فروغِ سائنس میں مسلمانوں کا کردار
سائنس کے لغوی معنی علم وحکمت کے ہیں اور عرف عام میں حقائق کائنات کے مطالعہ کانام سائنس ہے۔ قرآن حکیم ایمان والوں کی یہی صفت بتاتے ہوئے اعلان فرماتا ہے:یتفکرون فی خلق السمٰوات و الارض(سورہ:)کہ’’ وہ زمین وآسمان کی بناوٹ پر غور وفکر کرتے ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں قرآن میں جوبات نظری طور پر کہی گئی ہے، کائنات اس کی واقعاتی دلیل ہے اس اعتبار سے مانناپڑے گا کہ سائنس قرآن کا علم کلام ہے کیونکہ سائنس کسی انسان کے خود ساختہ علم کا نام نہیں بلکہ وہ سلطنت الٰہیہ میں پھیلی ہوئی اشیاء کی حقیقتوں کی تلاش کا نام ہے۔ان اشیاء کا جو حصہ بھی سائنس دریافت کرتی ہے وہ خدا کی کارفرمائیوں کی ایک جھلک ہوتی ہے۔ وہ خداکی نشانیوں میں سے ایک نشانی کا انسانی علم میں آناہوتا ہے۔سائنس داں کے پیش نظر علم برائے علم ہوتا ہے اور مومن کے پیش نظر علم برائے مقصد ۔سائنس داں کا عمل صرف تحقیق کیلئے ہوتا ہے اور مومن کاعمل عبرت کے لیے ۔سائنس داں اضافۂ علم پر مطمئن ہوتا ہے اور مومن اضافۂ ایمان پر۔سائنس داں کیلئے سائنس برائے تعمیر دنیاہے مگر مومن کیلئے سائنس ایک علمی ہتھیار ہے جس سے وہ دعوت حق کی جدوجہد میں کام لیتا ہے اور اپنی بات کو دلائل کی روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کرتاہے۔
اس حقیت کوفراموش نہیں کیا جاسکتا کہ سائنس کے عروج وارتقامیں مسلمانوں کا نمایاں کردار رہاہے۔ظہور اسلام سے قبل تعلیم خواص کی چیز تصور کی جاتی تھی لیکن اسلام نے تعلیم کو محدود دائرے سے نکال کرآفاقی حدود میں داخل کردیا۔ اقوام عالم کے سامنے اسلام نے ہی تعلیمی مراکز کے قیام کا تصور پیش کیا ہے۔ آج کی ترقی یافتہ قومیں جب جہل وظلمت کا شکار تھیں، اس وقت بغداد، نیشاپور، قرطبہ، غرناطہ، قاہرہ وغیرہ جیسے اسلام کے بین الاقوامی علمی سنٹرزنے اپنی فکری تابشوںسے شاہرئہ علم کو روشن کررکھا تھا۔یورپ کے ملحدخیال رائٹرز کے مطابق’’قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک جب مذہب کا دورتھا انسان کوئی ترقی نہ کرسکا، انسان کی تمام ترقیاں حالیہ چند صدیوں میں ہوئی ہیں جبکہ مذہب کا غلبہ ختم ہوااور سائنس کا دور شروع ہوا‘‘۔
یہ بات تھوڑی لفظی ترمیم کے ساتھ صحیح ہے’’زمانۂ قدیم میں جو غلبہ تھا وہ حقیقی مذہب کا غلبہ نہیں بلکہ مشرکانہ مذہب کا غلبہ تھااور یہی مشرکانہ مذہب زمانۂ قدیم میں انسانی عروج کیلئے رکاوٹ بنارہا نہ کہ حقیقی مذہب‘‘ کیونکہ حقیقی مذہب تو موحدانہ مذہب ہے۔زمین پرانسان ہزاروں سال سے آباد ہے مگر معلوم تاریخ کے مطابق اسلام سے پہلے ہردور میں انسان کے اوپر شرک کا غلبہ تھا اور یہی شرک مظاہر فطرت پر تحقیق کرنے میں مانع رہاکیونکہ شرک کے عقیدہ کے تحت فطرت کے مظاہر پر ستش کی چیز بنے ہوئے تھے، جبکہ سائنس کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جبکہ ان مظاہر کو تحقیق وتسخیر کی چیز سمجھاجائے۔ چاند کو دیوتا سمجھنے والا انسان اس پر قدم رکھنے کا تصور کب کرسکتا ہے؟ سیلاب کو خداکا جز سمجھنے والے کے لیےکیوں کرممکن ہے کہ وہ اسے قابو میں لاکر بجلی پیدا کرے! اور سورج کو معبود کا مقام دینے والے اس کی تسخیر کا حوصلہ کہاں پاسکتے ہیں۔تمدنی ترقیاں فطرت کی تسخیر کا نتیجہ ہیں اور زمانۂ قدیم میں انسان نے فطرت کی چیز وں کو معبود بنارکھاتھا اور معبود تحقیق وتسخیری نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔
ساتویں صدی عیسوی میںپیغمبر اسلامﷺ کے ذریعہ جو ہماگیر انقلاب آیا اس نے پہلی بار تاریخ کودین حق کا غلبہ منوایا۔ تو حید ورسالت کے غلبے کے بعد یہ ہواکہ فطرت کی چیزیں جو اس سے پہلے پرستش کی چیزیں بنی ہوئی تھیں وہ اب قابل تسخیر بن گئیں۔ خدائی کلام نے متعدد مقامات پر مختلف انداز وکیفیات میں اعلان عام کردیا:
وَ سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ دَآىٕبَیْنِۚ (ابراہیم:۳۳)
’’تمہارے لئے چاند وسورج مسخرکردیئے جو برابرچل رہیں‘‘
وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ (ابراہیم:۳۳)
’’اور تمہارے لیے رات ودن مسخرکیے‘‘
وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُؕ
’’اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کے سب تمہارے لیے مسخر کردئیے گئے‘‘
اور آگے فرمایا گیا:اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(الجاثیہ:۱۳)’
’بے شک اس میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے نشا نیاں ہیں‘‘۔
مغرب نے جس انقلاب کو سائنس کی طرف منسوب کیاہے حقیقتاً وہ انقلاب اسلام کالایا ہواہے ۔پیغمبر اسلام ﷺ نے شب معراج مظاہر فطرت کو اپنے قدموں سے فیضیاب کرکے تسخیر کائنات کی بنیاد رکھی ہے ؎
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے ہمیں
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
یہ درست ہے کہ اسلام اس لیےنہیں آیا کے وہ دنیا کے سامنے سائنس وٹکنالوجی پیش کرے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ اگر اسلام نہ آتا تو سائنسی ترقیات کا دروازہ انسان پر کبھی نہ کھلتا۔قرآن قدم قدم پر انسان کو دعوت غوروفکر اور تسخیر کائنات کی ترغیب دیتا ہے اگر دین حق تحقیق وجستجو پر انسان کونہ ابھارتا تو سینکڑوں ایجادات تکمیل کی سرحدوں سے نہ گذرتیں۔قرآن حکیم اپنی لافانی آواز میں برسہابرس سے انسان کو جھنجھوڑ رہاہے کہ اٹھو اور دیدئہ بینا سے مشاہدئہ کائنات کرو!:
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْ،وَ اِلَى السَّمَآءِ كَیْفَ رُفِعَتْ،
کیا اونٹ کو نہیں دیکھتے کیسے بنایا گیااور آسمان کو کیسے بلند کیا گیا؟
