Paigham-e-Islam

Mazunإ

انسان کامل

انسان کامل

مہ وخورشید وانجم  تھے  مگر  بے  نور  تھی  دنیا
خدائی  جگمگائی   جب   زمیں   پر  آدمی  آیا
تبسم کی ادا  سیکھی  ہے کب  گلہائے  ہستی  نے
جب اک انسان کامل لے کے  ہونٹوں  پر ہنسی آیا
شب ظلمت کے  ہنگاموں میں گم  تھی  عقل انسانی
یکا یک  طاق   کعبہ   پر   چراغ    ہاشمی   آیا
بشارت انبیا  دیتے  رہے  آدم  سے  عیسیٰ  تک
نبوت   ناز   فرماتی   ہے  جس   پر  وہ  نبی  آیا
پڑی سوتی  رہیں  دنیاکی قومیں  خواب غفلت  میں
وہ  جب آیا  تو  انساں  کو  شعور  زندگی   آیا
اللہ رب العزت نے انسانوں کی رہنمائی کے انبیا ورسل کا مقدس سلسلہ جاری کیا جواپنی آن بان شان کے ساتھ تشریف لائے اور کفروشرک کی تاریکی میں زندگی گزارنے والوں کے دلوں توحید الہی کی شمع روشن کرنے کا عظیم فریضہ انجام دیتے رہے۔ یہ تمام انبیا ورسل  میں سے ہر ایک نے مخصوص قوم کو ایک ہی انداز میں مخاطب فرمایا:یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ(ھود:۵۰)۔اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔یہ خطاب صرف اسی دور کے ان ہی مخصوص افراد سے تھا جو قوم کی صورت میں کسی ہادیٔ برحق کے اردگرد تھے۔لیکن جب رحمۃ للعالمین ،شفیع المذنبین، خاتم النبینﷺ کی جلوہ گری ہوئی تو پوری نسل انسانی کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا:قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا(الاعراف :۱۵۸) اے محبوبﷺ آپ اعلان فرمادیجیے:اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔اسی طرح ارشاد ہوا:وَ مَااَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (انبیا: ۱۰۷) اے محبوب ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔یعنی جہاں میری رب العالمینی ہوگی وہاں وہاں تمہاری شان رحمۃ للعالمینی ہوگی۔اور اللہ پاک نے فرمایا:وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًاط  وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا(النسا:۷۹) اور اے حبیب! ہم نے تمہیں سب لوگوں کے لیے رسول بنا کربھیجا ہے اور گواہی کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔
معلوم ہوا کہ دیگر تمام انبیا ورسل کا دائرہ تبلیغ محدود خطہ اور علاقہ تھا مگر رحمت عالم ﷺ کا دائرہ ساری روئے زمین ہے،اور وقت قیامت تک کاہے ۔اب کسی نبی کے ماننے والے ہوں مگر حضور کی آمد کے بعد کلمہ پڑھنا ہے تو محمد(ﷺ) کا، توریت انجیل زبور نہیں اب تلاوت کرنی ہے تو قرآن کی، قانون لینا ہے تو قرآن سے اوراتباع وپیروی کرنی ہےتومحمدرسول اللہﷺ کی ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تورات کا ایک نسخہ لے کر رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، اللہ کے رسول! یہ تورات کا نسخہ ہے، آپ خاموش رہے، اور انہوں نے اسے پڑھنا شروع کر دیا، جبکہ رسول اللہ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدلنے لگا، ابوبکر نے فرمایا: گم کرنے والی تمہیں گم پائیں، تم رسول اللہﷺ کے رخ انور کی طرف نہیں دیکھ رہے، سیدنا عمر نے رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک دیکھا تو فوراً کہا: میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمدﷺکے نبی ہونے پر راضی ہوں۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے۔ اگر موسیٰ بھی تمہارے سامنے آ جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع کرنے لگو تو تم سیدھی راہ سے گمراہ ہو جاؤ گے، اور اگر وہ زندہ ہوتے اور وہ میری نبوت (کا زمانہ) پا لیتے تو وہ بھی میری ہی اتباع کرتے۔ “(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر۴۳۶)
