خوفِ خدا اور فکر آخرت
اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں ۔عقیدۂ توحید،عقیدۂ رسالت اور عقیدۂ آخرت!باقی عقیدے ان ہی تینون عقیدے کی شاخیں ہیں۔منکرین آخرت کی منزل ِ مقصود صرف دنیا ہوتی ہے۔اس لیے ان کے کارواں کا سفر دنیا سے شروع ہوتا ہے اور دنیا ہی پر ختم ہوجاتا ہے۔منکرین آخرت برعکس معقدین آخرت کی زندگی کا نہج اورنقشہ بالکل دوسرا ہوتا ہےکیونکہ ان کی آخری منزل دنیا نہیں آخرت ہوتی ہے ۔وہ اپنی زندگی کے تمام معاملات میں جو کچھ کرتے ہیں دنیا کومؤخر اور آخرت کو مقدم رکھ کر کرتے ہیں۔وہ دنیا کے بڑے سے بڑے مفاد کا نقصان گوارا کرلیتے ہیں مگر آخرت کے خسارے والا سودا نہیں کرتے۔وہ کسی کے ساتھ ظلم نہیں کرتے،کسی کا حق نہیں مارتے،کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتے،وہ کسی کے ساتھ بدعہدی اورمعاملات کی خرابی کو جائز نہیں سمجھتے،ہرمعاملے میں حق وصداقت ،اخلاق ودیانت اور عدل وانصاف سے کام لیتے ہیںکیونکہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ ایک ایک عمل کا آخرت میں انھیں خدا کے حضور جواب دینا پڑے گا،جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗﭤ۔وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ(الزلزال:۷۔۸)توجو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔
اسلام نے عقیدۂ آخرت کو بڑے اہتمام اور بڑی شدومدکے ساتھ پیش کیا ہے۔اسلام کے نزدیک وہ مسلمان ہی نہیں ہے جو آخرت پر یقین نہ رکھتا ہو۔قرآن مجید کا شاید کوئی ایک صفحہ بھی ایسا نہ ملے گا جس میں صراحتاً یا اشارتاً آخرت کا ذکر موجود نہ ہو۔صاحب قرآن ﷺ نے بھی اپنی تعلیم وتلقین اور عملی زندگی کے ذریعہ عقیدۂ آخرت پرانتہائی زوردیا ہے۔
قرآن کریم کی کتنی ہی سورتیں ہیں جوقیامت اور آخرت کے بیان سے شروع ہوتی ہیں اور کتنی ہی سورتوں کا خاتمہ قیامت اور آخرت کے بیان پرہوتا ہے۔سورۂ حاقہ،سورہ معارج،سورہ معارج ،سورۂ مرسلات،سورۂ واقعہ،سورۂ نبا،سورۂ نازعات،سورۂ انفطار،سورۂ زلزال،سورۂ قارعہ مکمل قیامت اور آخرت کے بیان میں ہیں۔ان تمام سورتوں میں بیان وخبر کا وہ زور ہے کہ قیامت اور بعد میں پیش آنے والے احوال وکوائف کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھرجاتا ہے۔قرآن مجید کی ان سورتوں کا بغور اور بار بار مطالعہ کرنا چاہیےاور ان کا ترجمہ وتفسیر دیکھنا چاہیےتاکہ آخرت کا یقین زندہ وپائندہ رہے۔
نبی اکرم ﷺ نے قیامت،حشرونشر ،حساب وکتاب اورجنت ودوزخ کی جو خبریں دی ہیں ،وہ حضور ﷺ کے نزدیک اتنی ہی یقینی تھیں جتنی یقینی آنکھوں دیکھی چیز یں ہوتی ہیں۔بلکہ معراج میں تو حضورعلیہ الصلاۃ والسلام کو ان ساری چیزوں کا مشاہدہ بھی کرادیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے اس اعتماد ویقین کے ساتھ کے ساتھ آخرت کے امورومعاملات کے بارے میں خبریں دیں کہ وہ صحابۂ کرام کے دل ودماغ میں پیوست ہوگئیں،اور صحابہ کرام کو بھی اس پر ایسا یقین تھا ،گویا ان کی بھی وہ چیزیں آنکھوں دیکھی ہوں۔اس کا ثبوت ہمیں صحابہ کی زندگی سے ملتا ہے ۔حضور علیہ السلام اس ایمان ویقین کو اپنے اصحاب کے دلوں میں پیہم مستحکم اور جاگزیں فرمانے کی کوشش بھی کرتے رہتے تھے۔
