ذکرالہی، صوفیہ کی زندگی اور موجودہ زبوں حالی
قرآن وحدیث میں ذکر الٰہی کی جگہ بجگہ اہمیت وافادیت بیان کی گئی ہے۔ دل کی غفلت اور عدم غفلت انسانی سیرت وکردار پر غیر معمولی طور سےاثر انداز ہوتی ہے۔دل اگر فقط گوشت کا لوتھڑا اور بلڈپمپ ہی ہوتا اور اللہ کی یاد اور اس کے ذکر کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہ ہوتا تو قرآن دلوں کا ذاکر ہونا اور دلوں کا غافل ہونا بیان نہ کرتا ۔معلوم ہوا کہ جس طرح دل انسان کی مادی زندگی کی بقا میں اہمیت رکھتا ہے اسی طرح انسان کی روحانی زندگی کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔صوفیائےکرام کے نزدیک تو دل کی زندگی ہی اصل زندگی ہے اور یہ زندگی اسے اللہ کی یاد اور ذکر سے ملتی ہے ۔جسمانی زندگی میں دل کی سلامتی صرف ظاہری دنیوی حیات کی بقا کا سبب بنتی ہے لیکن جس کا دل یاد الٰہی اور کثرت ذکر سے زندہ ہوجائے اور اس میں خدا کی محبت وعشق کے چراغ روشن ہوجائیں تو وہ اس دنیا کے علاوہ لامحدود زندگی کا باعث ہوجاتا ہے۔پھر اس دل کے سبب انسان کبھی عدم سے آشنا ہی نہیں ہوتا ۔ اسی حقیقت کو اس ایک شعر میں خوب کہاگیا ہے ؎
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
اللہ رب العزت نے انسان کو یہ خوبی عطا فرمائی ہے کہ وہ ایک وقت میں دو باتیں سوچ رہا ہوتا ہے ،کھا پی رہا ہے اور دوستوں سے باتیں بھی کررہا ہے، مگر اس کے دماغ میں مسلسل کسی اور چیز کا خیال چل رہا ہے،مثلاً: گھر میں کوئی حادثہ ہوگیا ،کسی سے کوئی تکرار ہوگئی ،بندہ اپنا کام تو کررہا ہے مگر ذہن ودماغ میں وہی باتیں گردش کررہی ہیں ۔تو معلوم ہوا کہ دنیا کا کام کاج کرتے وقت بھی انسان کا دماغ کسی اور طرف لگا رہتا ہے۔ اسی چیز کا نام ذکر ہے۔تصور دنیا یا معاملات دنیا کے بجاے اگر بندے کا دل اللہ کی طرف لگ جائے تو یہی اللہ پاک کی یاد کہلائے گی۔قرآن کریم نے مذکورہ آیت کریمہ میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ جل شانہ کے مخلص بندے ایک لمحہ کے لیےبھی اللہ کو نہیں بھولتے ۔اسی کو صوفیہ کرام نے کہا ہے : دست بہ کار دل بیار، یعنی تم یہ کیفیت حاصل کرلو کہ ہاتھ کام کاج میں لگے ہوں اور دل اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگا ہو، اور جب یہ چیز حاصل ہوجاتی ہےتو بندۂ خدا کی پوری زندگی ذ کر الٰہی میں گذرجاتی ہے۔
میں نے ایک بڑا پیارا واقعہ کہیں پڑھا تھا کہ مجدد وقت، فاتح ِ قادیانیت اعلیٰ حضرت سید پیر مہر علی شاہ چشتی گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ (م:۱۳۵۶ھ)جو شریعت وطریقت اورعلم وحکمت کے گنجِ گراں مایہ تھے،ایک بارحضرت سیدنا بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے عرس میں پاک پتن شریف پہنچے ہوئے تھے۔