یہی وجہ ہےکہ اللہ رب العزت نے آپ کی ایک ذات میں تما م نبیوں اور رسولوں کی خوبی وکمالات کو جمع فرمادیا ہے۔آئیے! ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے سارے انبیا ں کی خوبیاں کیسے سما رکھی تھیں؟
(۱ )ہمارےنبیﷺ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح بیابانوں اور بستیوں میں اللہ کا کلمہ بلند کیا۔
(۲) ہمارے نبی ﷺحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح جھٹلائے  گئے اور ستائے گئے پھر بھی صابر و شاکر ہی رہے۔
(۳) ہمارے نبیﷺ حضرت ایوب علیہ السلام کی طرح صبر کرتے ہوئے شعب ابی طالب کی گھاٹی میں۳ ؍سال پتے کھا کر گزارے،پھر بھی آپ کا دل اللہ کی تعریف و حمد سے لبریز رہا۔
(۴)ہمارے نبیﷺ نےحضرت نوح علیہ السلام کی طرح قوم کے نافرمان لوگوں کو خفیہ اور اعلانیہ ،خلوت اور جلوت میں ،میلوں اور جلسوں میں،گذرگاہوں اور راہوں پر،پہاڑوں اور میدانوں میں،اسلام کی تبلیغ فرمائی،اور لوگوں کو دعوت توحیددیا۔
(۵) ہمارے نبی ﷺنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح نافرمان قوم سے علیحدگی اختیار کی اور وطن چھوڑ کوخیرباد کہا۔
(۶) ہمارے نبی ﷺہجرت کی رات حضرت داود علیہ السلام کی طرح دشمن کے نرغے سے نکلنے میں کامیاب رہے۔
(۷)جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرئیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد کرایا تھا ،اسی طرح پیارے نبیﷺ نے بھی شمالی عرب کو شاہ قسطنطنیہ کی غلامی سے،مشرقی عرب کو کسری کی غلامی سے،جنوبی عرب کو حبش کی غلامی سے،نجات دلائی تھی۔
(۸) ہمارے نبی ﷺنے حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرح مدینہ میں اللہ کے لیے ایک گھر بنایا،جو ہمیشہ اللہ کی یاد کرنے والوں سے معمور اور توحید کی کرنوں سے پرنور رہا،جسے کوئی بخت نصر جیسا سیاہ بخت ویران کر نہ سکا۔
۹)ہمارے نبیﷺ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح اپنے ظالم برادران مکہ کے لیے حضرت ثمامہ کے ذریعہ غلہ پہنچایا،اور آخرکار فتح مکہ کے موقعہ پر ،جس طرح حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا تھا ۔آپ نے بھی لاتثریب علیکم الیوم،آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے ،اذھبو ا وانتم الطلقا ، جاؤ! تم سب آزاد ہو، کی خوشخبری سنائی۔
(۱۰)ہمارے نبی ﷺ کی یہ شان ہے کہ آپ وقت واحد میں حضرت موسیٰ کی طرح اوالعزم اور حضرت ہارون کی طرح صاحب امامت نظر آتے ہیں ۔آپ کی ذات مبارک میں نوح علیہ السلام کی جیسی سرگرمی اورحضرت ابراہیم کے جیسا سوز بھی دکھائی دیتا ہے۔حضرت یوسف کے جیسا درگزراورحضرت داؤد کی سی فتوحات بھی نظرآتی ہے۔حضرت یعقوب کے جیسا صبراورحضرت سلیمان جیسی سطوت موجودتھی۔حضرت عیسیٰ کی سی خاکساری اور حضرت یحییٰ کا سا زہدتھا۔
خورشید رسالت میں اگرچہ تمام رنگ موجود تھے،لیکن رحمۃ للعالمینی کا رنگ تمام رنگوں پر غالب آگیا۔کیوں کہ یہ رنگ اللہ کی شا ن رحمانی کا رنگ ہے۔امام عشق ومحبت حضرت عبدالرحمٰن جامیؔ نے کیا خوب فرمایا ہے؎
حسن یوسف ،دم عیسیٰ، ید بیضا داری
آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا  داری
اور کسی نے کہا ہے؎       ایک پیکر میں سمٹ کر رہ گئیں    حکمتیں، آگاہیاں ،دانائیاں
میرے محترم بزرگو اوردوستو!