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ جلیل القدر مہاجر صحابی تھے۔حضور ﷺ ان سے بے حد محبت فرماتے تھے ۔مہاجرین میں سب سے پہلے ان کا انتقال ہوا ،حضور نے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا ،فرط ِ غم سے حضور ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے،وہاں ایک خاتون بھی موجود تھیں،حضور ﷺ کی اس شفقت ومحبت کو دیکھ کر بولیں :ابن مظعون! تمہاری عاقبت بخیر ہے،اور تم جنتی ہو،اللہ نے تمہاری عزت افزائی فرمائی ہے۔اس پر حضور ﷺ نے ازراہِ انتباہ فرمایا: (تم نے اس جزم ویقین کے ساتھ ابنِ مظعون کی خیر آخرت کی بات کیسے کہہ دی؟) وَاللهِ إِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ وَاللهِ مَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي(صحیح بخاری :۱۲۴۳)قسم اللہ کی کہ میں بھی ان کے لیے خیر ہی کی امید رکھتا ہوں لیکن واللہ ! مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔
بلاشبہ یہ تعلیم امت کے لیے تھی کہ کوئی بھی امتی عمل سے غافل نہ ہواورفکر آخرت سے بے پرواہ نہ ہو اور کسی کو اپنی جانب سے جنت کی سند نہ دیتا پھرے۔ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ جیسے بزرگ صحابی کے معاملہ میں صحابہ کرام کو تنبیہ فرمائی جارہی ہے تو سوچیں!ہم اور آپ کس شمار میں ہوں گے،ہمیں یہ بات ہر وقت اور ہر حال میں پیش نظر رکھنی چاہیے۔
اس حدیث پاک کو لے کر کچھ بدعقیدوں کی باچھیں کھل جاتی ہیں ،انھیں حضور کﷺ کی شان گھٹانے میں اللہ کی توحید نظر آتی ہے ،حالانکہ رسول اکرم ﷺ کا قیامت کے روز کیامقام و مرتبہ ہوگا ،یہ جزم وتعین کے ساتھ قرآن مجید کے علاوہ بکثرت احادیث سے معلوم ہے ۔اسی لیےشیطانی توحید انھیں مبارک،ہماری رحمانی توحید اورشرعی عقیدہ تو یہ ہے کہ :
فقط اتنا سبب ہے انعقاد بزم محشر کا
کہ ان کی شان محبوبی دکھا ئی جانے والی ہے
خوف خدا کو حدیث میں اصل حکمت اور دانشمندی سے تعبیر کیا گیا ہے۔نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: رأس الحکمۃ مخافة اللہ، یعنی اصل حکمت اور اس کی جڑ خوف خدا کا ہونا ہے۔ جس شخص میں یہ دولت نہیں ہے گویا وہ سعادت و کامیابی اور شادکامی کی دولت سے محروم ہے۔
خوف خدا اورآخرت کا تصور یہ وہ محور ہے، جس کے ارد گرد جملہ عبادتیں گردش کرتی ہیں ۔ نماز ،روزہ زکوۃ اور قربانی و حج اور دوسری تمام عبادتوں کا آخرت کے یقین ،عند اللہ جواب دہی کے احساس اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے عقیدہ سے گہرا ربط ہے ،اگر انسان کے اندر آخرت کا یقین اور جزا کی امید اور سزا کا خوف نہ ہو تو کیا یہ ممکن ہے؟ کہ موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ میں اور سردی کے موسم کی انتہائی سخت ٹھنڈک کے دنوں میں پنج وقتہ نماز کے لئے کوئی شخص مسجد کا رخ کر سکے گا ۔ رمضان کے ایام میں گرمی کے دنوں میں چودہ پندرہ گھنٹہ بھوک پیاس برداشت کرسکے گا ۔ اپنی گاڑھی کمائی میں سے زکوٰۃ و خیرات کے نام پر اللہ کے راستے میں خرچ کرنا بغیر آخرت کے تصور اور خوف کے ممکن ہو سکے گا ؟۔ یہ تمام چیزیں ایک بندئہ مومن کے لئے اس لئے آسان ہو جاتا ہے کہ موت کے بعد نہ ختم ہونے والی زندگی پر اس کا گہرا یقین و ایمان ہے ۔ یعنی مرنے کے بعد ہر شخص کے نیک و بد عمل کا حساب و کتاب ہو گا ۔ اور اچھے اور برے لوگوں کو ان کے ہر عمل کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دیا جائے گا ۔ ان تصورات کے بغیر نہ صرف عبادت بلکہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا بھی ناممکن اور محال ہے ۔ مشرکین عرب اور کفار مکہ کے سامنے بے شمار معجزات پیش کئے گئے، مگر انھیں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین نہ ہوا ۔ بلکہ ضد عناد، سرکشی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ یہ کہتے تھے جس کو قرآن مجید نے نقل کیا ہے : اَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ ( الواقعہ: ۴۷) کیا جب( ہم لوگ ) مر جائیں گے اور ہم مٹی بن جائیں گے، ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی تو پھر دوبارہ ہمیں زندہ کیا جائے گا ؟ بے شمار دلائل کی کثرت کے باوجود آخرت کے عدم تصور کی وجہ سے ایمان کی دولت سے وہ محروم رہے اور ایمان انہیں نصیب نہیں ہو سکا ۔
