن یعمر(م:۱۱۹ھ) اپنی کتابوں میں حسنین کریمین (علیھما السلام) کو ’’ابن رسول اللہ‘‘ لکھتا ہے۔ظاہر ہے کہ وہ بنوامیہ کا دور تھاجب ممبروں سے مولا علی شیرخدا رضی اللہ عنہ پرسب وشتم کیا جاتا تھا اوراہل بیت کے تقدس کو مجروح کرنا ان کا مشن تھا حجاج نے حکم دیا اس بوڑھے کو ذرا دربار میں پیش کرو، اسے میں سبق سکھاتا ہوں۔حضرت یحییٰ بن یعمررضی اللہ عنہ کو پابند رسن حجاج کی دربار میں پیش کیا گیا۔ حجاج نے کہا یحییٰ بن یعمر بتاؤ کیا وجہ ہے کہ تم حسنین (علیھم السلام ) کو رسول کا بیٹا کہتے ہو جب کہ قرآن کہتا ہے’’ مَا کَانَ مُحمَّدٌ اَبَا اَحَدِ مِّنْ رِّجَالِکُمْ ‘‘  محمد تم مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے۔(احزاب: ۴۰)
حضرت یحییٰ نے کہا میں انہیں اولاد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہونے کی بنیاد پر ابن رسول کہتا ہوں۔حجاج نے کہا یحییٰ بن یعمر! اولاد باپ سے چلتی ہے، ماں سے نہیں۔یعمر نے کہا: میں اپنے قول کو قرآن سے ثابت کروں گا۔ حجاج نے کہا اگر تم نے جواب دیا تو انعام دوں گااگر نہیں تو میں تمہیں قتل کرنے کا مجاز ہوں۔حضرت یحییٰ نے کہا قبول ہے مگر کیا تم حسنین (علیھم السلام) کو اولاد پیغمبر نہیں مانتے؟
حجاج بولا نہیں، آپ نے فرمایا: قرآن میں سورہ ٔانعام کی آیت ۸۴؍پڑھو۔ وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ۝۰ۭ كُلًّا ہَدَيْنَا۝۰ۚ وَنُوْحًا ہَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ *ذُرِّيَّتِہٖ* دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝۸۴ۙ
(اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے، سب کی رہنمائی بھی کی اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی ’’اور ان کی اولاد میں سے‘‘داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کی بھی اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں۔)
حضرت یحییٰ نے کہا اس میں اولاد ابراھیم کی بات ہو رہی ہے نا؟حجاج بولا بالکل! یحییٰ نے کہا اگلی آیت پڑھو: وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَ۔(اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کی بھی، (یہ) سب صالحین میں سے تھے۔)
یحییٰ بن یعمر رضی اللہ عنہ نے کہا عیسیٰ(علیہ السلام) کیسے اولاد ابراھیم (علیہ السلام ) ہیں جب کہ ان کا تو باپ ہی نہیں تھا؟؟؟
تم کہتے ہو اولاد باپ سے چلتی ہے ۔ قرآن اگر عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے کئی پشتوں کے بعد بھی اولاد ابراہیم (علیہ السلام ) کہہ رہا ہے تو حسن و حسین (علیھم السلام) تو رسول اللہ(ﷺ) کے بہت قریب تھے وہ کیوں ابن رسول اللہ نہ کہلائیں؟
حجاج جیسا سخت گیر اور شعلہ مزاج آدمی بھی اس حق گوئی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔کہنے لگا میں نے اس آیت کو بارہا پڑھا لیکن کبھی میرا ذہن اس طرف نہیں گیا۔بخدا ! یہ بہت عجیب استنباط ہے۔پھر اس نے کہا اسے آزاد کر دو، جانے دو، بعض روایات کے مطابق حجاج کو وعدے کے مطابق مجبور ہوکر انھیںانعام بھی دینا پڑا۔ (حوالہ: احتجاجات۔ترجمہ جلد چہارم بحار الانوار، جلد۲، ص: ۱۴۵)
