Paigham-e-Islam

حُسین: روشنی اوراعلان حق کا استعارہ


حُسین: روشنی اوراعلان حق کا استعارہ

وطن عزیز کےدگرگوں ہوتے حالات ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔۱۸۵۷ءاور ۱۹۴۷ء کی خونی پرچھائیاں ایک بار پھر اس پر پڑتی نظر آرہی ہیں۔ایسی نازک اور تشویش ناک صورت حال میں وقت ہم سے کچھ اور تقاضا کررہا ہے۔نبی کریم ﷺ کی عظیم سیرت ہماری نگاہوںکے سامنے ہے۔ہر مسئلے کا حل اگر صبروتحمل ،حلم وبردباری،عفوودرگذر ،صلح وآشتی اور گفت وشنید کی میز پر ہونا ممکن ہوتا تو رحمۃ للعالمین ﷺجیسی عظیم ہستی کو اپنے دلِ نازک پر ۲۸؍جنگوں کا بوجھ نہ برداشت کرنا پڑتا۔

اسلام کی سربلندی کا رازایثار ، قربانی ،جدوجہد اور اسی میں تھا کہ مسلمانوں نے اپنے سروں کا نذرانہ پیش کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی ، کسی طرح کا خوف ان کے آڑے نہ آیا،مال ،اولاد اور دنیا کی محبت نے انھیں دین کے معاملے میں مصلحت کوش نہ ہونے دیا۔یہ کوئی وقتی، لمحاتی ،سرسری یا یوں ہی کی جانے والی جذباتی باتیں نہیں ہیں بلکہ بہت غور وفکر کے بعد نباض قوم علامہ اقبالؔ نے کہا تھا کہ

ع خوں صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

اب پچاس سال ہمیں ماحول بنانے کے لیے نہیں ملنے والے ۔ہم نے مواقع ضائع کیے ہیں۔صرف’’ پدرم سلطان بود ‘‘کے نعرے،بڑے بڑے جلسے،سیمینار اور مشاعرے ہی کرتے رہے۔بے شک! کبھی خطابت وشاعری نے ہمارے اندر جوش وجذبے اور اسلامی حمیت وغیرت کی روح پھونک دی تھی مگر آج کے جلسے اور مشاعرے ہمارے لیے تفریح طبع کے سامان ہیں۔دورِحاضر کی شعلہ بیان خطابت اور مسحور کن شاعری نےہمیں منجمد،بے عمل اور حقیقت کی دنیا سے پَرے کردیا ہے۔آج ہماری پیٹھ دیوار سے لگ چکی ہے،فلسطین ،برما ،شام،عراق سے ہوتے ہوئے ہند کی شان ،جنت نشان کشمیر کی تباہی وبربادی کے ساتھ اب سارا ملک نفرت وتعصب اور خوں ریزی کے چپیٹ میں ہےمگر ہمارے سارے خواص اور قائدین کو سانپ سونگھ چکا ہے یا وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سب خیریت ہے۔مسلم جیالے اسی میں مست ہیں کہ ہمارا گھر تو محفوظ ہےیکن مظلوم مسلمانوں کی چیخیں آواز دے رہی ہیں کہ؎۔

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

اس لیے ذمہ داران اور صاحبانِ استظاعت کو چاہیے کہ سرجوڑکر بیٹھیں ،کچھ لائحہ عمل تیار کریں ،قوم کے جوانوں کو جھنجھوڑیں،جگائیں ، حوصلہ دیںاور ذمہ داری کا احساس دلائیں۔عام لوگوں کے دلوں سے خوف کو دور کریں ،انھیں بتائیں کہ کفارومشرکین کا ذکر کرتے ہوئے ان کے رب کا فرمان ہے: اَتَخْشَوْنَهُمْۚج فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(توبہ:۱۳)تو کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ پس اللہ اس کا زیادہ حق د ار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(آل عمران:۱۷۵)تم ان سے مت ڈرا کرو اور مجھ سے ہی ڈرا کرو اگر تم ایمان والے ہو۔مگر افسوس! خوف الٰہی کے نہ ہونے سے ہمارے اندر زمانے بھر کا خوف سماگیا ہے۔مال ،اولاد اور دنیا کی محبت نے ہمیں بزدل وناکارہ بناڈالا ہے۔قرآن مجید نے ہمیں ’’وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌۙ‘‘(سورہ انفال:۲۸)(اور جان لوکہ تمہارے مال اور تمہاری اولادایک امتحان ہے )کہہ کر یہی سمجھایا ہے۔

نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”قریب ہے کہ دُنیا کی قومیں تم پر یوں ٹوٹ پڑیں جیسے بھوکے کھانے کی تھال پر ٹوٹ پڑتے ہیں“ صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کیا اس لیے کہ تب ہم بہت تھوڑے ہوں گے؟ فرمایا ”نہیں نہیں! اس روز تعداد میں تو تم بہت زیادہ ہو گے مگر تم خس وخاشاک(گھاس پھوس) ہو گے جیسے خس وخاشاک سیلاب (کی سطح) پر ہوا کرتے ہیں۔ خدا تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تمہاری ہیبت ختم کردے گا اور تمہارے دلوں میں وَھَن ڈال دے گا ۔صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول یہ وَھَن کیا ہوگا؟ فرمایا: ”دُنیا کی محبت اور موت سے جی چرانا“۔(رواہ احمد و ابوداؤد)

قرآن وحدیث کی یہ سچائیاں آج آئینے کی طرح ہماری نگاہوں کے سامنے ہیںمگر ہماری آنکھوں پر غفلت کی ایسی پٹی ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا ۔واضح رہے کہ ایک مسلمان کی ذمہ داریوں میںسب سے اہم ذمہ داری اسلام کی شوکت ونصرت ،اس کے قوانین و تعلیمات کی حفاظت اور اس کی سربلندی کے لیے جدوجہدکرنا اور اس کی رگوں میںاپنا خون دینا ہے ۔مولانا محمد علی جوہر ؔ کا یہ مشہور زمانہ شعر صرف مجلس لوٹنے کے لیے نہیں ہے کہ ؎۔

قتل ِ حسین اصل میں مرگ ِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اسلام کی تاریخ اس بات پرگواہ ہے کہ حق وباطل، خیر وشر، اسلام وکفر کے مابین ہزاروں معرکہ ہوئے ہیں،اور اسلام کا اولین دور توبے شمار شہادتوں سے لبریز ہے،اور جب بھی باطل نے حق کے مقابلہ سر اٹھانے کی کوشش کی ، تو حق نے اسکے سر کو کچلا ہے،اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا،لیکن واقعہ کربلاتمام شہادتوں سے ممتاز اور منفرد نظر آتا ہے،کیونکہ نواسۂ رسول خانوادۂ رسول کے چشم وچراغ ہیں،یہ داستان شہادت کسی ایک پھول پرمشتمل نہیں بلکہ یہ پورے گلشن کی قربانی ہے،اور شہید ہونے والوں کی سیدعالم ﷺ کے ساتھ خاص نسبتیں ہیں۔یوں تو دنیا کی تاریخ کا ہرورق انسان کے لیےعبرتوں کا مرقع ہے، لیکن معرکۂ کربلاتاریخ عالم میں حق وباطل کاایک ایسانادر ونایاب معرکہ ہے جو رہتی دنیاتک انسانیت کے لیے ایک عظیم پیغام اورایک اعلی نمونہ ہے۔جس میں میں اہل نظر کے لئے ہزاروں عبرتیں ونصیحتیں پوشید ہ ہیں۔علامہ اقبالؔ نے کیا ہی خوب فرمایاہے؎۔

موسی و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوتِ شبیری است
باطِل آخر داغِ حسرت میری است

موسیٰ اور فرعون، شبیراور یزید یہ دو قوتیں ہیں جو زندگی سے ظاہر ہوئیں۔ اِن میں سے حضرت موسیٰ اور حضرت امام حسین حق کے علم دار تھے۔ فرعون اور یزید نے باطِل کی پاسداری کی۔ دونوں قوتیں ابتدا سے چلی آتی ہیں اور اِن کے درمیان کشمکش بھی ہوتی رہی ہے۔(تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے) کہ حق قوت شبیری سے زندہ رہتا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سےبزرگ اس کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ باطل آخر حسرت کی موت کا داغ بن جاتا ہے(حق کا بول بالا قوت خیر سے ہوتا ہے جبکہ باطِل قوتوں کا انجام ذِلّت و خواری ہے)

شہادت امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد کائنات انسانی کو دو کردار مل گئے۔ یزیدیت جو بدبختی ،ظلم، استحصال، جبر، فتنہ پروری، قتل و غارت گری اور خون آشامی کا استعارہ بن گئی اور حسینیت جو عدل، امن، وفا ،اعلان حق اور تحفظ دین مصطفٰےﷺکی علامت ٹھہری، قیامت تک حسین بھی زندہ رہے گا اورحسینیت کے پرچم بھی قیامت تک لہراتے رہیں گے؎۔

