Paigham-e-Islam

شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن

الشیخ حافظ اسماعیل ہنیہ علیہ الرحمہ

شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن

ایک چھوٹے سےعرب ملک فلسطین پر یہودی سلطنت اسرائیل اپنے تمام ہم نواؤں کے ساتھ مل کر برسوں سےظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔اس نے لاکھوں بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں کو اب تک شہید کردیا ہے۔اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف دوملکوں کی لڑائی ہے جو زمین کے لیے لڑی جارہی ہے۔جی نہیں!یہ حق اورباطل کی لڑائی ہے ۔یہ ظالم اورمظلوم کی لڑائی ہے۔یہ کفراوراسلام کی لڑائی ہے۔یہ فلسطینی جیالے صرف اپنے لیے نہیں لڑرہے ہیں بلکہ وہ پورے عالم اسلام کی جانب سےفرض کفایہ ادا کررہے ہیں۔اس لیے ان کی حمایت کرنا،ان کادرد اپنے دل میں رکھنا اورانھیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا تمام دنیا کے مسلمانوں پر لازم ہے۔اس لیے کہ فلسطین وہ مقدس سرزمین ہے جہاں ہمارا قبلہ ٔ اول ’’مسجد اقصیٰ ‘‘ہے۔فلسطین کے پرانے شہر یروشلم میں واقع ’’مسجدالاقصیٰ ‘‘  اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ نے پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیاہے۔’’ مسجد اقصیٰ‘‘ اسلام کی سب سے خاص تاریخی یادگاروں میں سے ایک ہے۔پوری تاریخ میں’’ مسجد اقصی‘‘ کو توحید کے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔یہاں بے شمار انبیائے کرام کےگھر تھے۔ یہ اسلام کا پہلا قبلہ بھی بنا،جس کی جانب منھ کرکے مسلمانوں نے تقریباً ۱۷؍مہینے نماز ادا کی ہے۔بعد میں حضورﷺ کی چاہت پر اللہ جل شانہ نے کعبہ کو قبلہ بنانے کی اجازت عطافرمادی اورحضور ﷺعین حالت نماز میں مسجد اقصیٰ سے کعبہ کی طرف گھوم گئے۔اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت خوب فرمایا ہے؎
      خدا کی  رضا  چاہتے  ہیں  دوعالم
خدا   چاہتا   ہے   رضائے   محمد
اس واقعہ کے بعد رسول اکرمﷺ نے مسلمانوں کو آگاہ فرمایاتھاکہ ’’اگرچہ قبلہ بدل گیا ہےلیکن اس سے مسلمانوں کے لیے مسجد اقصیٰ کی اہمیت کم نہیں ہوتی‘‘۔بھلا کیوں کر اس کی اہمیت کم ہوسکتی ہے کہ ’’مسجد اقصیٰ‘‘ ہی کو وہ شرف حاصل ہےکہ جہاں سیدالانبیاﷺنے سفرمعراج کے موقع پر تمام انبیاورسل کی امامت فرمائی ہے۔اللہ کے رسول ﷺنے اپنے صحابہ کو اپنی زندگی میں تین اہم مساجد کی زیارت کرنے کا خاص حکم دیا: مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام ،مدینہ منورہ میں مسجد نبوی، اوریروشلم میں مسجد اقصیٰ۔ ان تینوں مساجد میں ہر مسجد کی نماز سےثواب بھی کئی گنا زیادہ ہے۔چنانچہ’’ مسجد اقصیٰ‘‘ میں نماز پڑھنے کا ثواب عام مسجدوں سے پانچ سو گنا زیادہ ہے۔’’مسجد اقصیٰ ‘‘خانہ کعبہ کے علاوہ وہ واحد مسجد ہے جس کا قرآن پاک میں نام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے:سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا، اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔یعنی’’پاک ہے وہ (اللہ) جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر کرایا جس کے اطراف میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘(سورہ اسرا:۱)