سعید بن جبیر کی جرات ایمانی :حضرت سعید بن جبیررضی اللہ عنہ (م:۹۵ھ)جو کے ایک تابعی بزرگ تھے ایک دن ممبر پر بیٹھے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے ’’حجاج ایک ظالم شخص ہے‘‘۔ادھر جب حجاج کو پتہ چلا کہ آپ میرے بارے میں ایسا گمان کرتے ہیں تو آپ کو دربار میں بلا لیا اور پوچھا۔کیا تم نے میرے بارے میں ایسی باتیں بولی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا ہاں!بالکل تو ایک ظالم شخص ہے۔ یہ سن کر حجاج کا رنگ غصے سے سرخ ہوگیا اور آپ کے قتل کے احکامات جاری کر دیے۔ جب آپ کو قتل کے لیے دربار سے باہر لے کر جانے لگے تو آپ مسکرا دیے۔حجاج کو ناگوار گزرا اس نےپوچھا کیوں مسکراتے ہو؟ تو آپ نے جواب دیا: تیری بےوقوفی پر اور جو اللہ تجھے ڈھیل دے رہا ہے اس پر مسکراتا ہوں۔حجاج نے پھر حکم دیا کہ اسے میرے سامنے ذبح کر دو، جب خنجر گلے پر رکھا گیا تو آپ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ جملہ فرمایا:اے اللہ میرے چہرہ تیری طرف ہے تیری رضا پر راضی ہوں یہ حجاج نہ موت کا مالک ہے نہ زندگی کا۔جب حجاج نے یہ سنا تو بولا اس کا رخ قبلہ کی طرف سے پھیر دو۔ جب قبلہ سے رخ پھیرا تو آپ نے فرمایا: یااللہ رخ جدھر بھی ہو تو ہر جگہ موجود ہے، مشرق مغرب ہرطرف تیری حکمرانی ہے۔ میری دعا ہے کہ میرا قتل اس کا آخری ظلم ہو، میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا۔جب آپ کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا اس کے ساتھ ہی آپ کوقتل کر دیا گیا اور اتنا خون نکلا کہ دربار تر ہو گیا۔ ایک سمجھ دار بندہ بولا کہ اتنا خون تب نکلتا ہے جب کوئی خوشی خوشی مسکراتا ہوا اللہ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے۔  ع   راضی ہوں میں اسی میں جس میں تری رضا ہو
حجاج نے اپنی زندگی میں ایک خوں خوار درندے کا روپ دھار رکھا تھا۔ایک طرف موسیٰ بن نصیر اور محمد بن قاسم کفار کی گردنیں اڑا رہے تھے اور دوسری طرف وہ خود الله کے بندوں،اولیااور علما کے خوں سے ہولی کھیل رہا تھا۔ حجاج نے ایک لاکھ بیس ہزار انسانوں کو قتل کیا ہے ،اس کے جیل خانوں میں ایک ایک دن میں اسی اسی ہزار قیدی ایک وقت میں ہوتے جن میں سے تیس ہزار عورتیں تھیں۔اس عظیم تابعی اور زاہد و پارسا انسان حضرت سعید بن جبیر رضی الله عنہ کا قتل ،ان کی دعا کے مطابق آخری قتل ثابت ہوا۔
ان کی شہادت کے بعد حجاج پر وحشت سوار ہو گئی تھی، وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا، حجاج جب بھی سوتا، حضرت سعید بن جبیر اس کے خواب میں ا کر ا س کا دامن پکڑ کر کہتے کہ اے دشمن خدا تو نے مجھے کیوں قتل کیا، میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟ جواب میں حجاج کہتا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیا ہے۔؟اس کے ساتھ حجاج کو وہ بیماری لگ گئی جسےزمہریری کہا جاتا ہے ،اس میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی تھی ،وہ کانپتا تھا ،آگ سے بھری انگیٹھیاں اس کے پاس لائی جاتی تھیں اور اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اسکی کھال جل جاتی تھی مگر اسے احساس نہیں ہوتا تھا، حکیموں کو دکھانے پر انہوں نے بتایا کہ پیٹ میں سرطان ہے ،ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا۔
تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کے ساتھ بہت عجیب نسل کے کیڑے چمٹے ہوئے تھے اور اتنی بدبو تھی جو پورے ایک مربع میل کے فاصلے پر پھیل گی۔ درباری اٹھ کر بھاگ گئے حکیم بھی بھاگنے لگا، حجاج بولا تو کدھر جاتا ھے علاج تو کر۔ حکیم بولا :تیری بیماری زمینی نہیں آسمانی ہے۔ اللہ سے پناہ مانگ حجاج، جب مادی تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہ الله علیہ کو بلوایا اور ان سے دعا کی درخواست کی۔
وہ حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے اور فرمانے لگے میں نے تجھے منع کیا تھا کہ نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا، ان پر ظلم نہ کرنا ،مگر تو باز نہ آیا …آج حجاج عبرت کا سبب بنا ہوا تھا،وہ اندر ،باہر سے جل رہا تھا ،وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔حضرت ابن جبیر رضی الله تعالی عنہ کی وفات کے چالیس دن بعد ہی حجاج کی بھی موت ہو گئی ۔
حجاج نے جب دیکھا کہ اس کےبچنے کا امکان نہیں تو قریبی عزیزوں کو بلایا جو بڑی کراہت کے ساتھ حجاج کے پاس آئے۔ وہ بولا میں مر جاؤں تو جنازہ رات کو پڑھانا اور صبح ہو تو میری قبر کا نشان بھی مٹا دینا کیوں کہ لوگ مجھے مرنے کے بعد قبر میں بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اگلے دن حجاج کا پیٹ پھٹ گیا اور اسکی موت واقع ہوگئی۔اللہ ظالم کی رسی دراز ضرور کرتا ہے، لیکن جب ظالم سے حساب لیتا ہے تو، فرشتے بھی خشیت الہی سے کانپ جاتے ہیں، عرش ہل جاتا ہے۔اللہ ظالموں کے ظلم سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔!!
اہل بیت وصحابہ سے لے کر تابعین ،تبع تابعین ،فقہا ومحدثین ،ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین کی ایک لمبی فہرست ہے جنھوں نے اپنی ذات کو’’ وقف فی سبیل اللہ‘‘ کردیا تھا۔ وہ ’’إِنَّ اللَّهَ اشۡتَرَىٰ مِنَ الۡمُؤۡمِنِينَ أَنفُسَهُمۡ وَأَمۡوَٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الۡجَنَّةَۚ    (بے شک!اللہ نے مسلمانوں سے ان کے جان ومال کو جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے۔توبہ:۱۱۱)کی عملی تفسیر بن گئےتھے۔ان کا مقصد حیات دین کی سربلندی وسرفرازی کے سوا کچھ نہ تھا۔کسی نے ان ہی نفوس قدسیہ کو پیش نظر رکھ کر خوب کہا ہے؎
میری زندگی کا مقصد ،تیری دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں ، میں اسی لیے  نمازی
حق وصداقت کے تحفظ کے لیے خیرالتابعین حضرت سعید بن مسیب (م:۹۴ھ )نے بڑی اذیتیں برداشت کیں۔امام اعظم ابوحنیفہ(م:۱۵۰ھ ) کو قید وبند کی صعوبتوں سے گزرکرزہر کا پیالہ نوش کرنا پڑا۔امام مالک (م:۱۷۶ھ )کو قرآن وسنت کے مطابق فتویٰ دینے کے جرم میںبیڑیاں ڈال کر اونٹ کی ننگی پیٹ پر گھمایاگیا۔ امام احمد بن حنبل (م:۲۴۱ھ )کو خلق قرآن کے مسئلے پرمعتصم باللہ عباسی نے سرِ عام بے دردی کے ساتھ کوڑے مروائے۔امام بخاری(م:۲۵۶ھ ) کو اسی کلمۂ حق کی پاداش میں ترک ِ وطن کا درد جھیلنا پڑا۔امام سرخسی(م:۴۸۳ھ) کو اسی حق بیانی کی وجہ کر ایک پرانے اور تاریک کنویں میں مقید کیا گیا۔