الغرض یہ کہ ’’اللہ جل شانہ نے اپنے محبوب ﷺ کو ایسا کامل ،اکمل اور مکمل انسان بناکر دنیا میں بھیجا کہ دنیا میں کوئی ایسا شعبہ نہیں ،کوئی ایسا میدان نہیں اورزندگی کا کوئی ایساگوشہ نہیں کہ جہاں آپ کی ذات ہماری رہنمائی کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ۔ اللہ رب العزت نےخودارشاد فرماتا ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًا(احزاب:۲۱)بے شک! رسول اللہ کی زندگی میں تمہارے لیے نہایت عمدہ نمونہ ہے،ہراس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہواور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ باپ ہو بیٹا ،سربراہ خاندان ہو یا ایک عام فرد،امیر ہو یا فقیر،راجہ ہو یا رنک،سپاہی ہو یا کمانڈر انچیف ،مزدورہو یا ایک بزنس مین ،کوئی بندہ ٔ خاص یابندۂ عام،انسان کامل ﷺکی ذات ہراعتبار سے ہر انسان کی رہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔ حضورﷺنے صدیوں پہلے جوباتیں ارشاد فرمائی تھیں آج اسے سن اورپڑھ کر دنیا کے بڑےبڑے اہل علم و دانشوران ،سیاسیات،سماجیات ،معاشیات اورصنعت وحرفت کے ماہرین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔
۱۔ایک مرتبہ شاعر مشرق علامہ اقبال ’’مسولینی ‘‘سے ملے تودوران گفتگوعلامہ نے حضورعلیہ الصلاۃ والسلام کی اس پالیسی کا ذکر کیا کہ شہر کی آبادی میں غیرضروری اضافے کے بجائے دوسرے شہر آباد کیے جائیں۔مسولینی یہ بات سن کر خوشی سے اچھل پڑا ۔کہنے لگا :’’شہری آبادی کی منصوبہ بندی کا اس سے بہتر حل دنیا میں موجود نہیں ہے‘‘۔
۲۔آج سے چودہ سوسال پہلے آقائے رحمت ﷺ نے حکم دیا تھا کہ مدینہ کی گلیاں کشادہ رکھو،گلیوں کوگھروں کی وجہ سے نتگ نہ کرو،ہرگلی اتنی کشادہ ہو کہ دولدے ہوئے اونٹ آسانی سے گذر سکیں۔۱۴؍سوسال بعد آج دنیا اس حکم پر عمل کررہی ہے۔شہروں میں تنگ گلیوں کو کشادہ کیا جارہا ہے۔مگرمسلمانوں کے محلے اورگلیوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ۔
۳۔نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا تھا کہ مدینہ کے بالکل درمیان مرکزی مارکیٹ قائم کی جائے،اسے’’ سوق مدینہ‘‘کا نام دیا گیاتھا۔آج کی تہذیب یافتہ دنیا کہتی ہے کہ جس شہر کے درمیان مارکیٹ نہ ہو وہ ترقی نہیں کرسکتا۔
۴۔رسول اعظم ﷺ نے کہا تھا:یہ تمہاری مارکیٹ ہے اس میں ٹیکس نہ لگاؤ۔آج دنیا اس نتیجے پرپہنچی ہے کہ مارکیٹ کو ٹیکس فری ہونا چاہیے۔دنیا بھر میں ڈیوٹی فری مارکیٹ کا رجحان فروغ پارہا ہے۔
۵۔نبی محترم ﷺ نے سود سے منع فرمایا تھا۔آج پوری دنیا میں ’’فری ربا انڈسٹری ‘‘فروغ پارہی ہے
۶۔رسول اکرم ﷺ نے ذخیرہ اندوزی(Hoarding) سے منع فرمایا ۔آج دنیا اگر اس پر عمل کرتی تو خوراک کا عالمی بحران کبھی پیدا نہ ہوتا۔
۷۔آپ ﷺ نے فرمایا :سٹے سے نفع نہیں نقصان ہوتا ہے۔آج عالمی مالیاتی بحران نے اس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