ان ہی وجوہات کی بنا پر ’’مسجد اقصیٰ ‘‘کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔مگر گذشتہ ۷۰؍۷۵؍سالوں سے یہودیوں نے اسلا م دشمن طاقتوں سے مل کر فلسطین کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور ان کی زمینوں پر آہستہ آہستہ قابض ہوتے چلے گئے۔نہ جانےکتنی خوں ریزیاں کیں،قتل عام کیا،مظالم ڈھائے،سینکڑوں فلسطینی جوانوںکو آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھےڈال رکھاہے ،یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ کے تقدس کو بھی وہ بدبخت پامال کررہے ہیں۔ابھی حالیہ ۳۱؍جولائی ۲۰۲۴ءکو بطل حریت،امیرالمجاہدین حضرت شیخ حافظ اسماعیل ہانیہ رحمۃ اللہ علیہ کو ایران میں اسرائیل کی سیکریٹ ایجنسی ’’موساد‘‘ نے مسلم غداروں کی مدد سے شہید کردیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون
مختصر تعارف: آپ کامکمل نام ’’اسماعیل عبد السلام احمد ہنیہ‘‘ ہے ۔ مئی۱۹۶۳ء میں فلسطین غزہ پٹی کے الشاطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، جہاں وہ پہلی بار حماس کے ساتھ منسلک ہوئے اور ۱۹۸۷ء میں عربی ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ ۲۰۰۹ء میں اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازے گئے۔۱۹۹۷ ء میں حماس کے دفتر کے سربراہ مقرر ہوئے۔حماس یا ’’تحریک مزاحمت اسلامیہ‘‘ فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے ، جس کی بنیاد ۱۹۸۷ء میں ایک روحانی پیشوا حضرت شیخ احمد یاسین رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی تھی۔’’حماس‘‘ انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے۔پہلا معاشرتی امور جیسے کہ اسکولوں ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کے لیے مختص ہے اور دوسرا گروہ اس کی عسکری شاخ، شہید عزالدین القسام بریگیڈ ہے جو فلسطین کا دفاع کرتی ہے۔’’ حماس‘‘ کے قیام کی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر ہونی والی ایک ریلی میں چالیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔اس جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے بانی شیخ احمد یاسین شہید نے ۲۰۲۵ء تک اسرائیل کے صفحہ ہستی سے ختم ہوجانے کی پیشین گوئی کی تھی۔اللہ کرے ان کی یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہو۔
قید اور جلاوطنی:  ۱۹۸۸ء میںفلسطین کے غزہ شہر میں’’حماس‘‘ کے ایک اہم مزاحمتی تحریک کے طور پر سامنے آنے کے بعدشیخ اسماعیل ہنیہ کو دوبارہ حراست میں لیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ جس کے بعد انھیں حماس کے رہنماؤں کے ایک گروپ کے ساتھ ’’لبنان فلسطینی‘‘ سرحد پر مرج الظہور میں جلاوطن کر دیا گیا، جہاں انھوں نے ۱۹۹۲ء میں ایک پورا سال جلاوطنی میں گزارا۔بہرحال ! اپنے علم وفضل ،ذہانت وفطانت ،سیاسی تدبر،جذبۂ ایمانی ،وطن سے محبت اورسرفروشانہ اقدام کی بنا پر فلسطین کے ایک پناہ گزیں کیمپ سے نکل کرحافظ اسماعیل ہانیہ ملک کے وزیر اعظم اور حماس جیسی جیالی تنظیم کے سربراہ اعلیٰ کے منصب جلیلہ تک پہنچتے ہیں اور پھر بارگاہ خداوندی سے شہادت عظمیٰ کامنصب انھیں تفویض کیا جاتا ہے۔
تربیت اورپس منظر :  حضرت شیخ اسماعیل ہانیہ اپنے ایک انٹرویو میں اپنا تعارف خود کچھ اس طرح کراتے ہیں کہ ’’میرا تعلق صوفیہ کرام کے خاندان سے ہے ،میرے والد گرامی ایک شیخ طریقت تھے، وہ صوفیہ و اولیا کے سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے، ہمارے گھر کے قریب روحانی درس گاہ یعنی خانقاہ تھی، ہم بچپن میں محافلِ ذکراورتعزیت میں شرکت کرتے تھے ،یعنی قل خوانی کی محافل میں جہاںقرآن مجید پڑھا جاتا تھا ۔اسی طرح میلاد کی محافل ہوتی تھیں۔ والد گرامی گھر کے ساتھ والی مسجد میں اذان بھی دیتے تھے،سب کو نماز فجر سے پہلے اٹھاتے تھےاورہم ان کے ساتھ نماز فجر ادا کرتے تھے ۔یہ آپ کے والدگرامی کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ آپ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ علمی،سیاسی اور انقلابی دنیا میں بھی اپنا ایک مقام پیدا کیا۔