ہر سمت ایک وجدوکیف کا سماں طاری تھا، دیوانگان ِ عشق حق فرید، یا فرید کے نعروں میں مست تھے، کہ ایک نوجوان نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آکر عرض کیا کہ حضور والا! کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ لوگ جو بابا صاحب کے نام کا نعرہ لگانے میں لگے ہیں وہ اللہ اللہ کرتے تو ذکر الہی کا ثواب بھی پاتے ! اعلیٰ حضرت نے نظریں اٹھائیں اور فرمایا : میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ آج اللہ بھی ’’فرید فرید ‘‘کررہا ہے ۔اس نوجوان نے بدک کر کہا : حضور! آپ جیسا عالم وقت ایسا کہہ رہا ہے ؟حضرت قبلہ نے نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا! میں یہ از خود نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ اللہ رب العزت نے خود اپنے کلام مقدس میں ارشاد فرمایا ہے:فَاذْکُرُوۡنِیۡۤ اَذْکُرْکُمْ(سورۃ البقرہ:۱۴۶) یعنی تم میرا ذکر کرو میں تمہارا چرچا کروں گا ۔بابا فرید نے اپنی ساری زندگی ’’اللہ اللہ کرکے گذاری تو آج اللہ ان کاذکر اپنے بندوں کی زبان سے کرارہا ہے‘‘۔
معلوم ہوا کہ غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی، سرکارغریب نوازخواجہ معین الدین چشتی،حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی،محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیا،حضرت مخدوم صابر کلیری،مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری،حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی اور دیگر تما م اولیاے امت ،صوفیۂ کرام اور بزرگان دین کے نام کا جو ڈنکا بج رہا اور جو چرچے ہورہے ہیں وہ سب وعدۂ خداوندی’’ فَاذْکُرُوۡنِیۡۤ اَذْکُرْکُمْ‘‘کے تحت ہے۔
اس سلسلے میں اللہ کے پیارے رسول ﷺ کی ایک پیاری حدیث پاک بھی ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو پکار کر فرماتا ہے کہ اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت کرتا ہے اس لیے تو بھی اس سے محبت رکھ۔ چنانچہ جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور اہلِ آسمان میں اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے اس لیے تم سب بھی اس سے محبت کرو چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور زمین میں اس کے لیے قبولیت لکھ دی جاتی ہے۔ (صحیح بخاری ومسلم)
حضرت سید پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ ہی کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ پاک پتن عرس شریف پر حاضری کے ہی موقع پر آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ جیسا عالم بھی اس دروازے کو بہشتی دروازہ سمجھتا ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تم نے یہ حدیث نہیں سُنی ،کہ مؤمن کی قبر’’رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ‘‘ یعنی جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگی؟۔ پھر فرمایا : اگرمومن کی قبر پرلفظ’’جنت‘‘کا اطلاق ہوسکتاہے ،تو اس کے دروازے کو ’’جنتی‘‘کہنے پر کیااعتراض ہے؟