وَ اِلَى الْجِبَالِ كَیْفَ نُصِبَتْ،وَ اِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْ،
اور پہاڑوں کو کیسے نصب کیا گیا اور زمین کس طرح بچھائی گئی؟(الغاشیہ:۱۷،۱۸،۱۹،۲۰)
آسمان و زمین کی پیدائش اور رات ودن پر غور کرنے کی اس انداز میں دعوت دیتا ہے :
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ(آل عمران:۱۹۰)
’’بلاشبہ ! آسمان وزمین کی پیدائش اور رات ودن کے باری باری آنے میںعقل مندوں کے لیےنشانیاں ہیں‘‘۔
آسمانی مناظر قدرت کے مشاہدہ، اجرامِ فلکی کی اپنے مدار میں تبدیلیوں کی پیمائش وتحقیق اور گرد ش لیل ونہار کے مطالعہ پر حکمت والی کتاب نے کچھ اس طرح توجہ دلائی ہے: هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَؕ-مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّۚ-یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(یونس:۵) ’’ وہی ہے جس نے سورج کو جگمگاتا بنایا اور چاند کو تابانی عطاکی، اور اس کیلئے منزلیں ٹہرائیں کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب جانو، اللہ نے ان سب کو بامقصد بنایااور تفصیلی نشانیاں علم والوں کے لیے پیش کیں‘‘۔
نبی اکرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’رموز کائنات میں ایک گھنٹے کا تفکر وتدبر ستر برس کی عبادت سے بہتر ہے۔ اور ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا ’’علماء کی گفتگوسننا اور علم وحکمت کی باتیں دلوں میں جاگزیں کرنا مذہبی امور میں مصروف رہنے سے کہیں بہتر ہے۔قرآن وحدیث کے ان ہی اشارات نے مشہور مغربی مفکراور معروف ادیب وڈرامہ نویس جارج برناڈشاکواس قدر متاثر کیا کہ وہ برملا پکاراٹھا۔
IN THE NEXT CENTURY THE WORLD RELIGINO WILL BE ISLAM AND ISLAM ONLY(1935,INMUMBASA) (یعنی آئندہ سوسال بعد دنیا کا مذہب صرف اسلام ہوگا۔)
جوخرمن باطل ہے وہ جل جائے گاایک دن
توحید کے اٹھتے ہوئے شعلوں کی لپک سے
ذرائع ابلاغ کے مطابق یوروپ و امریکہ کی سنگلاخ زمین سے بھی جس طرح اسلام کی نرم کونپلیں پھوٹ رہی ہیں اس سے مسٹر شاکی دور بینی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔سائنس اور مذہب کے تضاد کا مفروضہ صرف غلط فہمیوں کی بنیاد پر قائم ہے ورنہ تحصیل علوم سائنس تومسلمانوں کا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ دین اسلام ہمیں حیاتیات ونفسیات اور ارضیات وفلکیات کے مسائل سے آگاہ کرتاہے۔ قرآن ریاضی وجغرافیہ،ہندسہ وہئیت، سیاسیات و معاشیات، طب وجراحت اور دیگر علوم کی ترغیب دیتے ہوئے منزل کا پتہ بھی بتاتاہے۔ مغربی ممالک کی تجربہ گاہوں بلکہ وجود باری تعالیٰ کی منکر ریاستوں کی لیبارٹریوں اور لائبریریوں میں سب سے اوپر جوکتاب رکھی ہوتی ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ قرآن حکیم ہے۔