اس کے برخلاف ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے اندر آخرت کا تصور اور آخرت میں جزا و سزا کا خوف اس قدر پیوست ہو گیا تھا کہ گناہ تو دور کی بات ہے اس کا تصور بھی ان کے قریب پھٹک نہیں پاتا تھا، اور اگر بشری تقاضے اور بعض اور مصالح کی بنیاد پر کسی گناہ کا صدور ہو بھی گیا تو ایسی توبہ کی اور احساس و گریہ و زاری کا وہ سماں پیش کیا کہ فرشتوں کو بھی ان کے توبہ پر رشک آگیا ۔ صحابۂ کرام کی فکر آخرت اور تصور آخرت نیز ان کے خوف خدا کی مثال )انبیائےکرام کے بعد) دنیا پیش نہیں کرسکتی وہ ولایت و تقوی اور عصمت و عفت کے اس مقام پر فائز تھے جن کی ولایت و بزرگی کی شہادت خود رسول اللہﷺ نے دی تھی ۔ ان کے نیک اعمال تقوی و طہارت کی قسم کھائی جاسکتی ہے ۔ لیکن جب بھی کبھی بشری تقاضے کی بنیاد پر ان سے معمولی گناہ بھئ سرزد ہوجاتا تو بے چین ہو جایا کرتے تھے ۔
روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کی مشتبہ کمائی میں سے کچھ حصہ کھا لیا تھا ،بھوک کی شدت کی وجہ سے تحقیق کا خیال نہ رہا ،غلام نے کھا لینے کے بعد جب اطلاع دی تو سخت پریشان ہوئے اور منہ میں ہاتھ ڈال کر قے کر دی اور فرمایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو جسم حرام سے پرورش پائے اس کے لئے دوزخ کی آگ بہت مناسب ہے مجھے ڈر ہوا کہ اس لقمہ سے میرے جسم کا کوئی حصہ پرورش نہ پایا جائے ۔
’’آخرت‘‘کا تصور اور’’ خوف خدا‘‘کا ہی کا نتیجہ تھا کہ جب بشری تقاضا اور بعض مصالح خداوندی کی بنیاد پر حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ سے زنا صادر ہوگیا تو وہ آخرت کے تصور سے بے چین ہوگئے ،پہلے حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ رسول اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس عظیم گناہ سے پاک کرنے کی درخواست کی ،وہ نتیجہ سے بے خبر نہیں تھے ،انہیں معلوم تھا کہ زنا کی اسلامی سزا شادی شدہ کے لئے رجم ( سنگساری کے ذریعہ ہلاک کر دینا) ہے ،وہ چاہتے تو اس عمل بد کو چھپا دیتے ،اس لئے کہ دنیا میں اس پردئہ راز کو انسانوں میں کوئی اٹھانے والا نہیں تھا ، کسی کی نگاہ بھی ان پر نہیں پڑی تھی کہ خبر پھیلنے کا ڈر ہو یا ذلت و رسوائی کا خوف ،اسلام نے زنا کی حد جاری کرنے کے لئے چار عینی گواہوں کو ضروی قرار دیا ہے ،جس کامطلقا یہاں فقدان تھا مگر کیا کیجئے ۔ صحبت رسول ﷺکے سبب ایمانی قوت ،اللہ کا خوف اور آخرت کا تصور اور فکر ان کے دل و دماغ میں جو بس گئ تھی وہ ایسی چنگاری تھی جس نے ان کے چین و سکون کو چھین لیا تھا ،ان کو یقین تھا کہ دنیا کی سزا اور ذلت آخرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ،لوگوں کی نظروں سے اگر بچ بھی گئے تو کیا حاصل ؟ تاریکی اور روشنی میں یکساں دیکھنے والی ذات خداوندی کی نظر سے نجات نہیں مل سکتی ،اس لئے انہوں نے پیغمبرخداﷺکے سامنے جرم کا اعتراف و اقرار کرلیااورحضورﷺکے بار بار اعراض و انکار کے باوجود وہ اپنے عزم پر مصر رہے ،یہاں تک کہ آپ ﷺنے ان کو رجم کرنے کا حکم دیا ۔