اب آپ اپنے ملک کی سرزمین پر آجائیںتومجددالف ثانی شیخ احمدسرہندی (م:۱۰۳۴ھ)نے ایسے دور میںاعلائے کلمۃ اللہ کا پرچم بلند کیا، جب اکبر وجہانگیر جیسے باجبروت بادشاہ نے ’’دین الٰہی ‘‘ کے نام پر’’دین اسلام‘‘ اور اس کی تعلیمات کو مسخ کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھاتھا۔دین کے لیے یہ کوئی کم فتنہ انگیز بات نہیں کہ شاہِ وقت گمراہ ہو جائے، لیکن اس سے زیادہ خطرناک اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ دین کے نام لیوا بھی اس کے ہاتھ پر بک جائیں ۔ بادشاہ کی دین وشریعت کے حوالے سے صحیح رہنمائی کرنا جن کی ذمہ داری تھی، ان علما وفقہا کوچاپلوسی اور مفادپرستی میں ہی اپنی بھلائی نظر آئی۔جو زبانیں کبھی دین اسلام کی عظمت اور اس کی سر بلندی کے لیے وا ہوتی تھیں وہ گنگ ہو چکی تھیں ۔ صوفیہ کا طبقہ جوکبھی تزکیہ نفس کی خدمت انجام دیتا تھا،وہ بھی اپنے اصل مشن کو چھوڑ کر شاہی دستر خوان سے تن پروری میں مصروف تھا۔مفتی عبد الرحمن نے جو اس وقت شیخ الاسلام کا درجہ رکھتا تھا، کتب فقہ سے سلاطین کے لئے تعظیمی سجدہ کا جواز پیش کیا اور کہا کہ میں فتویٰ دیتا ہوں کہ اس وقت شہنشاہ کو تعظیمی سجدہ جائز ہے، مگر حضرت مجدد الف ثانی ’’اَفْضَلُ الْجِھَادِ مَنْ قَالَ  کَلِمَۃَ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِر‘‘(سب سے افضل جہاد اس شخص کا ہے جو ظالم بادشاہ کو سچی بات کہہ دے) کی عملی تفسیر بن گئے۔ آپ کی گردن شہنشاہ ہندوستان نور الدین جہانگیر کی سطوت و جبروت کے سامنے خم نہ ہوئی۔ آپ نے ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرتےہوئے’’ امربالمعروف اورنھی عن المنکر‘‘ کاعظیم فریضہ انجام دیا۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہند کی سرزمین پر جس اسلام کا باغیچہ خواجہ معین الدین چشتی(م:۶۳۳ھ) نے لگایا تھا،اس گلشن کےپیڑ پودوں اور درختوں میں لگ جانے والے جھاڑ جھنکار کو صاف کرکے اس کی تزئین وآرائش کاسب سے پہلا سہرا حضرت مجدد الف ثانی کا سر بندھتا ہے۔ اس عظیم مرد مجاہد کی بارگاہ میں علامہ اقبال ؔ اپنی عقیدتوں کا نذرانہ پیش کرتےہوئے کہتے ہیں ؎
  گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
  جس کے نفس گرم سے ہے گرمی ٔ  احرار
  وہ   ہند   میں  سرمایۂ  ملّت  کا   نگہبان
اللہ    نے   بر و قت  کیا جس کو  خبردار
یہ صرف چند اشارے اورمعمولی جھلک تھی ورنہ ہردورمیںعلمائے حق کی ایک بڑی تعداد پر قسم قسم کے ظلم وتشدد کیے گئے مگر ایک لمحےکے لیے بھی ان کے پائے استقامت میں لرزش نہیں آئی اور باطل سے سمجھوتے کا ذرہ برابر خیال نہ گذرا۔
کیوں کہ وہ اپنے دامِ نفس کے اسیر نہیں تھے ۔ وہ حالات زمانہ،مفاد پرستی اور دنیا طلبی کے لیے اپنے قدم آگے نہیں بڑھاتے تھے بلکہ صرف اور صرف رضائے الٰہی کا جوہر ان کی ذات میں ہوتا تھا۔راہ حق کی مشکلات کو وہ مسکراکرگلے لگاتے ۔ اللہ جل شانہ کے ساتھ کیے گئے اپنی تجارت پر انھیںکامل یقین تھا ۔ وہ جانتے تھے کہ دنیا میں خواہ ان کا انجام کچھ ہومگر آخرت کی دائمی فوز و فلاح ان کی منتظر ہے۔فَٱسۡتَبۡشِرُواْ بِبَيۡعِكُمُ ٱلَّذِي بَايَعۡتُم بِهِۦۚ وَذَٰلِكَ هُوَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ ۔ اللہ کے ایک سپاہی کی موت اس وقت واقع نہیں ہوتی جب رشتہ ٔسانس جسم سے منقطع ہوتا ہے ، بلکہ اس وقت واقع ہوتی ہے جب وہ اللہ کے لیے جینا ترک کر دیتا ہے ۔
