جسم اور روح کی حقیقت
خالق کائنات کی مخلوقات پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر شئی کا ایک جوڑاہے۔ ایک تو مرد اور عورت کا جوڑا ہے، اسی طرح حیوانوں میں، پرندوں میں، درندوں میں اور ہرچیز میں جوڑا نظر آئے گا۔کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں جس چیز کا جوڑا نہ ہو۔
آسمان پانی برساتا ہے تو زمین مادہ کی مانند اس کو جذب کرتی ہے پھر کھیتیاں زمین کی اولاد ہوتی ہیں۔ Botany یعنی نباتات اور پیڑ پودوں سے متعلق مضمون پڑھنے والے اس بات کوبخوبی جانتے ہیں کہ پودوں میں بھی جوڑاجوڑا ہوتا ہے۔ ایک پودے سے بیج ہوا میں اڑتا ہے دوسرے پودے میں پہنچتا ہے اور دوسرے پودے میں پہنچ کر پھر ایک نیا پھول نکلتا ہے۔ آج سائنس کی دنیا یہ کہتی ہے کہ اگر مادہ ہمیں معلوم ہے تو اینٹی میٹر بھی موجود ہے۔ matter اور antimatter یہ بھی جوڑا جوڑا ہے۔ اگر ذرا اور گہرائی سے جائزہ لیں تومادّے کی بناوٹ ایٹم سے ہوتی ہے اور ایٹم کے اندر الیکٹران اور پروٹان کا جوڑا ہے،پھر یہ دونوں سےمل کرچارج والے ذرات بنتے ہیں۔قرآن کریم اسی کو یوں بیان فرماتا ہے کہ : وَمِن كُلِّ شَىءٍ خَلَقنَا زَوجَينِ لَعَلَّكُم تَذَكَّرُونَ (الذاریات:۴۹) اور ہم نے ہر چیز سے جوڑے جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
معلوم ہوا کہ اس چھوٹی سی آیت کریمہ نے پورری سائنس کی بنیاد رکھ دی ہے۔میں اسکول ،کالج اور یونیورسٹیز میں پڑھنے پڑھانے والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس آیت کریمہ کو اصول بناکر ریسرچ کریں،انھیں سائنس کی نئی نئی دریافتیںاور راہیں ملیں گی ۔اور سب سے بڑی اور پہلی نصیحت یہ ملے گی کہ آپ کے خود کا عقیدۂ توحید آپ کے دل میں پختہ اور راسخ ہوگا کہ ہم اس کی بندگی اور پوجا کرتے ہیں جو انسانوں کی طرح نہیں ہے،جانوروں کی طرح نہیں ہے،کسی چیز کی طرح نہیں ہے۔ اس نے ہر ایک کا جوڑی دار بنایا مگر اس کا کوئی جوڑی دار نہیں ہے۔’’قل ھواللہ احد ‘‘جس کی شان ہے۔’’اللہ الصمد‘‘ جس کا امتیاز ہے۔’’لم یلد ولم یولد ‘‘جس کی خصوصیت ہے۔’’ولم یکن لہ کفوا احد ‘‘ جس کا مقام ومرتبہ ہے۔یعنی وہ واحد ویکتا وتنہا ہے،زمانہ اس کا محتاج ہے ،وہ کسی کامحتاج نہیں۔نہ کوئی اس کاباپ ہے ،نہ بیٹا،ماں ہے نہ بہن،بیوی ہے نہ بیٹی ۔وہ رشتے بناتا ہے مگر رشتوں سے ماورا ہے۔’’اسی طرح نہ کوئی اس کےمثل ہےنہ مثال ،نہ تمثیل ہے نہ تشبیہ ،نہ عکس ہے نہ نظیر،نہ ہمسر ہے نہ شریک۔ہم اس پر جس قدرفخر وناز کریں کم ہے کہ ؎
مٹی سے اگادیتا ہے وہ گھاس ہری سی
قطرے سے بنادیتا ہے وہ تصویر پری سی
اللہ کا صد شکر کہ انسان بنایا
انسان بھی ایسا کہ مسلمان بنایا
اصلی انسان اور نقلی انسان:
ان ساری باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئےایک بار پھر اللہ رب العزت کے اس فرمان پر نظر ڈالیے کہ ہم نے ہرچیز کو جوڑا جوڑا بنایا ہے’’ لَعَلَّكُم تَذَكَّرُونَ ‘‘تاکہ تم نصیحت حاصل کروـ اب اس اصول کی روشنی میں انسان پر نظر ڈالیے تو وہ بھی دوچیزوں کا مجموعہ نظر آئے گا ـ ایک جسم اور ایک روح۔جسم مکان ہے، روح اس کی مکین ہے۔اس سلسلے میں چند نکات کو پیش نظر رکھیں تاکہ روح کی اہمیت کا آپ صحیح اندازہ کرسکیں۔