خواجۂ خواجگان ہندالولی حضرت سرکار غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ (م:۶۳۳ھ)کی سیرت میں آتا ہے کہ آپ سمرقند میں مولانا حسام الدین مدنی کے حلقہ ٔ درس میں شامل ہوئے اور اسی درمیان رمضان آیا تو تراویح کے لیے استاذ محترم کے حکم پر مصلی پر پہنچے، تو تلاوت قرآن کے حسن نے ایک عالم کو دیوانہ بنادیا ،نماز فجر کے امام بنے تو مسجد میں جگہ تنگ پڑگئی ،اور آپ جب آرام کرتے تو نور قرآن سےسارا کمرہ روشن رہتا۔یہ ایک خاص حافظ قرآن، عامل قرآن اور ذاکروشاغل بندے کی شان تھی۔
صوفیہ کرام اور اہل ذکر کی صحبت ومجالس غفلت بھرے دلوں کے علاج ومعالجے کے لیے بہترین شفا خانہ ہے۔تعلیماتِ طریقت و تصوف میں صحبت کو اسی لیے اولیت وفوقیت دی جاتی ہے۔صوفیہ کرام اپنی پاکیزہ تعلیمات میں ہمیشہ اسی حقیقت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے آئے ہیں کہ ؎
صحبت صالح کند صالح ترا
صحبت طالع کند طالع ترا
اللہ کے ذکر سے غافل لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے سے دل پر غفلت کا زنگ چڑھتا ہے اور اگر نیک متقی اور اہل ذکر ومحبت کی صحبت میسر آجائے تو غفلت کی تاریکیاں چھٹتی ہیں ۔انسان کا دل نور ایمانی سے زندہ ہوکر اس قدر منور ہوجاتا ہے کہ محبوب کی یاد ، اس کے ذکر اور اس کی محبت کا مسکن بن جاتا ہے ۔پھر جو ایسے صاحب دل لوگوں کی مجلس میں آتا ہے ہدایت کا نور اسے بھی مستنیر کردیتا ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح ایک چراغ سے کئی چراغ جلالیے جائیں اور ہر چراغ اپنی جگہ روشنی کا مکمل ذریعہ بن جائے ۔قلب انسانی بھی چراغ کی مانند ہے ،اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کا ذکر اس کا تیل ہے، جو اسے کبھی مردہ نہیں ہونے دیتا ۔جب یاد الٰہی سے بھرے دل کو عشق کی کوئی چنگاری نصیب ہوجائے اور دل میں محبوب کی محبت کے شعلے بھڑکنے لگیں تو ایسا کشتۂ عشق نہ صرف مرجعِ خلائق بن جاتا ہے، بلکہ اپنے اردگرد ایسے نورانی اثرات چھوڑتا ہے کہ اس کی صحبت میں آکر بیٹھنے یا فقط ان کو دیکھنے والے بھی اس کے عشق کے اسیر ہوکر حیات جاوید پاجاتے ہیں ۔اسی لیے صوفیائے کرام نصیحت کرتےہوئے فرماتے ہیں ؎
گرد مستاں گرد، گر مے کم رسد بوئے رسد
بوۓ او گر کم رسد ، رویتِ ایشاں بس است
یعنی ’’ان مستوں کی قربت حاصل کرو ،اگر تمہیں ان سے جام نہ ملے تو کم از کم اس کی خوشبو تو ملے گی، اگر ان کی تمہیں خوشبو بھی نہ ملے تو بس پھر ان کا ایک نظر دیکھنا تمہارے لیے کافی ہے‘‘۔
اللہ والوں کی صحبت اوران کی مجالس کے فیوض و برکا ت کاکس طرح انکار کیا جاسکتا ہے کہ جب کہ اللہ ورسول کے بڑے واضح فرامین موجود ہیں ۔فرمان باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ(التوبہ:۱۱۹)اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کی صحبت اختیار کرو۔