صرف مردوں کے اندر ہی نہیں بلکہ عورتوں کو بھی یقین کی یہی دولت حاصل تھی اور ان کے نزدیک بھی آخرت کا تصور اور خوف اسی طرح پایا جاتا تھا ۔ حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ کو سنگسار کئے جانے کے بعد حضرت غامدیہ رضی اللہ عنھا بھی رسول اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ٹھیک وہی صورت پیش آئی، جو حضرت ماعز اسلمی کے ساتھ پیش آئی تھی ۔ آپ نے ان کو پہلی مرتبہ یہ کہہ کر واپس کردیا کہ تمہارے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کو جننے کے بعد آنا ،ولادت کے بعد آئی تو آپ نے دودھ پلانے تک مزید مہلت عنایت کی،بوجھل قدموں وہ واپس ہوئیں کچھ ہی دن گزرے تھے کہ پھر اپنے بچے کے ساتھ حاضر ہوئیں ،بچہ کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا۔ جس سے بظاہر محسوس ہو رہا تھا کہ یہ بچہ اب اپنی ماں کے دودھ سے بے نیاز ہوچکا ہے،آپ نے اس عورت کو رجم کرا دیا ،غور طلب پہلو اور امر یہ ہے کہ یہاں حضرت غامدیہ رضی اللہ عنھا پر ظاہری ایسا کوئی دباؤ نہیں تھا جس کے خوف کا انہیں احساس ہو البتہ آخرت کا تصور اور ڈر و خوف اس طرح ان کے رگ و ریشہ میں پیوست ہوئی تھی کہ راحت بے چینی میں تبدیل ہوگئی، ان کا ہر لمحہ سزا پانے کے انتظار میں گزرتا تھا ،وہ اندر سے اس لئے پریشان اور گھبراہٹ میں مبتلا تھیں کہ کہیں دنیاوی سزا پانے سے پہلے ہی روح پرواز نہ ہوجائے اگر ایسا ہوا تو پھر قیامت کے دن اپنے مالک کو کیا منھ دکھائیں گے ۔
کوئی شبہ نہیں کہ زنا ایک بھیانک جرم ہے ، لیکن آخرت کے تصور اور خوف سے اس طرح بے چین ہونے کی مثال دنیا میں سوائے اس طبقہ کے کہیں اور نہیں مل سکتی ۔ یا ایسی مثالیں بہت ہی کمیاب ہیں ۔ اس لئے رحمت عالم ﷺنے اس موقع پر فرمایا : لقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ، ماعز نے ایسی توبہ کی کہ اگر اس کے ثواب کو پوری امت میں تقسیم کردیا جائے تو وہ سب کے لئے کافی ہوگا ۔ اسی طرح کا جملہ آپ نے حضرت غامدیہ کے بارے میں بھی فرمایا تھا ۔(صحیح مسلم)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ رات کو بیت المال میں بیٹھے ہوئے خلافت کا کوئی کام انجام دے رہے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے اور فرمایا کہ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کیا آپ کو خلافت کے کام سے متعلق گفتگو کرنی ہے یا اپنے کسی ذاتی و نجی مسئلہ سے متعلق، انہوں نے فرمایا مجھے اپنے ذاتی معاملہ میں گفتگو کرنی ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا،، بس تو چلو کسی اور جگہ بات کریں گے۔ کیونکہ بیت المال کی روشنی میں بیٹھ کر ذاتی گفتگو درست نہیں ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو کھڑے ہوکر اس قدر روتے کہ ان کی مبارک ڈاڑھی تر ہوجاتی تھی، کسی نے سوال کیا آپ دوزخ اور جنت کے تذکرہ سے نہیں روتے ، اور قبر کو دیکھ کراس قدر روتے ہیں،؟ اس پر حضرت عثمان غنی نے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلا شبہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر قبر کی مصیبت سے کسی نے نجات پالی تو اسکے بعد سب منزلیں آسان ہوجائیں گی اور اگر اس کی مصیبت سے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہیں۔ (ترمذی شریف)
حضرت مولا علی شیرخدا رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ جب نماز کا وقت آجاتا تو بدن پر کپکپی آجاتی تھی، اور چہرہ زرد پڑجاتا تھا، کسی نے سوال کیا کیا بات ہے؟ تو فرمایا،، اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے، جس کو اللہ جل شانہ نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس کے تحمل سے عاجز ہوگئے اور میں نے اس کا تحمل کرلیا، اب دیکھنا چاہیے پوری ادا کرتا ہوں یا نہیں؟