۱۔سب پہلے اس بات کو سمجھ لیں کہ’’ـ یہ جسم نقلی انسان ہے اس کے اندر بسنے والی روح حقیقتاً اصلی انسان ہے‘‘۔ ـ کیونکہ جب تک روح جسم میں رہتی ہے جسم کام کرتا ہے اور روح نکل جائے تو اسے مٹی کے نیچے دفن کردیا جاتا ہےـ ۔
۲۔انسان مٹی سے بناہے،مرکر مٹی میں جانا ہے اور پھر مٹی ہی سے اٹھایا جائے گا’’مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَ فِیْهَا نُعِیْدُكُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى‘‘ تو اس لیے اس کی ضرورت بھی اسی مٹی سے پوری ہوتی ہے ـ۔پانی زمین سے،اناج زمین سے،پھل زمین سے،سبزی زمین سے لیکن ـ روح اوپر سے آئی ہے تو اس کی غذا بھی اوپر سے اترنے والے انوار وتجلیات ہیں ـ معلوم ہوا کہ نقلی انسان کی ضرورت کچھ اور ہے اور اصلی انسان کی ضرورت کچھ اور ۔
۳۔جسم نظر آنے والی شئی ہے اور روح جو اصل ہے اسے دیکھا نہیں جاسکتا،مگر اس نظر نہ والی چیز کی طاقت کا عالم یہ ہے کہ جسم میں ہے تو آنکھیں دیکھتی ہیں،کان سنتے ہیں،زبان بولتی ہے،ہاتھوں میں حرکت ہے،پاؤں میں جنبش ہےاور دل دھڑک دھڑک کر اپنی زندگی کا پتہ دیتا ہے۔لیکن اسی جسم سے روح نکل جائے تو تمام جسمانی اعضا اپنی جگہ پر ہونے کے باوجود معطل وبے کار ہوجاتے ہیں۔پتہ چلاکہ جسم کے اندر نظر آنے والی اصل شئی روح ہے جس کی یہ کرشمہ سازیاں ہیں۔
۴۔جسم و روح کی طرح ایک مسلمان کا ایمان بھی دوچیزوں کا مجموعہ ہے۔ایک کو عمل کہتے ہیں اور دوسرے کو عقیدہ۔عمل نظر آتا ہے مگر عقیدہ نظر نہیں آتا مگر حقیقت یہ ہے کہ روح کی طرح عقیدہ ہی اصل ہے ۔عقیدہ درست نہیں تو اعمال کی کثرت سے بندے کو نجات نہیں مل سکتی۔یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ علمائے حق نے عقیدے کی درستگی پر زور دیا ہے۔ہاں!اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عقیدے کو تقویت عمل سےہی ملتی ہے۔بندہ جس قدر عمل کرتا جائے گا، اس کا عقیدہ اتناہی پختہ اور راسخ ہوتا چلاجائے گا۔
۵۔اسی طرح انسانوں کے دوچہرےبھی ہوتے ہیں۔ایک چہرہ وہ جسے دنیا والے دیکھتے ہیں اور ایک چہرہ وہ ہے جسے پیدا کرنے والا دیکھتا ہے ـ شرفا کی شکل میں نہ جانے کتنے ایسے ہیں جو بھیڑیے کا دل رکھنے والے ہیں ـ وہ چہروں کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں ـ عوامی زندگی کا چہرہ کچھ اور ہوتا ہے،ذاتی زندگی کا چہرہ کچھ اور ہوتا ہے۔ ـ ایک چہرہ آنکھ کھول کر دیکھاجاتا ہے اور ایک چہرہ آنکھیں بند کرنے سے دکھائی دیتا ہے۔ ـ ایک چہرہ نظریں اٹھاکردیکھا جاتا ہے اور ایک چہرہ نظریں جھکاکر دیکھا جاتاہے۔ ـ نظریں جھکاکر دیکھنے والی ہستیاں انسان کا ظاہر بھی دیکھتے ہیں اور باطن بھی۔خوب صورت انسانوں کے بھیس میں چھپےنہ جانے کتنے بھیڑیے اور درندوں کی روح اللہ انھیں دکھادیتا ہے۔ جسم اور روح کی ضروریا ت :
جسم اور روح جب جدا جدا ہے تو ان کی ضرورتیں اور غذائیں بھی جدا جدا ہیں ـ جسم کو روٹی نہ ملے تو جسم کمزوراور ضعف کا شکار ہوجاتا ہے ـ اسی طرح اگر چند دن بندہ نیک اعمال نہ کرے توانسان کی روح بھی کمزور ہوجاتی ہےـ جسم بیمار ہوتا ہے تو اچھی غذائیں اچھی نہیں لگتیں اور روح بیمار ہوتی ہے تو اچھی باتیں بھی بری لگتیں ہیں۔شاعر کی زبان میں ؎