رمضان المبارک میں مصلی ٔ امامت پر کھڑے ہوکرجب تراویح کی نماز میں قرآن پڑھتے تو ایک سماں بندھ جاتا ۔بانیٔ حماس اورروحانی پیشواحضرت شیخ احمدیٰسین شہیدرحمۃ اللہ علیہ(م:۲۰۰۴ء)  جن کا یہ قول مشہور تھا کہ ’’ہم نے اس راہ کا انتخاب کیا ہے جس کا اختتام فتح یا شہادت ہے‘‘۔ان کی تربیت خاص نے اسماعیل ہنیہ کی زندگی میں مزید نکھار پیدا کردیا۔لاکھوں فلسطینی نوجوانوں کے ساتھ آپ بھی ان سے متاثر اور قریب ہوئے ،یہاں تک کہ اپنی قابلیت وصلاحیت کی بنا پر ان کے دست راست بن گئے۔شہید ہا نیہ تصوف میں سلسلہ عالیہ شاذلیہ سے تعلق رکھتے تھے ،جب کہ فقہ میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد تھے ۔آپ ایک سچے اہل سنت،صوفی مشرب اورمرد مومن تھے ۔جولوگ تصوف ،خانقاہیت اور اہل طریقت پرجمودوتعطل، عزلت پسندی ،جذبۂ جہاد سے عاری اورسماج وسوسائٹی سے کٹ کر زندگی گذارنے کا الزام لگاتے ہیں ،اگروہ تعصب کی عینک اتارکر تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں توانھیں ایک نہیں ہزاروں اسماعیل ہنیہ جیسی عظیم صوفی شخصیات وقت کی طاغوتی طاقتوں سے لوہا لیتی نظر آئیں گی۔بے شک!اللہ جل شانہ نے اسماعیل ہنیہ رحمہ اللہ کو جو خوبیاں اور کمالات عطا فرمائے تھے وہ کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں ۔شاعر مشرق علامہ اقبالؔ رحمہ اللہ نے گرچہ حضرت طارق بن زیاد جیسے جاں باز مجاہدین کے لیے یہ اشعار لکھے ہوں، جنھوں نے اندلس کی سرزمین پر فتح ونصرت کے جھنڈے گاڑے تھے۔لیکن شیخ ابراہیم ہنیہ جیسے مردانِ ِ حق پر بھی یہ تمام اشعار صادق آتے ہیں۔فرماتے ہیں؎
یہ غازی یہ تیرے  پر اسرار  بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے  ذوق  خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے  صحرا  و  دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے  رائی
دو عالم  سے کرتی  ہے  بیگانہ  دل کو
عجب   چیز   ہے   لذت   آشنائی
شہادت ہے مطلوب  و  مقصود مومن
نہ   مال  غنیمت  نہ  کشور  کشائی
  حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ و علیہ السلام کا ایک تاریخی قول ہے: إنّي لا أرى المَوتَ إلاّ سَعادَةً، ولا الحَياةَ معَ الظالِمينَ إلاّ بَرَما،یعنی ’’میں (راہ حق میں) مرنے کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو ننگ و عار شمار کرتا ہوں‘‘۔ بطل حریت حافظ اسماعیل ھنیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’ہم وہ لوگ ہیں جو موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جیسے ہمارے دشمن زندگی سے پیار کرتے ہیں‘‘۔ آپ کا یہ جملہ چیخ چیخ اعلان کر رہا ہے کہ وہ ایک سچا حسینی تھا،حسینی مشن پر کام کررہاتھا،حسینیت اس کے رگ وپےمیں بسی تھی ۔حسین اعظم کی راہ پر چلتے ہوئے ان کے خاندان کے تقریباً ۶۰؍قریبی خونی رشتہ داروں نے جام شہادت نوش کیا لیکن ان کے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی تزلزل نہ آیا۔نصیبہ تو دیکھیں کہ شہادت بھی اسی محرم الحرام کے مہینے میں ہوئی جو امام عالی مقام سیدنا حسین کی شہادت کا مہینہ ہے۔بعد شہاد ت آخری دیدارکے وقت ان کی والدہ ،اہلیہ ،بیٹی اوردیگر قریبی خواتین اہل خانہ کا صبرواستقلال ،شہید کی ماں،بیوی ،بہن،بھتیجی اور بیٹی ہونے پر کیاجانے والا فخراورانھیں الوداع کہنے کا منظرصحابیات رسول ﷺکی یاد دلارہاتھا ۔ مقدس صحابیات کی قربانی کے حوالے سے پڑھی اور سنی جانے والی رواتیوں کی صداقت پر اکثر وبیشتر فلسطین کی جاں بازخواتین اپنے کرداروعمل سے مہرتصدیق لگاتی نظر آتی ہیں ۔سلام ہے ایسی خواتین اسلام پر جوزمانے کوہمت وجرأت اورایمان ویقین کا پیغام دیتی نظر آتی ہوں؎
نہ  انتظار  کرو  ان  کا  اے  عزا  دارو !