اور نبی کریمﷺ ارشاد فرماتے ہیں : اِنَّ لُقْمَانَ قَالَ لِابْنِہٖ:یَا بُنَیَّ: عَلَیْکَ بِمُجَالَسَۃِ الْعُلَمَاءِ وَاسْتِمَاعِ کَلَامِ الْحُکَمَاءِ،فَاِنَّ اللہَ عزوجل یُحْیِی الْقُلُوْبَ بِنُوْرِالْحِکْمَۃِ کَمَا یُحْیِی الْاَرْضَ بِوَابِلِ الْمَطْرِ(معجم کبیرللطبرانی)حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی : اےبیٹے!تم پر اہل علم کی مجلس میں بیٹھنا اور اہل حکمت کی باتوں کو بہ غور سننا ضروری ہے ،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو حکمت کے نور سے اس طرح زندہ فرماتا ہے جس طرح زمین کو بارش کے قطروں سے زندہ فرماتا ہے۔اسی مضمون کو مشہور صوفی بزرگ حضرت عارف رومیؔ رحمۃ اللہ علیہ(المتوفی:۶۷۲ھ) نے اپنی معروف زمانہ مثنوی میں یوں سمجھایا ہے ؎
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
یعنی اللہ والوں کی صحبت میں ایک گھڑی کا بیٹھنا بھی عنداللہ سوسال کی بے ریا (خالص) عبادت سے زیادہ باعث اجر ہے۔یہی وجہ تھی کہ قرون اولیٰ کے بعد جب کہ مال ودولت کی حرص وطمع وہوس، منصب وجاہ اور دنیا سے بڑھتی رغبت کی بنا پر ذکر خداوندی سے لوگوں کے دل غافل اور مردہ ہوتے جارہے تھے تو صوفیہ کرام اور اہل اللہ نے خانقاہوں کی بنیاد رکھی ۔انھوں نے نبوی مشن کو پیش نظر رکھ کر بیعت وارادت کا سلسلہ شروع کیا اور ذکر وفکر،خشیت الٰہی، تزکیہ نفس اور سنت نبوی ﷺ سے مردہ وغافل دلوں کو زندگی بخشنے میں مشغول ہوگئے ۔حضرت سیدنا امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی:۱۱۰ھ)نے حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ (المتوفی :۱۳۰ھ )سے فرمایا کہ لوگوں کی تباہی مردہ دلی میں ہے اور مردہ دلی سے مراد دلوں کا دنیا کی طرف راغب ہوجانا ہے۔آپ کی مجلس ،مجلس ذکر ہوتی اور اپنے احباب ومریدین کے ساتھ خلوت نشینی فرماتے ،آیاتِ قرآنی سن کر شدتِ غم سے زاروقطار روتے ،لب ہنسی سے ناآشنا رہتے ،فرماتے محب ہمیشہ مست وبے خود ہوتا ہے ،اسے دیدار محبوب کے سوا کسی چیز سے افاقہ نہیں ہوتا ۔
آپ کے مصاحبین میں سے کسی نے پوچھا:حضور!ہمیں کچھ صحابہ کرام کے بارے میں بتائیں:آپ نے فرمایا کہ صحابہ کرام کی عشق الٰہی میں یہ حالت ہوچکی تھی کہ تم انھیں دیکھ لیتے تو دیوانہ سمجھتے ، مگر تمہاری حالت یہ ہوچکی ہے کہ اگر وہ تمیں دیکھ لیتے تو تمیں مسلمان بھی نہ تصور کرتے۔(تذکرے اور صحبتیں،ص:۴۵)
اللہ اکبر! غور فرمائیں اگر یہ قدسی صفات ہم جیسوں کو دیکھ لیتے تو نہ جانے ان کی رائے کیا ہوتی!آج دنیا بھر میں جو اسلام کی رونق اور بہاریں نظر آرہی ہیں اس میں ان ہی اہل خانقاہ اور صوفیہ کرام رحمھم اللہ کا مرکزی کردار ہے۔انھوں نے دعوت واصلاح،رشدوہدایت،تزکیہ وتصفیہ ، ذکر وفکر اوراپنی نورانی صحبت ومجالس کے ذریعہ کائنات انسانی میں انقلاب برپا کردیا۔آپ سیرت مصطفوی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی پاک زندگیوں میں جو عبادت وریاضت ،خوف وخشیت اور ایمان ویقین کا جلوہ دیکھیں گے ،ان کے بعد من و عن اسی شاہراہ پر چلتی ہوئی یہ مقدس صوفیہ کی جماعت ہے۔یہاں کچھ خلاف شریعت اوربدعت نہیں، بلکہ ان کی راہ ا ورکتاب زندگی میں مکمل قرآن وسنت ہے۔