ناصحا ! مت کر نصیحت دل مرا گھبرائے ہے
اس کو دشمن جانتا ہوں جو مجھے سمجھائے ہے
جسم بیمار ہو جائے تو جسمانی معالج کے پاس جائیے اور اگر روح مریض ہو جائے تو روحانی طبیب کے پاس جائیے۔اللہ والوں کے در پہ جائیے،ان کی تعلیمات اور سیرت کا مطالعہ کیجیے اورقرآن وسنت سے تعلق قائم کیجیے۔
بیمار جسم کو صحت یابی کے لیے کڑوی دوائیں حلق سے اتارنی پڑتی ہیں اور بیمار روح کو شفایابی کے لیے عملی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ظاہر کے کھانے کی لذت کچھ اورہوتی ہے ،باطن کے کھانے کی لذت کچھ اور ہے ـ ۔
میرے عزیزو! جس طرح الگ الگ کھانے کا الگ الگ مزہ ہوتا ہے اسی طرح الگ الگ نیکیوں کا الگ الگ مزہ ہوتا ہے ـ بس! شرط یہ ہے کہ انسان کا باطن جاگتا ہو یا مریضِ روح اپنے باطن کے علاج کے لیے سنجیدہ ہو۔ ایسے میں اسے ہر اچھے عمل کا کچھ الگ لطف حاصل ہوگا۔ سچ بولنے کا مزہ کچھ اور ملے گا، ـ امانت داری کامزہ کچھ اور ہوگا،پرہیزگاری،جذبہ ایثاراوردوسروں کے لیے قربانی دینے کی لذت کچھ وہی جانتا ہے جو اس مرحلے گذرتا ہے۔غیرمحرم سے آنکھیں بند کرلینے کا مزہ کچھ اور ہےتو ـ اسی طرح عبادات کامزہ کچھ اور ہے۔اسی طرح اللہ والے جب قرآن پڑھتے ہیں تو ہرہرآیت پر انھیں مزہ آتا ہے،ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے: قرآن خود کہتا ہے: إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتُهُۥ زَادَتْهُمْ إِيمَٰنًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ(انفال:۸) سچّے ایمان والے تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
کاراور موٹر سائیکل میں بھی پٹرول ڈالا جاتا ہے،ہوائی جہاز میں بھی پٹرول ہی ڈالاجاتا ہے مگرایک سڑکوں پر دوڑتی ہے،اورایک فضاؤں میں پرواز کرتا ہے۔کیامطلب؟کاروں میں ڈالا جانے والا پٹرول آلودہ ہوتا ہےاور ہوائی جہاز میں ڈالا جانے والا ریفائنڈ ہوتا ہے۔اسی طرح جو بندہ مومن ذکر الٰہی اور یاد الٰہی میں غرق ہوتا ہے تو اس کی روح ریفائنڈ ہوجاتی ہے ۔وہ بیٹھتا تو زمین پر ہے مگر خبرلوح محفوظ کی رکھتا ہے۔قرآن کہتا ہے:قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۔وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاﭤ(الشمس:۹۔۱۰)بے شک کامیاب وکامران ہوا،فلاح پایا،بامراد ہوا جس نے اپنے قلب وروح کو ستھرا کیااور نامراد وناکام ہوا جس نے اسےگناہ و معصیت میںغرق کردیا۔
اسلاف اور لذت قرآن: جب ر روح میں پاکیزہ جاتی ہے توانسان کو عبادات میں لذت ملتی ہے اور راتوں کو اٹھنا آسان ہوجاتا ہے۔ـ اہل دل کہتے ہیں کہ خودبخود آنکھ کھلتی ہے،ـ گھڑی میں الارم نہیں لگانے پڑتے، ـ محبت سے لبریزدل خود الارم کا کام کرتا ہے،ـ دل کی گھڑی خودوقت بتادیتی ہےاور ــــــــانسان راتوں کو جاگ کر اپنے قلب وروح کومجلی ومصفی کرتا ہے۔اپنے ایسے ہی بندوں کے بارے میں اللہ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے: تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ ٱلْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَٰهُمْ يُنفِقُونَ(السجدہ:۱۶)ان کے پہلو اُن کے بستروںسے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید (کی مِلی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں اور ہمارے عطا کردہ رزق میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔
صحابہ کرام کے زمانے میں رات کے آخری پہر اگر کوئی چلتا تو پورا شہر زندوں کا شہر معلوم ہوتا اورہرگھرسے تلاوت قرآن کی آواز ایسے آتی جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوـ کوئی اونچا پڑھ رہا ہوتا اور کوئی آہستہ پڑھ رہا ہوتا ـ اور نبی پاک علیہ السلام ان کی نگرانی فرمارہے ہوتے ـ۔ایک شب حضور نے دیکھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑی آہستہ آواز سے تلاوت کررہے ہیں ،کچھ اور آگے بڑھے تو حضرت عمر فاروق کو بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کرتے پایا۔پوچھا عمر !اتنی بلند آواز کیوں؟ فرمایا یارسول اللہ! شیطان کو بھگارہا ہوں ،سوتوں کو جگارہا ہوں اور رب کو منارہا ہوں۔یہی سوال حضورﷺ نے جب حضرت ابوبکر سے کیا تو انھوں نے کہا کہ یارسول اللہ! میں تو اسے سنارہا ہوں کہ جو دل کی آواز بھی سنتا ہے۔آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے ذرا آواز کو بلند کرنے کے لیے کہا تو حضرت عمر سے اپنی آواز کو ذرا آواز پست کرنے کے لیے کہا۔دونوں میں بظاہر اختلاف تھا مگر کسی کو غلط نہ کہا بلکہ دونوں کے درمیان ایک اعتدال قائم کردیا۔
صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ ایک رات سورۃ البقرہ پڑھ رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے قریب بندھا ہوا تھا۔ اتنے میں گھوڑا بدکنے لگا، وہ خاموش ہو گئے تو گھوڑا ٹھہر گیا، انھوں نے پھر پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا پھر بدکنے لگا وہ پھر خاموش ہو گئے تو گھوڑا بھی ٹھہر گیا، وہ پھر پڑھنے لگے تو گھوڑا پھر بدکنے لگا، پھر وہ رک گئے (تلاوت چھوڑ دی) اور ان کا بیٹا یحییٰ گھوڑے کے قریب (لیٹا ہوا) تھا انھیں ڈر ہوا کہ گھوڑا اسے کچل نہ ڈالے۔ جب اسے وہاں سے ہٹا لیا اور آسمان کی طرف نگاہ کی تو آسمان دکھائی نہ دیا۔ انھوں نے صبح کو نبی کریم ﷺسے آ کر بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ”اے ابن حضیر! تو پڑھتا رہتا، اے ابن حضیر! تو پڑھتا رہتا۔“ وہ بولے کہ یا رسول اللہ! یحییٰ گھوڑے کے قریب لیٹا تھا، مجھے خوف ہوا کہ کہیں گھوڑا یحییٰ کو کچل نہ دے پس میں نے سر اٹھایا اور اس (یحییٰ) کی طرف لوٹ گیا پھر میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو ایک عجیب سی چھتری نما بادل جس میں بہت سے چراغ روشن تھے، مجھے دکھائی دی، پھر میں باہر نکل آیا یہاں تک کہ وہ میری نظر سے غائب ہو گیا، آپ ﷺنے فرمایا: ”تجھے معلوم ہے کہ وہ کیا تھا؟“ انھوں نے کہا ”جی نہیں“ تو آپﷺ نے فرمایا: ”وہ فرشتے تھے تیری آواز سن کر تیرے پاس آ گئے تھے، اگر تو صبح تک پڑھتا رہتا تو دوسرے لوگ بھی انھیں (کھلم کھلا) دیکھ لیتے اور وہ ان کی نظر سے غائب نہ ہوتے۔
ایک صحابی تہجد میں دعا مانگتے ہوئے روتے ہیں تو صبح حضور فرماتے ہیں: کل تیرے رات کے رونے اللہ کے فرشتوں کوبھی رولادیا ـ اللّٰہ اکبر! کیسااخلاص کا رونا تھاـ خلوص ومحبت کے دوآنسو ہی بڑے قیمتی ہوتے ہیں ـ کاش کہ ہمیں بھی نصیب ہوجائے:
ادھر نکلے ادھر ان کو خبر ہو کوئی تو آنسو ایسا معتبر ہو
اور کسی شاعر نے یہ بھی کہا ہے کہ؎
اک حرف ایک طویل حکایت سے کم نہیں
اک بوند ایک بحر کی وسعت سے کم نہیں
نکلے خلوص دل سے جو وقت نیم شب
اک آہ ایک صدی کی عبادت سے کم نہیں
غریب نواز کی تلاوت قرآن اور نور کا جلوہ:
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سمرقند میں مولانا حسام الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور اسی درمیان رمضان المبارک کا مہینہ آگیاتو استاذ محترم کے حکم پر تراویح کے لیے مصلی امامت پر پہنچے تو تلاوت قرآن کے حسن نے ایک عالم کو دیوانہ بنادیا۔نماز فجر کے امام بنے تو مسجد میں جگہ تنگ پڑگئی ۔آپ آرام کرتے تو نور قرآن سے کمرہ روشن ہوجاتا۔یہ ایک عام حافظ قرآن اور عامل قرآن کا فرق تھا۔
ایک آیت نے فضیل بن عیاض کی زندگی بدل دی:
حضرت فضیل بن عیاض ایک آزاد مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے مگران کوسازگار ماحول نہیں ملا، جس کی وجہ سے ان کی عادتیں بگڑگئیں اور کچھ دنوں میں وہ ایک مشہور ڈاکو کی حیثیت سے مشہور ہوئے ان کی ڈاکہ زنی کا اتنا چرچا تھا کہ خراسان کے آس پاس سے قافلے گذرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ان کی زندگی کے یہی لیل ونہار تھے کہ یکا یک فضل ایزدی نے ان کا دامن پکڑا اور ان کوتوبہ کی توفیق نصیب ہوئی، ان کے توبہ کی داستان میں کتنوں کے لیے سامان بصیرت ہے، ان کوکسی لڑکی سے عشق ہو گیا تھا؛ مگرخواہش نفس کی تکمیل کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہورہی تھی، ایک دن موقع پاکر اس کے گھر کی دیوار پھاند کراندر داخل ہونا چاہتے تھے کہ کسی خدا کے بندے نے یہ آیت تلاوت کی: أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آَمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَانَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَايَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ(الحدید:۱۶)یعنی: جولوگ ایمان لے آئے ہیں، کیا اُن کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ اُن کے دِل اللہ کے ذِکر کے لیے اور جوحق اُترا ہے اُس کے لیے پسیج جائیں؟ اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ بنیں جن کوپہلے کتاب دی گئی تھی؛ پھراُن پرایک لمبی مدت گذرگئی اور اُن کے دِل سخت ہو گئے اور (آج) اُن میں سے بہت سے نافرمان ہیں؟
کلامِ الہٰی کی یہ دل گداز آواز ان کے کانوں میں پہنچی اور کانوں کے ذریعہ دل میں اُترگئی، ایمان کی دبی ہوئی چنگاریاں بھڑک اُٹھیں، بے اختیار بول اُٹھے:کیوں نہیں میرےپروردگار! وہ وقت آگیا کہ میں بحر معاصی سے نکل کرتیرے دامنِ رحمت میں پناہ لوں۔چنانچہ آپ دیوار سے اتر پڑے اور رات کو ایک سنسان اور بے آباد کھنڈر نما مکان میں جاکر بیٹھ گئے ۔ وہاں ایک قافلہ موجود تھا اور شُرکائے قافلہ میں سے بعض کہہ رہے تھے کہ ہم سفر جاری رکھیں گے اور بعض نے کہا کہ صبح تک یہیں رک جاؤ کیونکہ فضیل بن عیاض ڈاکو اسی اَطراف میں رہتا ہے ، کہیں وہ ہم پر حملہ نہ کر دے۔ آپ نے قافلے والوں کی باتیں سنیں تو غور کرنے لگے اور کہا:(افسوس) میں رات کے وقت بھی گناہ کرتا ہوں اور(میرے گناہوں کی وجہ سے) مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ یہاں مجھ سے خوفزدہ ہو رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ مجھے ان کے پاس اس حال میں لایا ہے کہ میں اب اپنے جرم سے رجوع کر چکا ہوں۔ َّ، میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور اب میں (ساری زندگی) کعبۃ
فضیل کا بیان ہے کہ میں نے دل میں سوچا کہ میں رات بھرمعاصی میں غرق رہتا ہوں اور بندگانِ خدا مجھ سے ڈرتے ہیں؛ حالانکہ خدا نے ان کے درمیان مجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے؛ پھرصدقِ دل سے توبہ کی اور یہ دُعاکی: أَللَّهُمَّ إِنِّيْ قَدْ تَبَّتْ إِلَيْكَ وَجَعَلْتُ تَوْبتَي مجاورة البيت الحرامترجمہ: اے پروردگار! میں تیری طرف پلٹتا ہوں اور اس توبہ کے بعد اپنی زندگی کوتیرے گھر کی خدمت کے لیے مخصوص کرتا ہوں۔ اس توبہ نصوح کے بعد ان کوعلم دین کی تحصیل کا شوق دامن گیر ہوا اور اسی شوق میں وہ ترکِ وطن کرکے کوفہ آئے؛ یہاں امام اعمش شیخ منصور اور بعض دوسرے ائمہ حدیث سے اکتساب فیض کیا؛ پھرحسب وعدہ جوارِ حرم کواپنا مسکن بنایا اور پھراسی کے سایہ میں پوری زندگی بسر کردی۔اس طرح نہ جانے کتنے بندگان خدا ہیں جن کی زندگیوں میں قرآن کی ایک آیت کے ذریعہ انقلاب آگیا۔
تلاوت قرآن میںہمیں لطف کیوں نہیں آتا:
اس لیے کہ ہم نے اندر کے اصلی انسان پر محنت نہیںکی ہے۔ ـ ہم نمازیں پڑھتے ہیں اورخیالوں میں بازار گھوم رہے ہوتے ہیں اور دنیاوی توڑوجوڑ میں لگے ہوتے ہیں۔ ـ کلام اللہ کی تلاوت کررہے ہوتے ہیںاور دل ودماغ کسی بندے کے خیالات الجھا ہوا ہوتا ہے۔ایسے میں لذت سجدہ کہاں سے ملے۔آج ہماری عبادات کی حالت عجیب ہے۔ـ ایسے مواقع بھی آئے کہ امام کو رکعتوں کی تعداد میں سہو ہوا،پلٹ کر پوچھا کتنی رکعت ہوئی تو بھری مسجد میں ایک بندہ صحیح رکعت بتانے والا نہیں، ـ سب غیرحاضر ـ شاید اسی کی طرف ہمارے آقاکا اشارہ ہے کہ مسجدیں بھریں ہوں گی مگر ایک نمازی نہ ہوں گے ـ کسی عارف نے اسی لیے بڑی پیاری بات کہی ہے:
بہ زمیں چوں سجدہ کردم ز زمیں ند ا برآمد
کہ مرا خراب کردی تو بسجدہ ریائی
اور علامہ کہتے ہیں: میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
جب دل صنم خانہ و بت خانہ بن چکا ہو تو لذت سجدہ نہیں ملا کرتی ـ ۔
وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
جن پہ سجدے مچلتے تھے وہ پیشانیاں کہاں گئیں؟ جو اللہ کے ڈر سے کانپتے تھے وہ دل کہاں گئے ـ ۔
تیری محفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی
شب کی آہیں بھی گئیں،صبح کےنالے بھی گئے
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈھ چراغ رخ زیبا لے کر
مسلمانوں کی ذلت کیوجہ اور اس کا علاج:
آج نہ تلقین غزالی ہے اور نہ پیچ وتاب رازی،ہم نے اصلی انسان کے بجائے نقلی انسان پر محنت کی، روح کوچھوڑدیا ،ساری توجہ جسم کی طرف ڈال دی، اپنی حقیقت کو فراموش کیا تو ذلت وخواری ہمارا مقدر بنی۔ایک صوفی منش شاعر جناب انور ؔ صابری نے کیا ہی سبق آموز اشعار کہے ہیں،فرماتے ہیں؎