کاش ہمارے دلوں میں خدا کا خوف اور فکر آخرت پیدا ہوجائے تاکہ ہمارے لیے گناہوں سے بچنا آسان ہوجائے اور آخرت کی تیاری کی فکر میں ہم منہمک ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اعمال صالحہ کو بہترین طریقے سے بجا لانے کے باوجود اس خوف میں مبتلا رہتے تھے کہ مبادا کوئی کمی رہ گئی ہو یا معلوم نہیں وہ عمل مقبول ہو گا یا نہیں۔ اِدھر ہم جیسوں کا حال ملاحظہ ہو کہ عمل سے بالکل کورے بلکہ گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں لیکن یوں گمان کرتے ہیں کہ جنت میں اپنا داخلہ تو پکا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خلیفہ بلافصل امیر المؤمنین ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب سے شاید ہی کوئی مسلمان ناواقف ہو۔ وہ آخرت کے بارے میں اتنے فکر مند رہتے تھے کہ فرمایا کرتے کاش میں کسی مومن کے جسم کا بال ہوتا (کہ حساب کتاب سے بچ جاتا)۔ کبھی فرماتے کاش میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ ڈالا جاتا اور لوگ اس کا پھل کھا جاتے۔ کاش میں گھاس ہی ہوتا جسے جانور چر لیتے۔
کچھ ایسی ہی کیفیت امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تھی۔ ایک مرتبہ سورۃ الطور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے ان عذاب ربک لواقع ’’بے شک تیرے رب کا عذاب واقع ہونے والا ہے‘‘ تو اتنا روئے کہ شدت گریہ سے بیمار پڑ گئے اور لوگ عیادت کے لیے آتے رہے۔ فرمایا کرتے میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میں اس طرح نجات پا جاؤں کہ نہ اجر ملے اور نہ سزا،(بس برابر برابر پر ہی بات ختم ہو جائے)
امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ داڑھی بھیگ جاتی اور کہا کرتے اگر میں جنت اور جہنم کے درمیان اس حال میں کھڑا ہوں کہ مجھے کچھ علم نہ ہو کس طرف جانے کا حکم ہو گا تو میں اپنا ٹھکانہ جاننے سے پہلے دھول مٹی ہو جانا پسند کروں گا۔امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ دنیا کے فتنے سے خوف زدہ رہتے تھے۔ فرمایا کرتے لمبی امیدیں لگانے اور نفس کے پیچھے چلنے سے بچو۔ لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں اور نفس کے پیچھے چلنا حق سے روک دیتا ہے۔ سن لو، یہ دنیا منہ موڑ کر جا رہی ہے اور آخرت چل پڑی ہے اور آ رہی ہے، ان دونوں کے کچھ بیٹے ہیں، پس تم آخرت کے بیٹے بنو، دنیا کے بیٹے مت بننا۔ آج عمل کا وقت ہے کوئی حساب نہیں اور کل حساب ہو گا اور کوئی عمل نہیں۔
ابو درداء رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے’’مجھے قیامت کے دن سب سے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ مجھے یہ نہ کہہ دیا جائے اے ابو دردا! یہ تو بتا کہ تو نے جو علم سیکھا تھا اس پر عمل کتنا کیا‘‘؟ اور کہتے اگر تم لوگ جان لو کہ موت کے بعد تمہارا کن چیزوں سے واسطہ پڑنے والا ہے تو نہ مزے سے کھا پی سکو نہ گھروں کے سائے میں داخل ہو بلکہ اپنے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے اور اپنے آپ پر روتے ہوئے بیابانوں کو نکل کھڑے ہو، ہائے کاش میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا اور جانور اسے کھا لیتے۔
مقدس صحابہ اور خوفِ منافقت:
جب سيدنا عمررضی اللہ عنہ پر حملہ کیا گیا تو ان کے لیے دودھ لایا گیا، جیسے ہی آپ نے دودھ پیا تو وہ آپ کی پسلیوں کے زخم سے بہہ نکلا۔ طبیب نے ان سے کہا: اے امیر المومنین وصیت فرما دیں، آپ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ تو انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ کو بلایا اور کہا کہ حذیفہ بن الیمان کو میرے پاس بلاؤ۔ حذیفہ بن الیمان حاضر ہو گئے۔ یہ وہ صحابی ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے منافقین کے ناموں کی فہرست عطا کی تھی اور ان ناموں کے بارے میں اللّٰہ پاک اس کے رسول ﷺ اور حذیفہ بن الیمان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا جبکہ خون ان کی پسلیوں سے بہہ رہا تھا، کہ اے حذیفہ بن الیمان میں آپ کو اللّٰہ کی قسم دے کر کہتا ہوں! کیا اللّٰہ کے رسول ﷺ نے میرا نام منافقین کے ناموں میں لیا ہے یا نہیں؟ یہ سن کر حذیفہ بن الیمان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا! یہ میرے پاس رسول اللّٰہ ﷺ کا راز ہے جو کسی کو نہیں بتا سکتا۔ آپ نے پھر پوچھا! خدا کے لیے مجھے اتنا بتادیں،اللّٰہ کے رسول ﷺ نے میرا نام شامل کیا ہے یا نہیں؟حذیفہ بن الیمان کی ہچکی بندھ گئی اور کہتے ہیں اے عمر! میں صرف آپ کو بتا رہا ہوں اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں کبھی بھی اپنی زبان نہ کھولتا اور وہ بھی صرف اتنا بتاتا ہوں کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے اس میں آپ کا نام شامل نہیں کیا۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا کہ دنیا میں میرے لیے ایک چیز باقی رہ گئی ہے۔ حضرت عبداللہ نے پوچھا وہ کیا ہے ابا جان؟حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا! بیٹا میں جوار رسول ﷺ میں دفن ہونا چاہتا ہوں۔ لہذا ام المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ، ان سے یہ مت کہنا کہ امیر المؤمنین عمر بلکہ کہنا کہ کیا آپ عمر کو اپنے ساتھیوں کے قدموں میں دفن ہونے کی اجازت دیتی ہیں؟ کیونکہ آپ اس گھر کی مالکن ہیں۔ تو ام المؤمنین نے جواب دیا کہ یہ جگہ تو میں نے اپنے لیے تیار کر رکھی تھی لیکن آج میں اسے عمر کے لیے ترک کرتی ہوں۔ عبداللہ ابنِ عمررضی اللہ عنہ شاداں و فرحان واپس آئے اور عرض کی، اجازت مل گئی ہے۔ عبداللہ ابنِ عمرؓ نے دیکھا کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا رخسار مٹی پر پڑا ہے تو انہوں نے آپ کا چہرہ اٹھا کر اپنی گود میں لے لیا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ کیوں تم میرا چہرہ مٹی سے بچانا چاہتے ہو۔ عبداللہ ابنِ عمررضی اللہ عنہ نے کہا ابا جان! لیکن حضرت عمرنے بات کاٹنے ہوئے فرمایا کہ اپنے باپ کا چہرہ مٹی سے لگنے دو۔ بربادی ہے عمر کے لیے اگر کل اللّٰہ پاک نے اسے نہ بخشا۔امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کو یہ وصیت فرما کر موت کی آغوش میں چلے گئے کہ ’’اے میرے بیٹے میری میت مسجد نبوی میں لے جانا اور میرا جنازہ پڑھنا اور حذیفہ بن یمان پر نظر رکھنا اگر وہ میرے جنازے میں شرکت کرے، تو میری میت روضہ رسول ﷺ کی طرف لے جانا۔اور میرا جنازہ روضۃالرسول ﷺ کے دروازے پر رکھ کر دوبارہ اجازت طلب کرنا اور کہنا،اے ام المؤمنین آپ کا بیٹا عمر یہ مت کہنا کہ امیر المؤمنین، ہو سکتا ہے میری زندگی میں مجھ سے حیا کی وجہ سے اجازت دی گئی ہو، اگر اجازت مرحمت فرما دیں تو دفن کرنا ورنہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا‘‘۔
حضرت عبداللہ ابنِ عمررضی اللہ کی نظریں حذیفہ بن الیمان پر تھیں،فرماتے ہیں کہ میں حذیفہ بن یمان کو ابا جان کی نماز جنازہ پر دیکھ کر بہت خوش ہوا اور ہم جنازہ لے کر روضہ رسول ﷺ کی طرف چلے گئے۔ دروازے پر کھڑے ہو کر میں نے کہا۔ اے ہماری ماں آپ کا بیٹا عمر دروازے پرہے، کیا آپ تدفین کی اجازت دیتی ہیں؟ام المؤمنین نے جواب دیا! مرحبا یا عمر۔ عمر کو اپنے ساتھیوں کی ساتھ دفن ہونے پر مبارک ہو۔ ام المؤمنین نے اپنی چادر سمیٹی اور روضہ رسول ﷺ سے باہر نکل آئیں۔