حق کو حق کہنے سے جو ڈرتے نہیں ہیں
  وہ مربھی جائیں اگر تو مرتے نہیں ہیں
کاش!آج بھی اللہ کا کوئی نیک بندہ،کوئی مردمجاھد،دلاوران ِ وقت میںسے کوئی ایک جیالا،کوئی ایک نامورعالم وشیخ ہمارے ملک کے ظالم حکمرانوں کو تنبیہ کرتاکہ سن!اےبندۂ خداسن! میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔جس نے تجھے پیدا کیا اسی نے ہمیں بھی پیدا کیاہے،وہ تیرا بھی مالک ہے میرا بھی مالک ہے،تجھے اللہ نے اگراپنے بندوں پر حاکم بنایا ہے تواس کا مطلب یہ تونہیں کہ تو خدا بن بیٹھے۔تجھ سے پہلے بھی نہ جانے کتنے فرماں روا ایسے ہوئے ہیں جو خود کو ناقابل شکست سمجھتے تھےمگر اللہ نے انھیں عبرت کا نشان بنادیا۔مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب ؔنے کہا
ہے اور بہت سچ کہا ہے ؎
  تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی  یقیں تھا
کوئی ٹھہرا  ہو جو  لوگوں کے  مقابل تو  بتا ؤ
 وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
مگر افسوس! آج کےعلما ومشائخ اور قائدین قوم وملت نے ہی حکومت وقت کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔غضب تو یہ ہے کہ مسلمانوں پر کفر وشرک کے فتوے لگانے میں دلیر نظر آنے والا طبقہ بھی حکومتی خوف یا دنیاوی حرص میں ساری حدیں پار کررہاہے۔وندے ماترم کا نعرہ لگانے،یوگا کا کرتب دکھانے ،سوریہ نمشکار کرنے اور خود کو بڑامحب وطن ثابت کرنے کی کوشش میں ہرایک دوسرے پر بازی مارنے میں مصروف ہے۔انھوں نےاپنوں سے تو حسن ِ ظن نہ رکھا مگر کفار ومشرکین کے ہر کفریہ وشرکیہ اعمال کی توجیہ وتاویل ان کا محبوب مشغلہ ہے۔علامہ اقبال ؔ نے اسی لیے ایسی وطن پرستی کو سب سےبڑا بُت قرار دیتے ہوئےفرمایاتھا؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن  ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا  کفن   ہے
یہ  بت کہ  تراشیدۂ   تہذیب  نوی  ہے
غارت  گر   کاشانۂ  دین   نبوی    ہے
ابھی حالیہ دنوں لکھنؤ میں مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے تو چندریان ۳،کی کامیابی کے لیے اپنے مدرسے میں خاص نماز کا اہتمام کراکے حد ہی کردیا۔جب مسلمانوں کی طرف سے بازپُرس ہوئی کہ یہ کون سی نماز تھی؟ تو اس سے انکاری ہوگئے،بقیہ بہتر اللہ جاننے والا ہے۔ ویسے اس طرح کی حرکتوں کے لیے آں جناب ماضی میں بھی شہرت حاصل کرتے رہیں ہیں۔
اس سے قبل جولائی ماہ کے ابتدائی ایام میں مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل اور حکومت سعودیہ کے مشیر خاص محمد بن عبد الکریم العیسیٰ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال کی خاص دعوت پربھارت آئے۔ اپنے دورے کے دوران زیادہ تر وہ نہ یہ کہ آرایس ایس کے پروگراموں میں شریک ہوئےبلکہ دہلی کے اکثر دھام مندر میں گھوم گھوم کر پجاریوں اور بتوں کی زیارت کرتے ہوئے تصویریں کھنچوائیں ۔اہل بیت اطہار کےروضے، اصحاب رسول کے قبور اور شعائر اللہ کی زیارت و حاضری کو شرک وبدعت کہنے والوںکو ہند کےبت خانوں اور صنم کدوںکی زیارت سے اس قدر دل چسپی کیوں تھی اور یہ کون سااسلام تھا ،خدا ہی جانے!!!