سائنس دانوں کو صور اسرافیل سے ایٹم کا اشارہ ملا۔ سورئہ ابابیل سے فضائی بموں، وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىۚ( اور اے حبیب مکرم!جب آپ نے خاک پھینکی تو آپ نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔الانفال:۱۷)کی آیت کریمہ سے آنسو گیس اور دھواں دھار گولوں کی بات چلی۔اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صٰٓفّٰتٍ وَّ یَقْبِضْنَ(اور کیا انھوں نے اپنے اوپر پر پھیلاتے ہوئے اور سمیٹتے ہوئے پرندے نہ دیکھے۔الملک :۱۹)ے ہوائی جہاز کا پہلو نکلا۔ واقعہ ’’معراج اور براق النبی‘‘ کی پرواز سے شمس وقمرکی تسخیر کا حوصلہ پیدا ہوا۔ ’’یاساریہ الجبل‘‘ کی کرامت سے ریڈیو اور وائرلیس کامفہوم ہویداہوا۔سرکار دوعالم کے جسم اطہر کو گنبد خضریٰ سے نکالنے کی ناپاک سازش کے موقعے پر نصرانیوں کی کریہہ شکلیں اس دور کے نیک دل مسلمان حاکم نورالدین زنگی کو دکھا یاجانا ٹیلی ویژن کی بنیاد قرار پایا۔ لاشوں کوسڑنے اورگلنے سے بچانے کا نسخہ قرآن حکیم میں ارشاد فرمائے گئے’’واقعۂ فرعون ‘‘ سے متعلق آیت: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةًؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ(آج ہم تیری لاش کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بن جائے اور بیشک لوگ ہماری نشانیوں سے ضرور غافل ہیں ۔یونس:۹۲) سے حاصل ہوا۔ یہ عقیدہ کہ لوگ روز محشر اپنے اعمال وافعال کو دیکھ اور زبان سے اداکیے گئے الفاظ کو من عن سْن سکیں گے ایک ایسا تصور تھا جس سے ٹیپ ریکارڈراور کیمرے کی بنیاد استوارہوئیں۔
نبی کریمﷺ کے اس ارشاد نے کہ’’ کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا علاج موجود نہ ہو‘‘۔ مریضوں کی تسلی وتشفی، تحقیق وتجسس کا جذبہ اور طب وحکمت کی دنیا میں انکشافات کے کئی نئے دروازے کھول دیئے ؎
ہیں جس قدر انسان کی ترقی کے مراتب
پیغمبر اسلام کے آئین سے نکلے
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ فروغ سائنس میں دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں بلکہ سب سے آگے ہے اور یہ بات بھی ایک امر مسلمہ ہے کہ جہان رنگ وبو کے سر بستہ رموزواسرار کو بے نقاب کرنے میں جو کردار مسلمانوں کا ہے وہ کسی اور قوم کا نہیں ۔ جب عیسائی دنیا دریائوں میں سفر کرنے کو ناقابل عفو گناہ اور تخلیق کائنات پر غوروفکر کرنے کو ایک جرم عظیم خیال کرتی تھی،مسلمان اس وقت مشاہدات میں مگن اور سمندروں کو پامال کرنے کی فکر میں تھے۔تاریخ کے جس دور کو مورخین یورپ’’Darkages ‘‘یعنی تاریک دورکے نام سے یادکرتے ہیں بلاشبہ! وہ دیگر اقوام کیلئے تو تاریک تھا مگر اسلامی دنیا کا وہ نہایت تابندہ دور تھا۔ خود دنیائے یورپ کو اس بات کا اعتراف ہے ۔ ورلڈ بک انسائیکلو پیڈیا کا مقالہ نگار’’ڈارک ایجز‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتاہے۔