۸۔آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو درختوں کے کاٹنے سے منع فرمایا تھااور پیڑ پودوں کو لگانے کا حکم دیا تھا۔آج ماحولیاتی آلودگی دنیا کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے،گلشیرزپگھل رہے ہیں،گرمی بڑھ رہی ہے۔یہ سب کچھ درختوں اور جنگلات کی کمی کی وجہ کر ایسا ہورہا ہے۔ایک شخص نے مدینہ کے بازار میں بھٹی لگالی،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا :تم بازار کو بندکرنا چاہتے ہو؟شہر سے باہر چلے جاؤ۔آج دنیا بھر میں انڈسٹریل علاقے شہروں سے باہر قائم کیے جاتے ہیں۔
۹۔رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے باہر ــ’’محی النقیع ‘‘نامی سیرگاہ بنوائی ،وہاں پیڑ پودے اس قدر لگوائےکہ وہ تفریح گاہ بن گئی۔کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ خود بھی وہاں آرام کے لیے تشریف لے جاتے۔آج صدیوں بعد ترقی یافتہ شہروں میں پارک قائم کیے جارہے ہیں اور شہریوں کے لیے ایسی تفریح گاہ کو ضروری اورلازمی سمجھا جارہاہے۔
۱۰۔نبی رحمت ﷺ نے مدینہ کے مختلف قبائل کوجمع کرکے ’’میثاق مدینہ‘‘تیار کیا۔۵۲دفعات پر مشتمل معاہدہ دراصل مدینہ کی شہری حکومت کادستور العمل تھا۔اس معاہدے نے جہاں شہر کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ،وہیں خانہ جنگیوں کو ختم کرکے مضبوط قوم بنادیا ۔آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی خانہ جنگی ہے ،کئی ممالک اس آگ میں جل رہے ہیں ،اس آگ کو بجھانے کے لیے معاہدے پر معاہدے ہورہے ہیں۔ہمارے وطن عزیز کوبھی نفرت کے پجاری،انگریزوں کے چاپلوس،یہودیوں کے ایجنٹ اور دیش کے حقیقی دشمن اسے خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنے کی جان توڑ کوشش کررہے ہیں۔اس لیے ہمیں اس بھارت میں بسنے والے دیگر قوم وقبائل اورذات وبرادریوں کے ساتھ مل کر ملک کوجلنے سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
۱۱۔حضور ﷺ کے زمانے میں مسجد نبوی کو ہراعتبار سے ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔مدینہ بھر کی تمام گلیاں مسجد نبوی تک براہ راست پہنچتی تھیں تاکہ کسی ضرورت مند کو پہنچنے میں دشواری نہ ہو ۔آج ضلعی ،ریاستی اور ملکی سربراہان کی رہائش گاہ میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔
۱۲۔طبیب کامل ﷺ نے فرمایاتھا کہ فجر کے بعد اور عصر کے بعد سونا نہیں چاہیے ،یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ آج پوری دنیا یہ مان رہی ہے کہ ان اوقات میں مستقل سونے کی عادت بنالینے والوں کو ۹؍مہلک بیماریاں لگ جاتی ہیں،اگر ان وقتوں میں ورزش کی جائے توصحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں سے کہیں زیادہ غیر اس وقت جاکنگ اور ورزش میں لگے ہوتے ہیں۔