ساتھ ہی منعقدہ پروگرامز میں گورنمنٹ کے مولوی وصوفی نما ایجنٹوں اور نام نہاد دانشوروں کے ساتھ مل کر دنیا کو ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے یہ پیغام دیاکہ یہاںسب خیریت ہے، مسلمانوں کے ساتھ کسی طرح کا ظلم وجبر اورناانصافی نہیں ہورہی ہے۔بھارت کی جمہوریت بہت اعلیٰ ہے اور مودی حکومت سب کو ساتھ لے کر بہت مضبوطی کے ساتھ ملک کو ترقی کی طرف لے کرجارہی ہے ۔مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی صفوں میں شامل ایسی کالی بھیڑوں کو ضرور پہچان کر رکھیں۔
واضح رہے کہ موصوف کی تاریخ،ان کا ماضی اور کارنامےقوم وملت کے حوالے سے بڑے سیاہ ہیں ، انھیں فلسطین کے بجائے اسرائیل کا وکیل کہا جاتاہے،اور موجودہ سعودی فرماں روا محمد بن سلمان کی ہر غیر اسلامی اوریہودیانہ منصوبوں کوسندِ جواز فراہم کرنے میں  بھی پیش پیش رہتے ہیں۔تجزیہ نگاروں کا یہاں تک کہنا ہے کہ آں جناب بھارت میں عرب نہیں موساد کے نمائندہ بن کر تشریف لائے تھے۔اس طرح کےغلامانہ بلکہ کہہ لیں کہ کفریہ وشرکیہ ا قوال وافعال میںمبتلا افراد کی ایک لمبی فہرست ہے۔مَعَاذَاللہِ مِنْ ذَالِک
چاہیے تو یہ تھا علما وقائدین کی جماعت متحد ہوکرمسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم اور ناانصافیوں کے خلاف سینہ سپر ہوتے اور حکومت ِ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ببانگِ دُہل کہتے:اے سربراہانِ مملکت یادکرو! نمرود کو جسے اللہ نے حکومت واقتدار بخشامگر اس نے اللہ کےخلیل پر ہی زندگانی تنگ کردی توایک مچھر نے اسے اس کی اوقات وحیثیت بتادی۔ صبح وشام اس کے سرپر جوتے لگائے جاتے تواسے سکون وقرار ملتا۔شداد کو حکومت عطا فرمائی تو اس نےبھی اپنے رب سے بغاوت کرکے دنیا میں ہی اپنی جنت بناکر عیش لوٹنا چاہا۔اللہ نے عین اس کی بنائی اپنی جنت کے دروازے پر روح قبض کرواکر اسے دنیاوی جنت سے بھی محروم کردیا۔ فرعون کو بھی اللہ نے حکومت وسلطنت کا مالک بنایا مگر اس نےبھی نہ یہ کہ خدائی کا دعویٰ کردیا بلکہ اللہ کے بندوں کا جینا محال کردیا ،آخر کا راللہ نے اسے غرقاب نیل کر لقمۂ اجل بنایا اور اس کی لاش کو سمندر کے تھپیڑوں کے ذریعہ کنارے پھینکواکر قیامت تک کہ خدائی دعوے دار اور ظالم وجابر حکمرانوں کے لیے عبرت کا نشان بنادیا۔فرمان ِ باری تعالیٰ ہے: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةًؕ-  وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ(یونس:۹۲)یعنی’’ آج ہم تیری لاش کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بن جائے اور بیشک لوگ ہماری نشانیوں سے ضرور غافل ہیں ‘‘۔چنانچہ مصر کے میوزیم میں آج بھی فرعون کی لاش عبرت کا نشان بنی پڑی ہے۔
پندرہ سو سال پہلے قرآن کی یہ آیت نازل ہوکرلوگوں کو دعوت ِ فکر دے رہی ہےکہ بے شک! یہ اللہ ہی کا کلام ہوسکتا ہے کسی فردِ بشر کا نہیں۔یہ قرآن کا ایسا اعجاز ہے کہ جسے دیکھ کر لاکھوں لاکھ اب تک مسلمان ہوچکے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔کہنے والے نے بالکل سچ کہا ہے کہ ’’کفروشرک کے ساتھ تو حکومت چل سکتی ہے مگر ظلم ونا انصافی کے ساتھ نہیں چل سکتی ۔آنے والی نسلیں دیکھیں گی کہ موجودہ زمانے کے اس فرعون ونمرودکا کیا حشر ہوا ۔ان کےعلاوہ ماضی قریب میںاسٹالن، ہٹلر ،مسولینی،کمال اترک وغیرہ جیسے ان گنت ظالم وجابر ڈکٹیٹرس(Dictators )کا عبرت ناک انجام بھی کسی نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔
اس لیے اے ظالمو!اللہ کی پکڑ سے ڈر اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ،کیونکہ وہ جب تک ڈھیل دیتا ہے،دیتاہے مگر جب پانی سرسے اونچا اٹھنے لگتاہےتو اس کی پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے: اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌ(بروج:۱۲) یعنی ’’بے شک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے‘‘۔وہ جس نے تجھے حکومت واقتدارعطا کیاہے وہ تجھ سے یہ سب چھین کر ذلیل وخوار بھی کرسکتا ہے۔جب وہ وقت آئے گا تو نہ تیری سنستھا کام آئے گی،نہ پونجی پتی کام آئیں گے،نہ تیرے میڈیائی چمچےتیرا کچھ بھلا کرسکیں گے،نہ تیری فوج وپولیس کے اندر کوئی طاقت ہوگی اور نہ ہی تیرےاندھ بھکتوں کی ٹولی تیری ڈفلی بجا تی نظر آئے گی۔اس لیے ڈر اس دن سےجب ذلت وخواری تیرا مقدر ہو؎
مسائل کیسے  بھی  ہوں  تا  قیامت  رہ  نہیں سکتے
یہ  ظالم  ظلم  کی  بن  کر  علامت  رہ  نہیں سکتے
ہے جن کا عزم ہم کو چین سے  رہنے  نہیں  دیں  گے
وہ یہ بھی جان لیں  خود  بھی  سلامت  رہ  نہیں سکتے
مگر افسوس! حرص دنیا اور خوف حکومت سےبھیگی بلی بنے رہنے والے علمائے سوکی ایک بڑی جماعت اپنےجلسوں ،اجتماعات اوراسٹیجوں پرآکر شیر بن جاتی ہے ۔ یہ اپنی تقریروںسے بھولے بھالے اور سیدھے سادھے مسلمانوں کو نہ یہ کہ بے وقوف بنارہے ہیں بلکہ  ان کے ذہن ودماغ کوزہریلا بنانے میں مصروف ہیں۔نفرتی ایجنڈاپھیلانے کے لیےہم ’’آرایس ایس‘‘ کو کیوں ذمہ دار قرار دیں ؟یہ کام تو نام نہاد علما بھی دین وسنیت کی بڑی خدمت سمجھ کر رات ودن کررہے ہیں۔اللہ ورسول کےقانون،تعلیمات اور مقرر کردہ حدود سے نکل کر دین کی نئی نئی تعبیر وتشریح یہ اپنی طبیعت سے کرتےہیں۔کامل ایمان کس کا ہے اور پکا مسلمان کون ہے ،یہ فیصلہ قرآن وحدیث کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنے مفاد، مزاج،رجحان اور خواہش نفس کی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ جانے انجانے میں’’ آر ایس ایس ‘‘اور’’ موساد ‘‘کے آلہ ٔ کار بن کر امت کو توڑنے اور بڑے پیمانےپر افتراق وانتشار پھیلانےکاایسے لوگوں نے بیڑا اٹھا رکھا ہے۔الامان والحفیظ
جب تک ہمارے درمیان خدا ترسی اورخوف آخرت رکھنے والی حق گوشخصیتیں تھیں ،اور ہم اپنے ان اسلاف کے نقش قدم پر چل رہے تھے،ہماری عظمت ورفعت کا سورج نصف النہارپرتھا۔لیکن جب ہمارے اندر’’ خوف خدا اورروزِمحشر‘‘ جواب دہی کا تصورکمزورپڑا ،تواللہ نےساری دنیا کا ڈرہمارے دلوں میں ڈال دیا۔خدا پرستی کی جگہ مفاد پرستی ،حق گوئی وبے باکی کی جگہ تملق وچاپلوسی اور شاہی کی جگہ غلامی ہمارا مقدر ہوا۔ان ہی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے نباض قوم علامہ اقبالؔ نےبالکل درست کہا ہے کہ ؎
   تجھے  آبا  سے  اپنے کوئی  نسبت  ہو نہیں سکتی
   کہ  تو  گفتار  و ہ کردار ،  تو ثابت وہ  سیارا
   گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
   ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو  دے  مارا

           سید سیف الدین اصدق چشتی

آستانہ چشتی چمن پیر بیگھہ شریف نالندہ (بہار)
بانی و سربراہ : تحریک پیغام اسلام جمشید پور
              +91 9709616766