کرب و بلا کی جنگ کا انجام دیکھیے
بے گھر یزید ہوگیا گھر گھر حسین ہے

یزیدکا وجود اور اس کی نسلیں تو مٹ گئیں مگر یزیدی فکر آج بھی زندہ ہے اور مسلم معاشرے اور سوسائٹی میں سر چڑھ کر بول رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیدنا امام حسین کی روح ریگ زارکربلا سےہمیں پکار رہی ہے۔ سیدہ زینب کی روح اجڑے ہوئےخیموں سے ہمیں صدا دے رہی ہے۔ آج علی ا کبر و اصغر کے خون کا ایک ایک قطرہ، شہدائے کربلا کے خون سے رنگین ہونے والادریائے فرات کا کنارہ ہمیں آواز دے رہا ہے کہ حسین سے محبت کرنے والو! حسینیت کےکردار کو اپنے قول و عمل میں زندہ کرو۔ یزیدیت کو پہچانو، یزیدیت تمہیںتوڑنے اور تمہارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے، حسینیت تمہیں جوڑنے کے لئے ہے۔ حسینیت اخوت، محبت اور وفا کی علمبردار ہے، یزیدیت اسلام کی قدریں مٹانے کا نام ہے۔ حسینیت اسلام کی دیواروں کو پھر سےاٹھانے کا نام ہے۔یزیدیت جہالت کا اور حسینیت علم کا نام ہے۔یزیدیت ظلم کا اور حسینیت امن کا نام ہے۔ یزیدیت تیرگی کی علامت ہے اور حسینیت روشنی اوراعلان حق کا استعارہ ہے۔ یزیدیت پستی اور ذلت کا نام ہے جبکہ حسینیت انسانیت کی نفع بخشی کا نام ہے۔

اس دنیائے فانی میں اپنے مکرو فریب اور جبروتشدد سے حاصل کی ہوئی قوت کےبل بوتے پر کسی کا بظاہر کامیاب نظر آنا اور اقتدار حاصل کرلینا، اصل کامیابی نہیں۔ بلکہ حقیقی اوردائمی کامیابی یہ ہے کہ انسان کو تخت ملے یاتختہ وہ دنیاوی جاہ وحشمت کے لئے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کا دامن نہ چھوڑے۔ قرآن حکیم میںہے کہ:مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَاد (آل عمران : ۱۹۷)’’(ان کے) یہ (دنیاوی) فائدے تھوڑے ہی دنوں کے لیے ہیںپھر (آخر کار) ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے،،۔

اس آیت کریمہ میںہمیں یہ بتایاجارہا ہے کہ ظالم و فاسق لوگوں کا کچھ وقت کے لئے اقتدار کے نشے میں بدمست ہونا تمہیں ان کی کامیابی کا مغالطہ نہ دے کیونکہ ان کے یہ دنیاوی فوائدتو چند روزہ ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ گرفت فرمائے گا تو یہ سب مال و متا ع اور جاہ و حشمت دھری کی دھری رہ جائے گی اور یہ لوگ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیئے جائیں گے۔ مزید برآں آخرت کے ساتھ ان کی دنیا بھی جہنم زار بنادی جائے گی۔ بے شمار لوگ ایسے ہوئے کہ جو کرسی اقتدار پر بیٹھ کرتکبر کرتے رہے اور اپنے زعم باطل میں خدا بن بیٹھے مگر ان کا انجام یہ ہواکہ وہ نہ صرف اس جھوٹی خدائی کے تخت سے ہٹا دیئے گئے بلکہ انہیں اسی دنیامیں نشان عبرت بنا کر نیست و نابود کردیا گیا۔ کسی شاعر نے ایسے ہی نشہ اقتدار میں بدمست حکمران کے لئے کیا خوب کہا ہے؎۔

تم سے پہلے بھی کوئی شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا

امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کربلا ئے معلّٰی کی دھرتی سےامت مسلمہ کو یہ پیغام دے رہی کہ وقت کا یزید اگر اسلام کے مزاج،اس کے قوانین،میرے ناناجان کے دین اور شریعت اسلامیہ میں چھیڑچھاڑ کی کوشش کرے تو تم اس کی حفاظت کے لیےمیری قربانی اور شہادت سے سبق لیتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کرنا پڑے تو کردینا مگر خبردار!ناموس دین مصطفےٰ ﷺ پر آنچ نہ آنے دینا؎۔

کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادیٔ حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر ترا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول

          سید سیف الدین اصدق چشتی
بانی:تحریک پیغام اسلام جمشیدپور
9709616766