جس دو ر پہ ناز اں تھی دنیا، ہم اب وہ زمانہ بھول گئے
دنیا کی کہانی یاد رہی، اور اپنا فسانہ بھول گئے
منہ د یکھ لیا آئینے میں، پر داغ نہ د یکھے سینے میں
دل ایسا لگایا جینے میں، مرنے کو مسلماں بھول گئے
اغیار کا جادو چل بھی چکا، ہم ایک تماشا بن بھی گئے
دنیا کا جگانا یاد رہا، خود ہوش میں آنا بھول گئے
فرعون نہیں، شِداد نہیں، کیا دنیا میں قومِ ، عاد نہیں؟
کیا لُوط کی امت یا د نہیں، کیا نوح کا طوفاں بھول گئے؟
وہ ذکرِ حسیں، رحمت کا امیں، کہتے ہیں جسے قرآنِ مُبیں
دنیا کے لیے نئے نغمے سیکھے، اللہ کا ترانہ بھول گئے
انجامِ آزادی کیا کہیے ، بربادی ہی بربادی ہے
جو درس شاہِ بطحا نے دیا، دنیا کو پڑھانا بھول گئے
دنیا کا گھر آباد کیا ، عقبیٰ کا مگر برباد کیا
مشکل میں خدا کو یاد کیا، مشکل ہوئی آساں بھول گئے
اذان تو اب بھی ہوتی ہے مسجد کی فضا میں اے انور !
جس ضرب سے دل ہل جاتے تھے، وہ ضرب لگانا بھول گئے
افسوس !وہ لوگ اب تاریخ کا حصہ اور قصۂ پارینہ بن چکے ،جو رات کے آخری پہر میں ضربیں لگایا کرتے تھے،ـ جن کے دل سینے میںخوف الٰہی سے کانپا کرتے تھے،ـ جن کےہاتھ دعاؤں کے لیے جب اٹھتے تو کائنات عالم میں انقلاب برپا ہوجایا کرتا تھا۔
دعا مومن کا ہتھیار ہے: مرد مجاہد، فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کا دعا کے حوالے سے ایک واقعہ ہمارے لیے بڑا نصیحت آموز ہے۔ عیسائیوں کے ساتھ صلیبی جنگیں ہو رہی ہیں۔ عیسائیوں نے اپنی پوری فوج میدان میں جھونک دی تاکہ ایک ہی وار میں مسلمانوں کو شکست دے دیں۔ مزید برآں کمک کے طور پر ایک بحری بیڑا بھی روانہ کر دیا۔ صلاح الدین ایوبی کو پتہ چلا تو ان کو پریشانی لاحق ہوئی، مسلمان تعداد میں تھوڑے ہیں، سازو سامان میں کم ہیں، کفار کا مقابلہ ہم کیسے کریں گے۔۔۔؟
صلاح الدین ایوبی بیت المقدس میں جاتے ہیں، ساری رات رکوع اور سجدےمیں گزار دیتے ہیں، الله کے سامنے گریہ وزاری کرتے رہتے ہے۔ یہاں تک کہ فجر کی اذاں ہوئی ،نماز پڑھ کر باہر نکلے، ایک نیک اور بزرگ آدمی جاتے ہوئےنظر آئے۔ صلاح الدین ایوبی قریب آتے ہیں، بزرگ کو سلام کر کے کہتے ہیں :حضرت! معلوم ہوا ہے کہ کفار کا ایک بحری بیڑہ چل پڑا ہے جو مسلمانوں پر حملہ کرے گا ہمارے پاس ان سے نمٹنے کے لیےفوج نہیں ہے ،آپ دعا کریں کہ الله تعالیٰ مسلمانوں پرکرم فرمائے۔ وہ صاحبِ نظر تھے، آنکھ اٹھا کر صلاح الدین ایوبی کے چہرے کو دیکھا، اس کی رات کی کیفیات کو بھانپ لیا۔ فرمانے لگے: صلاح الدین! تیرے رات کے آنسوؤں نے دشمن کے بحری بیڑے کو ڈبو دیا ہے۔ واقعی اگلے دن خبر پہنچی کہ دشمن کا بحری بیڑا ڈوب چکا تھا۔ ایک وقت تھا رات کے آخری پہر میں مسلمانوں کے ہاتھ اٹھتے تھےاور الله تعالیٰ دنیا کے جغرافیہ کو بدل دیا کرتا تھا۔ آج فجر میں بھی ہماری آنکھ نہیں کھلتی۔ عیش وعشرت،مرغن غذاؤں کی لذت اور خواب غفلت نے ہمیں عبادات کے مزے سے محروم کر دیاہے۔