مگر آج افسوس کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتاہے کہ خانقاہوں کا اصل مقصد ومشن کہیں نہ کہیں گم ہوگیا ہے۔نہ علم ہے نہ عمل،نہ اخلاق ہے نہ آداب ،نہ فکر ہے نہ شعور،نہ احساس خودی نہ خوف خدا۔معمولات طریقت اور آداب خانقاہی کے نام پرکچھ رسومات اور اپنے بزرگوں کی واہ واہی کو ہی مقصدحیات بنا لیا گیا ہے۔ذکر وفکر،مجاہدہ ومحاسبہ،اخلاص وللہیت ،صبروتوکل،مہمان نوازی،اجتناب خودپسندی ،امربالمعروف ،نھی عن المنکر،ظاہروباطن کی اصلاح اور تعلیم وتزکیہ جوان خانقاہوں کا مقصد عظیم تھا وہ قصۂ پارینہ بن چکا اور اس کی جگہ اکثر خانقاہوں میں جاہ وحشمت،منصب واقتدار اور طلب دنیا نے ڈیرہ جمالیا ہے۔علامہ اقبال جیسے صوفیہ اور بزرگوں کے عظیم مداح نے جب ان کے وارثین کی صورت حال کو دیکھاتو جھنجھلا کر بول پڑے ؎
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
مسندِ تلقین و ارشاد اللہ کے شاہیں صفت بندوں کے ایسے نشیمن تھےکہ جہاں وہ خواہشات نفس سے بے نیاز ہوکر لوگوں کے دلوں میں ایمان ویقین اورتقوی وطہارت کی شمع روشن کرنے میں مشغول رہتے تھے مگراب وہ جگہیں زاغوں (کوّوں) کے قبضے میں ہیں ۔ جن کا مقصد عظیم نہیں حقیرہے کیو نکہ تلقین وارشاد کی مسند تو انہیں کسی طرح وراثت میں مل گئی مگر وہ اس عظیم منصب کی قدر نہ سمجھ سکے۔اس لیے علامہ نے ہر قسم کے لومۃ ولائم سے بے پرواہ ہوکر پھر بیان کیا؎
رمز و ايما اس زمانے کے ليے موزوں نہيں
اور آتا بھی نہيں مجھ کو سخن سازی کا فن
قم باذن اللہ کہہ سکتے تھے جو رخصت ہوئے
خانقاہوں ميں مجاور رہ گئے یا گورکن
یعنی ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں اس میں اشاروں، کنایوں اور علامتی گفتگو مناسب نہیں، صاف اور کھری بات کی ضرورت ہے اور مجھے بھی ایسی لگی لپٹی بات کرنا نہیں آتا،سو اپنا مدعا بیان کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو ’’قم باذن اللہ ‘‘یعنی ’’خدا کے حکم سے اٹھو‘‘کہہ کر مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ اب خانقاہوں میں یا تو مجاور رہ گئے ہیں یا پھر قبر کھودنے والے۔مراد یہ کہ یہ خانقاہیں جو کبھی ان درویشوں کا ٹھکانہ ہوا کرتی تھیں جن کے دل عشقِ حقیقی سے معمور ہواکرتے تھے اور قدرت نے ان کے اندر ناممکنات کو ممکن بنانے کی صلاحیت ودیعت کر دی تھی اب ان ہستیوں سے محروم ہو چکی ہیں۔ اب ان میں مفادات کے غلام رہ گئے ہیں ،قبروں کی تجارت رہ گئی ہے ،’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نعرے ہیںاور طلب دنیا کی ہوس ہے اور بس!
اگر آج بھی وارثین صوفیہ اپنے بزرگوں کے سچے نمائندہ بن جائیں،اپنے بزرگوں کی کچھ صفات پیدا کرلیں، حصول علم اور خدمت دین کا جذبہ پیدا ہوجائےتو ان کی اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اسلام کی عظمت رفتہ اورمسلمانوں کوان کا کھویا ہواوقار واپس مل سکتاہے؎
جس کشتی کے پتواروں کو خود ملاحوں نے توڑا ہو
اس کشتی کے ہم دردوں کو پھر شکوۂ طوفاں کیا ہوگا
سید سیف الدین اصدق چشتی