The Term ”Darkages” Cannot be Applied to the splendid Arab Culture Which spread over north africa and in to spain.(P. 30)
(یعنی تاریک دور کی اصطلاح شاندار عرب کلچر پر چسپا ں نہیں ہوتی جو اس زمانہ میں شمالی افریقہ اور اسپین میں پھیلا ہواتھا۔)
ساتویں صدی عیسوی سے تیرہویںصدی عیسوی کے درمیان جس دور کواہل یورپ ’’تاریک دور‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اسی دور میں مسلم سائنس داں دنیا کے نقشے پہ چھائے رہے ۔مندرجہ ذیل فہرست سے اس کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
(۱)ابواسحٰق ابراہیم بن جندب(متوفی۱۵۷ھ/۷۷۶ء)دوربین Telescopeکا موجد۔
(۲)جابر بن حیان(متوفی۱۹۸ھ/۸۱۷ء)علم کیمیاکا محقق اور بے شمار کیمیائی مرکبات کاموجد۔
(۳)عبد المالک اسمعی(متوفی۲۱۳ھ/ ۸۳۱ء)علم حیوانیات اور نباتات پر لکھی جانے والی سب سے پہلی پانچ کتا بوںکامصنف۔
(۴)حکیم یحییٰ منصور(متوفی۲۱۴ھ/۸۳۲ء) دنیاکی پہلی رسدگاہ (Observatory)کا صدراورAstronomical Tables کا موجد۔
(۵)محمد بن موسیٰ خوارزمی(متوفی۲۳۲ھ/۸۵۰ء)الجبرے کا موجد الجبرومقابلہ اور علم الحساب کامصنف۔
(۶) احمد بن موسیٰ شاکر(متوفی۲۴۰ھ/۸۵۸ء) دنیا کا پہلا میکنیکل انجینٔیراور علم میکانیت پر پہلی کتاب کا مصنف۔
(۷) ابوعباس احمد بن کثیر (متوفی۲۴۰ھ/۸۶۳ء)زمین کا صحیح محیط(Circumffrence)معلوم کرنے والا پہلا سائنس داں
(۸)ابو یوسف بعقوب بن اسحاق کندی(متوفی۲۵۴ھ/۸۷۳ء)مسلمانوں کا پہلا فلسفی جس نے مغرب کو حیرت زدہ کردیا۔
(۹)ابوبکر محمد زکریا رازی(متوفی۳۰۸ھ/۹۳۲ء) ابتدائی طبی امداد،میزان طبعی،الکحل کادریافت کرنے والا، طب کاامام۔
(۱۰)حکیم ابو نصر محمد بن فارابی(متوفی۳۰۸ھ/۹۵۰ء)علم اخلاق (Ethic)کا بانی اور علم نفسیات کا عظیم ماہر۔
(۱۱)ابو علی حسن ابن الہیشم(متوفی۴۳۰ھ/۱۰۲۱ء)علم نور(Light)کا عظیم ماہر، انعطاف نورکے نظریہ کا ماہر، دریافت کنندہ اور کیمرہ کا موجد۔
(۱۲)احمد بن محمدعلی مسکویہ(متوفی۴۲۱ھ/۱۰۳۲ء) نباتات میں زندگی ،حیوانات میں قوت حس اور دماغی ارتقاء کا دریافت کرنے والا، علم سماجیات۔(Socialagy)نفسیات اور اخلاقیات کا عظیم محقق۔
(۱۳)شیخ حسان عبد اللہ بن علی سینا(متوفی۴۲۸ھ/۱۰۳۸ء) علم طبیعیات(Physics)علم الامراض والا دویہ کے فنون کا مجدد، دنیا کی باکمال اور جامع شخصیت اور سائنسدانوں میں سب سے زیادہ کتابوں کا مصنف۔
(۱۴)ابوریحان محمدبن احمد البیرونی(متوفی۴۳۹ھ؍۱۰۴۸ء) پہلا عظیم جغرافیہ داں، بر صغیر کا پہلا ماہر آثارقدیمہ وارضیات،
مؤرخ وسیاح۔
(۱۵)امام محمد بن احمد غزالی (متوفی۵۰۵ھ؍۱۱۱۱ء) علم دین کے مجدد اور جدید فلسفۂ اخلاق کے بانی، علم نفسیات اور فلسفہ کے عظیم
محقق۔(ماخذمعارف رضا کراچی پاکستان شمارہ نہم)