یہ چند نہیں سینکڑوں ایسی مثالیں ہیںجسےپڑھ کر آج کے ماڈرن اورمیڈیکل سائنس کے ماہرین انگشت بدنداں ہیں۔ہزاروں غیرمسلم اہل علم ،دانشوران، سائنٹسٹ ایسے ہیںجنھوں نے قرآن اورصاحب قرآن ﷺ کے ان معجزاتی بیان سے اسلام قبول کیا یاپھران کی عظمتوں کے آگے سرتسلیم خم کردیا۔بے شک ! میرے آقا ﷺ نے جس طرف نظر ڈالی اس طرف روشنی ہی روشی ہوگئی؎
نفس نفس پہ برکتیں ،  قدم قدم  پہ  رحمتیں       جدھر جدھر کو  وہ شفیع  عاصیاں گذر گیا
جدھر نظر نہیں پڑی ادھر ہے رات آج تک       ادھر ادھر سحر ہوئی جدھر  جدھر گذر گیا
اخیرمیں آپ کو میں د ین و دنیا کی بھلائی پرمشتمل ایک ایسا ایمان افروز مکالمہ سنانا ہوں۔جس میں ۲۵؍ مسائل کا حل رحمت عالمﷺ نےبیان فرمایا ہے۔فرد واحدہو یاایک پوری جماعت یاپھرساری قوم ہی کیوں نہ ہو، یہ ۲۵؍ مسائل وہ ہیں جن کا انھیں شکار ہونا ہے۔ ان سب کا حل اللہ کےرسول ﷺنے اپنی ایک مجلس میں عطا فرمادیا۔حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں،وہ فرماتے ہیں: ایک بدو رسول اللہﷺ کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں،حضور نے فرمایا: ہاں کہو :(۱)اس نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ میں امیر (غنی ) بنا چاہتا ہوں۔فرمایا: قناعت اختیار کرو، امیر ہو جاؤ گے۔
(۲)عرض کیا:  میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں۔فرمایا: تقوی اختیار کر و ،عالم بن جاؤ گے۔
(۳) عرض کیا:عزت والا بننا چاہتا ہوں۔فرمایا:مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانا بند کرو، با عزت ہو جاؤ گے۔
(۴)عرض کیا:اچھا آدمی بننا چاہتا ہوں۔فرمایا:لوگوں کو نفع پہنچاؤ،اچھے آدمی بن جاؤگے۔
(۵) عرض کیا:عادل بننا چاہتا ہوں۔فرمایا:جو اپنے لیے اچھا سمجھتے ہو ، وہی دوسروں کے لیے پسند کرو۔
(۶)عرض کیا: طاقت ور بننا چاہتا ہوں۔فرمایا، اللہ پر توکل کرو،طاقت ور بن جاؤگے۔
(۷) عرض کیا:اللہ کے دربار میں خاص ( خصوصیت ) درجہ چاہتا ہوں۔فرمایا:کثرت سے ذکر کرو،خاص مقام پاجاؤگے۔
(۸)عرض کیا:رزق کی کشادگی چاہتا ہوں۔فرمایا:ہمیشہ با وضور ہو،رزق میں کشادگی آجائے گی۔
(۹) عرض کیا :دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہوں۔فرمایا:حرام نہ کھاؤ،دعائیں قبول ہوں گی۔
(۱۰) عرض کیا: ایمان کی تکمیل چاہتا ہوں۔فرمایا:اخلاق اچھا کر لو،ایمان مکمل ہوجائے گا۔
(11) عرض کیا: قیامت کے روز اللہ سے گناہوں سے پاک ہو کر ملنا چاہتا ہوں۔فرمایا: جنابت کے فورا بعد غسل کیا کرو۔
(۱۲) عرض کیا:گناہوں میں کمی چاہتا ہوں۔فرمایا:کثرت سے استغفار کیا کرو،گناہ کم ہوجائیں گے۔
(۱۳) عرض کیا: قیامت کے روز نور میں اُٹھنا چاہتا ہوں۔فرمایا: ظلم کرنا چھوڑ دو،قیامت کے روز نور کے ساتھ اٹھوگے۔
(۱۴) عرض کیا:چاہتا ہوں اللہ مجھ پر رحم کرے۔فرمایا:اللہ کے بندوں پر رحم کرو،اللہ تم پررحم فرمائے گا۔
(۱۵) عرض کیا:چاہتا ہوں اللہ میری پردہ پوشی فرمائے۔فرمایا:لوگوں کی پردہ پوشی کرو،اللہ قیامت میں تمہارے عیب چھپائے گا۔
(۱۶) عرض کیا:رسوائی سے بچنا چاہتا ہوں۔فرمایا، زنا سے بچو،رسوائی سے بچ جاؤگے۔