اللّٰہ پاک راضی ہو حضرت عمرؓ سے زمین کا چپہ چپہ جن کے عدل کی گواہی دیتا ہے، جن کی موت سے اسلام یتیم ہو گیا، جن کو اللّٰہ کے رسول ﷺ نے زندگی میں جنت کی خوشخبری دی ہو پھر بھی اللّٰہ کے سامنے حساب دہی اتنا خوف ہمارا کیا بنے گا؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو آخرت کا کس قدر خوف تھا اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو یہ محسوس ہوا کہ جب وہ حضورﷺکی مجلس میں ہوتے ہیں تو ایمان کی کیفیت کچھ ہوتی ہے یعنی ایمان اور آخرت کے خوف کا ٹمپریچر بڑھا ہوتا ہے لیکن جب گھر میں ہوتے ہیں تو ایمان اور خوف آخرت کی یہ کیفیت اور حالت نہیں رہتی کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ تضاد نفاق کی وجہ سے ہو اور حنظلہ منافق ہوگیا ہو *قد نافق حنظلة* دوڑے دوڑے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے راستے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی، گھبراہٹ تیزی سے بھاگنے اور افتاں و خیزاں چلنے کی وجہ دریافت کی؟ تو ساری سرگزشت سنا دی اور فرمایا :نافَقَ حنظلةُ يا أبا بَكْرٍ ، اے ابوبکر!حنظلہ تو منافق ہوگیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ارے ارے یہ کیفیت تو میری بھی ہوتی ہے ۔ چلو اللہ کے نبی سے وجہ معلوم کرتے ہیں جب حضرت حنظلہ نے آپﷺ کی خدمت میں اپنی اس الجھن اور بے چینی کو رکھا تو نبی رحمت ﷺنے فرمایا گھبرانے کی ضرورت نہیں یہ تو عین ایمان کی کیفیت ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے ۔ اگر ایمان کی جو کیفیت میری مجلس میں رہتی ہے اگر وہی کیفیت گھر میں ہونے لگے تو فرشتے تمہارے بستروں پر آ آ کر سلام اور مصافحہ کرنے لگیں ۔
تابعی بزرگ ابن ابی ملیکہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں’’ میں نے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات کی، وہ سب اپنے اوپر نفاق کے فتنے سے خوفزدہ رہتے تھے کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ میرا ایمان جبریل اور میکائیل جیسا ہے‘‘۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہےکہ’’ نفاق سے وہ ڈرے گا جو مومن ہے اور اس سے اطمینان میں وہی ہو گا جو خود منافق ہے‘‘۔اللہ اکبر ،اللہ اکبر
حضرت عمرو بن عاص کی ندامت اورگریہ
ابن شمامہ مہری کہتے ہیں کہ عمروبن العاصؓ کے مرض الموت میں ہم ان کی عیادت کو گئے وہ دیوار کی طرف منہ کرکے رونے لگے، ان کے بیٹے عبداللہ نے دلاسا دیا کہ ابا کیا آپ کو آنحضرت ﷺ نے فلاں فلاں بشارتیں نہیں دی ہیں؟ جواب دیا میرے پاس افضل ترین دولت ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘کی شہادت ہے، مجھ پر زندگی کے تین دور گذرے ہیں، ایک وہ دور تھا جس میں نبی اکرم ﷺ کا سخت ترین دشمن تھا اور میری سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ کسی طرح قابو پاکر آپ کو قتل کردوں، اگر اس حالت میں مرجاتا تو میرے لیے دوزخ یقینی تھی، پھر اللہ عزوجل نے میرے دل میں اسلام ڈالا، میں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ! ہاتھ پھیلائیے میں بیعت کروں گا، آپ نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے سمیٹ لیا، فرمایا عمروبن العاصؓ! تم کو کیا ہوگیا میں نے عرض کیا میں ایک شرط چاہتا ہوں، فرمایا وہ کونسی شرط ہے، میں نے عرض کیا میری مغفرت ہوجائے، فرمایا، عمروبن العاصؓ ! کیا تم کو معلوم نہیں کہ اسلام اپنے پہلے تمام گناہوں کو کالعدم کردیتا ہے، ہجرت اپنے پہلے کے گناہوں کو مٹادیتی ہے، حج اپنے پہلے کے گناہوں کو گرا دیتا ہے، اس کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ رسول اللہﷺ سے زیادہ نہ میرا کوئی محبوب رہا اور نہ ان سے زیادہ میری نگاہ میں کوئی بزرگ باقی رہا، میں آپ کی انتہائی عظمت وہیبت کی وجہ سے آپ کو نظر بھر نہیں دیکھ سکتا تھا اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھے تو میں نہیں بتاسکتا کہ میں نے نظر بھر کبھی دیکھا ہی