یہ عظیم سائنس داں بیک وقت عالم ، محقق، موجد سب کچھ تھے۔فلسفہ تاریخ ابن خلدون نے مرتب کیا ۔علم جراحی کی ایجاد کاسہرا ابوالقاسم اندلسی سائنس داں کے سرجاتاہے ۔علم الحیوانات کو الجاحظ نے کمال تک پہنچایا ۔ابن رشددنیا کا وہ پہلا مسلمان طبیب ہے جس نے تحقیق وتجربہ کے ثابت کیا تھا کہ اگر کسی کو ایک دفعہ چچک نکل آئے تو وہ پھر ہمیشہ کیلئے محفوظ ومامون ہوجاتا ہے۔ اسے اہل یورپ نےAverroesکا نام دے رکھا ہے۔ گھڑی مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ ڈوبے ہوئے جہازوں کو سمندر کی تہہ سے نکالنے کا فن مسلمانوں نے ہی پیش کیا۔ایک مسلمان حکیم نے ایسی بانسری بنائی تھی کہ جس کی نغمگی کے اثر سے پیٹ کادرد رخصت ہوجایا کرتاتھا۔مسلمانوں کی سائنسی ترقی کی تفصیلات پروفیسر فلپ ہٹی کی کتاب’’تاریخ عرب‘‘ (History of the Arabs)میں دیکھی جاسکتی ہے۔
صدیوں تک اقوام عالم پر فرماں روائی کرنے والی قوم بالآخر تھک گئی،ان کی روحِ جہاد سرد اور قوت اجتہادشل ہوگئی۔ جس مقدس کتاب نے انہیں علم کی روشنی اور عمل کی طاقت سے سر بلند کیا تھا اسے انھوںنے طاقو ں کی زینت بناکر چھوڑدیا۔ جس ہادئی اعظم کی سنت نے انکی تہذیب کو ایک جامع فکری وعملی نظام کی صورت میں ترتیب دیا تھا اسکی پیروی کو انھوںنے ترک کردیا تو نتیجہ یہ ہواکہ ان کی ترقی کی رفتار رک گئی۔ان کے شوکتوں کے لہراتے پرچم سرنگو ںہوگئے۔ ان کے افکار نظریات کی چمک گرد آلود ہوگئی۔ ان کی تہذیب وتمدن کی جامعیت مشکوک ہوگئی۔ ان کے نشان عظمت پر نشان لگ گیا۔ان کی ریسرچ وتحقیق کا بہتا دریا جب یکایک وادئی جمودمیںپہنچ گیاتووہ منصب امامت سے معزول ہوگئے ۔ دنیاکی قوموں پر ان کے افکار، ان کے علوم، ان کے تمدن اور ان کے سیاسی اثرات نے جوقابو پالیا تھا اس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔علوم وفنون کی جس راہ سے مسلمان کنارہ کش ہوئے مغربی قوموں نے بڑھ کر اسے پکڑلیا۔ اہل مغرب علمی اور فکری اعتبار سے دنیا کے نقشے پر چھاگئے۔ ان کی فرماں روائی نے صرف اجسام ہی پر نہیں بلکہ دلوں اور دماغوںپر بھی قبضہ کرلیا۔ اب علم ہے تو ان کا ہے۔تہذیب ہے توان کی ہے۔قانون ہے تو ان کا ہے اور حکومت ہے تو ان کی ہے۔
ساری دنیا کے معلم اور تابناک ماضی رکھنے والے مسلمانوں کے پاس ’’پدرم سلطان بود‘‘کے طغرے کے سوا کچھ نہیں۔سرزمین عرب اسلام کا منبع ومحزن ہے۔ یہی ارض مقدس دین حق کا نقطۂ آغاز وانتہا ہے۔یہی طیب وطاہر وادی قرآن وحدیث کا سرچشمہ ہے۔ مگر افسوس ! مملکت اسلامیہ میں سب سے زیادہ قابل تشویش اسی کی حالت ہے۔ علمی میدان میں نہ ان کی کوئی شناخت اور نہ ہی کوئی توجہ۔سائنس وٹکنالوجی میں نہ کوئی مقام ہے اورنہ ہی اس کی کو ئی کوشش۔ طب و حکمت سے نہ ان کا واسطہ ہے اور نہ ہی اس کے آثار۔ قدم قدم پر یہ یورپ وامریکہ کے محتاج ہیں۔ یہ ان ہی کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں،ان ہی کے کانوں سے سنتے ہیں، ان ہی کے دوش پراڑتے ہیں اور ان ہی کی بیساکھی کا سہارا لیتے ہیں ۔ان کے ہی یہاں کسی عاشق کی صدا ’’یارسول اللہ انظر حالنا ‘‘تو شرک وبدعت ہے مگر اپنی مصیبت میں ’’المدد یا امریکہ ‘‘کا نعرہ عین ایمان ہے۔الاماں والحفیظ