نماز فجر یا ہزار روپے: اگر یہ اعلان ہوجائے کہ آج جو جو نماز تہجد یا نماز فجر میں شرکت کرے گا تو اسے ہزارروپے دئیے جائیں گے تو پھرشاید اس دن مسجد میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہومگر ہمیں شاید اللہ ورسول کے احکام وفرامین پر ایسا عقیدہ نہیں جتنا کہ ڈاکٹرز اور معالجین کے نسخے پر اعتبارہے۔صحیح بخاری میں ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ہر رات اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے جبکہ رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے،تو وہ فرماتا ہے: کون ہے مجھ سے دعا کرنے والا تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟ کون ہے مجھ سے استغفار کرنے والا تاکہ میں اس کی مغفرت کروں۔‘‘ اسی حوالے سے فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ(الزمر:۶۷) اور انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔ گویا علامہ اقبالؔ کی زبان میں اللہ پاک یوں فرماتا ہے؎
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں
ایک وقت تھا جب ملک کے بادشاہ کے اندر عبادت، پرہیز گاری اور دینی سمجھ بوجھ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آج کے اس گئے گزرے دور میں آدمی ان واقعات کو سنے تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ چنانچہ عقل کو حیران کردینے والا واقعہ سنیے۔جب حضرت خواجہ قطب
الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ جنازہ تیار ہوا، ایک بڑے میدان میں لایا گیا۔ بے پناہ لوگ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حد نگاہ تک نظر آتا تھا۔ جب جنازہ پڑھنے کا وقت آیا، ایک آدمی آگے بڑھا اور کہنے لگاکہ میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کا وکیل ہوں۔ حضرت نے ایک وصیت کی تھی۔ میں اس مجمعے تک وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمعے پر سناٹا چھاگیا۔ وکیل نے پکار کر کہا۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ وصیت کی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں ہوں:
۱۔ زندگی میںاس کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔
۲۔ اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔
۳۔ اس نے غیر محرم پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو۔
۴۔اتنا عبادت گزار ہو کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں وہ میرا جنازہ پڑھائے۔ جب یہ بات سنائی گئی تو مجمعے پر ایسا سناٹا چھایا کہ جیسے سبھوں کو سانپ سونگھ گیا ہو۔بڑے بڑے علما ومشائخ موجود تھے مگر کافی دیر گزر گئی، کوئی نہ آگے بڑھا۔ آخر کار ایک شخص روتے ہوئے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آئے۔ جنازہ سے چادر اٹھائی اور کہا۔ حضرت! آپ خود تو فوت ہوگئے مگر میرا راز فاش کردیا۔اس کے بعد بھرے مجمعے کے سامنے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں۔ یہ شخص اپنے وقت کے سلطان شمس الدین التمش تھے۔
اللہ کریم ہم سب کو خود کے گریبان میں جھانک کر دیکھنے اور اپنی زندگیوں میں قرآن وسنت کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عمل کی سوکھتی ر گ میں ذرا ساخون شامل کر
مرے ہمدم فقط باتیں بناکر کچھ نہیں ملتا
سید سیف الدین اصدق چشتی
بانی وسربراہ: تحریک پیغام اسلام جمشیدپور