نہیں اگر اس حالت میں مرجاتا تو جنت کی امید تھی، پھرتیسرا دور آیا جس میں میں نے مختلف قسم کے اعمال کیے، اب میں نہیں جانتا کہ میرا کیا حال ہو گا جب میں مرجاؤں تو نوحہ کرنے والیاں میرے ساتھ نہ جائیں، نہ جنازہ کے پیچھے آگے جائے، دفن کرتے وقت مٹی آہستہ آہستہ ڈالی جائے، دفن کرنے کے بعد اتنی دیر قبر کے پاس رہنا جب تک جانور ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم ہوجائے، تاکہ میں تمہاری وجہ سے مانوس ہوجاؤں اور یہ غور کرلوں کہ اپنے رب کے قاصدوں کو کیا جواب دوں۔موت کے وقت اپنے محافظ دستے کو بلا بھیجا اورپوچھا کہ میں تمہارا کیسا ساتھی تھا؟ جواب ملاکہ آپ ہمارے سچے ساتھی تھے، ہماری عزت کرتے تھے، ہم کو دل کھول کر لیتے دیتے تھے، یہ سلوک کرتے تھے وہ کرتے تھے، کہا میں یہ سلوک اس لیے کرتا تھا کہ تم مجھ کو موت سے بچاؤگے، یہ موت سامنے کھڑی ہوئی کام تمام کرنا چاہتی ہے، اس کو کسی طرح سے میرے سامنے سے دور کرو، یہ عجیب فرمائش سن کر ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے، کچھ دیر کے بعد بولے، اباعبداللہ! خدا کی قسم ہم کو آپ سے ایسی فضول بات سننے کی امید نہ تھی، آپ جانتے ہیں کہ موت کے مقابلہ میں ہم آپ کےکچھ کام نہیں آسکتے، عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے یہ جانتے ہوئے تم سے ایسی فرمائش کی تھی کہ تم موت کے مقابلہ میں میری کوئی مدد نہیں کرسکتے، کاش! میں نے تم میں سے کسی کو اپنی حفاظت کے لیے نہ رکھا ہوتا، افسوس ابن ابی طالب سچ کہتے تھے کہ انسان کا محافظ خود اس کی موت ہے، خدایا میں بری نہیں ہوں کہ معذرت کروں، طاقتور نہیں ہوں کہ غالب آجاؤں، اگر تیری رحمت نے دستگیری نہ کی تو میں ہلاک ہوجاؤں گا۔ پھر دعا میں مصروف ہوگئے کہ الہا تو نے حکم دیا، میں نے عدول حکمی کی تو نے ممانعت کی میں نے نافرمانی کی میں بری نہیں ہوں کہ معذرت کروں طاقتور نہیں ہوں کہ غالب آجاؤں ہاں لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ یہی کہتے کہتے جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔
آج معاشرہ میں خواہ وہ اسلامی معاشرہ ہو یا غیر اسلامی سماج و معاشرہ اس میں جو ظلم و ستم لوٹ کھسوٹ برائی اور بے حیائی اور گناہوں اور برائیوں کا جو سیلاب ہے ، اس کی بنیادی وجہ آخرت کے تصور اور خوف خداکا نکل جانا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر ایک آدمی کے اندر خوف خدا آخرت کا تصور دوبارہ اٹھائے جانے اور سزا و جزا کا تصور اور احساس ہی سرے سے نہیں ہے تو وہ گناہ سے اور ظلم و ستم اور بری اور گندی حرکتوں سے کیوں کر اور کیسے بچے گا ۔ اپنے غلط عمل اور خواہشات سے وہ کیسے رک پائے گا ۔؟ لیکن اگر کسی کو یہ احساس ہو جائے کہ اگر میں ظلم کروں گا دوسروں کو ستاؤں گا دوسروں کا حق ماروں گا تو قیامت کے دن حشر کے میدان میں اس عمل کا مجھے حساب دینا پڑے گا مجھ سے بدلہ اور قصاص لیا جائے گا ۔ تو یقینا وہ اپنی ان غلط حرکتوں سے باز رہے گا ۔
اسی طرح اگر کسی شرابی کو اور زانی کو اس غلط حرکت کے وقت آخرت کا خوف اور تصور پیدا ہو جائے اور یہ یقین اس کے دل میں پیدا ہوجائے کہ جو ذرہ برابر بھی گناہ کرے گا اس کو اس کی بھی سزا ملے گی اور اس کو اپنے کئے کا مزہ چھکنا پڑے گا ، تو وہ ان گناہوں سے یقینا بچ جائے گا اور اس کے جسم پر خوف کی کیفیت پیدا ہوجائے گی اور لرزہ طاری ہو جائے گا ۔ اور ان کا آرام و راحت اور سکون و اطمینان ختم ہو جائے گا ۔اللہ کریم ہمارے دلوں میں بھی خوف خدا اور فکر آخرت پیدا کردے اور خاتمہ بالخیر فرمائے۔آمین بجاہ حبیبک سیدالمرسلین
سید سیف الدین اصدق چشتی
بانی وسربراہ: تحریک پیغام اسلام جمشیدپور