(۱۷) عرض کیا: چاہتا ہوں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا محبوب ترین بن جاؤں ۔فرمایا:جو اللہ اور اس کے رسول سے اللہ کا محبوب ہو اس کو اپنا محبوب بنالو۔اللہ ورسول کے محبوب بن جاؤگے ۔
(۱۸) عرض کیا: اللہ کا فرماں بردار بننا چاہتا ہوں۔فرمایا: فرائض کا اہتمام کرو،اللہ کے فرماں بردار بن جاؤگے۔
(۱۹) عرض کیا :احسان کرنے والا بنا چاہتا ہوں۔فرمایا: اللہ کی یوں بندگی کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو یا جیسے وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔احسان کرنے والے بن جاؤگے۔
(۲۰) عرض کیا:یا رسول اللہ! کیا چیز گناہوں سے معافی دلاتی ہے۔فرمایا:’’آنسو، عاجزی اور بیماری‘‘۔
(۲۱) عرض کیا: کیا چیز دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کرے گی۔فرمایا: دنیا کی مصیبتوں پر صبر۔
(۲۲) عرض کیا: اللہ کے غضب کو کیا چیز سرد کرتی ہے۔فرمایا:چپکے چپکے صدقہ اور صلہ رحمی۔
(۲۳) عرض کیا:سب سے بڑی برائی کیا ہے۔فرمایا: بد اخلاقی اور کنجوسی۔
(۲۴) عرض کیا: سب سے بڑی اچھائی کیا ہے۔فرمایا:اچھا اخلاق ، تواضع اور صبر ۔
(۲۵) عرض کیا:اللہ کے غضب سے بچنا چاہتا ہوں۔فرمایا:لوگوں پر غصہ کرنا چھوڑ دو۔(کنز العمال ۔مسند احمدوغیرھم)
میرے بھائیو اوردوستو!اس مکالمے کوآپ ایک بار نہیں بار بار پڑھیں اورسنیں۔ دنیا سے لے کر آخرت تک کہ ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے۔آج ہم اللہ وسول ﷺ کی نافرمان نہیں باغی ہوگئے ہیں۔نافرمان کو تو معافی مل سکتی ہے مگر باغی کو نہیں ،یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا میں ہم ذلیل وخوار ہیں۔
ہمارے اس وطن میں ہماری کیا حالت ہوچکی ہے،یہ کون نہیں جانتا؟۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ خوف ودہشت کے اس ماحول میں بزدل وکم ہمت بننے،موت سے ڈرنے، غیروں کے در پرجھکنے ،کسی سے مرعوب ہونےاور اپنےدشمنوں سےبھیک مانگنے کے بجائے اللہ کے حضور جھک جائیں،ندامت کے آنسو بہائیں،اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اس کے محبوب ﷺکی سچی غلامی اختیارکرلیں توآج بھی کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔اس حوصلہ بخش شعر کے ساتھ میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں کہ؎                                                    دیار   عشق    میں    اپنا   مقام   پیدا   کر
نیا   زمانہ   نئے   صبح   و  شام    پیدا    کر
مرا    طریق   امیری   نہیں    فقیری   ہے
خودی   نہ   بیچ   غریبی   میں   نام   پیدا  کر
مزہ  ہے مرنے جینے کا انھیں خطروں کے دامن میں
   دلوں  میں  حوصلے  اور  حوصلوں  جان  پیدا کر
ضرورت ہے کہ  ماضی کی  طرح  روشن  ہو مستقبل
کوئی  خالد ،  کوئی   بوذر ،  کوئی  سلمان  پیدا کر
                            سید سیف الدین اصدق چشتی
                بانی وسربراہ: تحریک پیغام اسلام جمشید پور