عرب کی سرزمین سے ہی مغرب نے اپنی معیشت مستحکم کرلی ہے اور انکی معاشیات کو ضربیں لگارہاہے۔ ذہنی اور فکری اعتبار سے مغرب نے عربوں کو پوری طرح مفلوج کررکھا ہے۔اہل عرب جوکھبی قدآور اور بلند افکارتھے، اب صرف یورپیٔن انجینیروں کے سہارے بنی انکی جگمگاتی بلڈنگیں قدآورہیں۔ان کے الفاظ عرب ضرورہیںمگرنہ ان فکرعرب ہے، نہ ان کے خیالات عرب ہیں،نہ ان کے احساسات عرب ہیں،نہ ان کا حوصلہ عرب ہےاور نہ ہی ان کی پرواز عرب ہے۔ گویا تابانیٔ ہلال کو کلیسائی گرہن لگ گیا ہے ۔سچ کہا ہے کسی نے؎
ہائے گذری ہوئی شوکت مرے ایمانوں کی
گردنیں خم تھیں کلیسا کے نگہبانوں کی
کیا قیامت ہے کہ اب ناقہ سواران عرب
پیروی کرتے ہیں کفار حدی خوانوں کی
اب خدا ہی مری کشتی کو بچائے تو بچے
ظلمتیں یاس کی ہیں شام ویرانوں کی
آج تقریباً ۵۷؍ آزاد مسلم ریاستیںہیں ۔لیکن ان کی آزادی مغرب کی محکومیت میںمضمر ہے۔ ان کے افکار ونظریات کو مغربی اثرات نے اغوا کرلیا ہے، وہ معمولی اشیا سے لیکر آلات حرب وضرب تک میں مغرب کے محتاج ہیں۔ مسلمانوں کی سائنسی فقدان کی بنیاد پر آج اغیار ایک جانب اسلام دشمن عناصر کو استحکام و تقویت دے رہے ہیں اور دوسری جانب ٹکنکل امداد کے پر نام مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو پارہ پارہ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آج کا دور سائنس وٹکنالوجی کا دور ہے اور جس قوم کے پاس اس کی قوت ہے وہ دوسری قوموں پر حکمرانی کررہی ہے۔ قرآنی ارشاد :وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃِِ(اور ان کے لیے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو۔الانفال :۶۰)سے ہمیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہم اس قوت کو حاصل کریں جس سے حریف پر ہماری دھاک قائم ہواور موجود ہ دور میں سائنسی علوم نے ہی رعب ودبدبے کا مقام حاصل کرلیا ہے۔ ہمیں اگر اپنے ماضی کا وقار وتمکنت ، دبدبہ وہیبت اور جاہ وحشمت کاسکہ رائج کرنا ہے اور اسلام کی عظمتوں کے پرچم لہرانے ہیں تو بہرحال سائنسی دنیا میں اپنا مقام بنانا ہوگا۔ قوم کی بقا وسلامتی کا راز بھی اس میں پہناں ہے ؎
پنپ سکتی نہیں وہ قوم کبھی بھی
فکر نہ ہو جس قوم کو اپنی بقاکا
قوت فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پر زوال آتا ہے
٭٭٭
سید سیف الدین اصدق چشتی
آستانہ چشتی چمن پیر بیگھہ شریف نالندہ (بہار)
بانی و سربراہ : تحریک پیغام اسلام جمشید پور