شہید  جاتے  ہیں  جنت کو  گھر نہیں آتے
اس امت میںجہاں بے ضمیروں،میرجعفروں اور ایمان فروشوں کی کمی نہیں، وہیں اسی امت میںشیخ اسماعیل ھنیہ جیسے نڈر، بیباک، راہ حق میں سب کچھ لٹادینے والے سرفروشوں کا دستہ بھی موجودہے۔ یہی رجال دین اس امت کا کل سرمایہ ہیں۔ جو جان دے دیتے ہیں لیکن اصولوں پر سمجھوتہ ،قوم وملت کودغا اور دین کی سودے بازی نہیں کرتے۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ جو شخص اُن کو رسوا کرنا چاہے گا وہ اُن کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ وہ اسی طرح ثابت قدم رہیں گے حتی کہ قیامت آجائے گی۔ (صحیح مسلم)    حافظ اسماعیل ھنیہ جیسے جاں باز زندہ رہتے ہیں تو غازی بن کر اور موت آتی ہے تو شہید کہلاتے ہیں۔یہ شہید وطن بھی ہیں،شہیدملت بھی،یہ شہید قوم بھی ہیں اور شہید اسلام بھی۔ان کوجو دہشت گرد کہے تو اسے پھر اپنے وطن عزیز ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی تمام شخصیتوں کو دہشت گرد کہنا ہوگا ۔چاہے وہ گاندھی ہوں یانہرو،پٹیل ہوں یا آزاد ،رام پرساد بسمل ہوں یا اشفاق اللہ خان،بھگت سنگھ ہوں یا سبھاش چندر بوس ۔کیا یہ سب دہشت گرد تھے ؟بالکل نہیں! تو ماننا پڑے گا کہ اسماعیل ھنیہ جیسے جیالوں کو بھی دہشت گرد کہنا ساری دنیا کے مجاہدین آزادی کی توہین ہے۔جسے کوئی بھی سچا اورحق پسندانسان برداشت نہیں کرسکتا۔اللہ جل شانہ قیامت تک باطل کو لرزہ براندام کردینے والا ان جیسا کوئی نہ کوئی مرد مجاہد پیدا کرتا رہے گا۔ ان شاءاللہ ان کی شہادت سے حماس مجاہدین کے ہمت و حوصلے میں اضافہ ہی ہوگا کمی نہیں۔ اللہ کریم اپنے حبیب مکرم ﷺکے صدقے ان کی شہادت قبول کرے، انھیں بلندی درجات بخشے، بے ضمیر مسلم حکمرانوں کو ان کی زندگی سے درس لینے کی توفیق دے اور فلسطینی کاز کے لیے ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ہمارےدین اور ملک پر کوئی آنچ آجائے تو یہی جذبۂ شہادت اللہ ہمارے اندر بھی پیدا فرمادے۔
     آمین یارب العالمین                                                                 لاکھ  ابھرے پر کبھی  باطل  ابھر سکتا  نہیں
موت  سے بھی  زندہ وجاوید  مرسکتا  نہیں
ابر  رحمت  تیری  مرقد  پہ گہر  باری کرے
حشر تک  شان کریمی ناز  برداری  کرے
                            سید سیف الدین اصدق چشتی
              بانی وسربراہ: تحریک پیغام اسلام جمشید پور