Paigham-e-Islam

نیا سال اور اسلامی تعلیمات

نیا سال اور اسلامی تعلیمات

دنیا میں دو قسم کا کیلنڈر رائج ہے ۔ایک ہجری کیلنڈر اور دوسرا عیسوی کیلنڈر ، مسلمانوں کا اصلی کیلنڈر عیسوی نہیں ہجری ہے ۔اسلامی نئے سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے اور ذی الحجہ پر مکمل ہوتا ہے۔جب کہ عیسوی کیلنڈر جنوری سےشروع ہوکر دسمبر پر تمام ہوتا ہے۔ایک شاعر کہتا ہے؎
یکم  جنوری  ہے  نیا  سال ہے
    دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے
اور ایک دوسرے شاعر کا شعرہے؎      اک پل کا قرب ایک برس کا پھر انتظار
                                            آئی  ہے  جنوری  تو  دسمبر  چلا  گیا
عیسوی کیلنڈر تو شاعر کو ادیب کوعام وخاص کو سبھوں کو خوب یاد رہتا ہے، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا کہ یہ کون سا ہجری مہینہ اور سال چل رہا ہے۔
اس کے برعکس عیسوی نئے سال کے جشن میںغیروں کی نقالی کرتے ہوئے ہماری پوری آبادی بھی ڈوب جاتی ہے۔ ۳۱/دسمبر کی رات ۱۲/ بجنے کا انتظار کیا جاتاہے، اور پھرمبارک باد ی کا سلسلہ شروع ہوتاہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا ئیںگونجتی ہیں، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اورمیوزک و ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے۔یہ غیر کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان بے چاروں کے پاس زندگی گذارنے کا کوئی دستور وضابطہ نہیں مگرمسلمانوں کا یہ عمل چیخ چیخ کراعلان کررہا ہے کہ ہم دین سے دور،نام کے مسلمان اور انگریزوں کی غلامی کاپٹہ ہمارے گلوں میں پڑا ہے۔
میرے عزیزو!اسلام ایک ایسا پاکیزہ اور مکمل دین ہے جو انسانیت کی اصلاح و فلاح کے لیے اتارا گیا ہے، اس کے اندر تمام تر انسانی مسائل کا حل اور خوشی وغم منانے کا ایک طریقہ وسلیقہ موجود ہے۔ اسلام ہر مسئلے کو بہت ہی نرالے اور واضح انداز میں بیان کرتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ  اسلام ساری دنیا میں مقبول اور ایک ممتاز دین مانا جاتا ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا(ترجمہ) تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر دی ہے۔(مائدہ :۴۸ )(یعنی ایک ہی دین اور ایک ہی شریعت ہے )اسی طرح سورہ اعراف میں فرمایا گیا :اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآءَط قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ (اعراف :۳) (اے لوگو!) تم صرف اُس (وحی) کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف اتاری گئی ہے اور اس کے سوا (اپنے بنائے ہوئے) دوستوں کے پیچھے مت چلو، تم بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا :اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سےنا پسندیدہ شخص وہ ہے جو اسلام میں جاہلیّت کے طریقے کو ڈھونڈتا ہو۔(صحیح بخاری )اسی طرح ایک طویل حدیث میں نبی کریم ﷺکا فرمان ہے: (ترجمہ) تمہیں چاہئے کہ میری سنت کو مضبوطی سے تھام لو ،اور میرے بعد کے خلفاءراشدین کی سنت کو،انہیں دانتوں سے مضبوطی سے پکڑو ،اور نئی باتوں سے بچتے رہو ،کیونکہ ہر نئی بات یعنی بدعت گمراہی ہے ۔(ابو داؤد:۴۶۰۷،ترمذی :۲۶۷۶)
بلاشبہ ہمارے ملے جلے معاشرے میں عیسوی سن اور تاریخ رائج ہے ،ہم اسے بالکل نظر انداز نہیں کرسکتے ۔یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس موقعے پر ہم کیا کریں !!ظاہرنئے سال سے متعلق ہمیں صحابہ واہل بیت میں سے کسی کاکوئی جشن منانے کا عمل تو نہیں مل سکتامگر بعض کتب احادیث میں یہ روایت نگاہوں سے گذری کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول ﷺ ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتا تےتھے: ”اللّٰھُمَّ أدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍمِّنَ الشَّیْطَانِ“ (المعجم الاوسط للطبرانی ۶/۲۲۱ حدیث: ۶۲۴۱ دارالحرمین قاہرہ) ترجمہ: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام او راپنی رضامندی نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔
اس دعا کو پڑھنا چاہیے ،نیز اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصاً کر نے چاہئیں یا دوسرے الفاظ میں کہہ لیجیے کہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے : ایک ’’ماضی کا احتساب‘‘ اوردوسرے’’آگے کا لائحہ عمل‘‘۔
ماضی کا احتساب:
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائے گی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا(ترمذی ۴/ ۲۴۷ ابواب الزہد، بیروت) ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔
اسی کو اللہ جل شانہ نے اپنے پاک کلام میں ایک خاص انداز سے ارشاد فرمایا ہے: وَأنْفِقُوْا مِنْ مَا رَزَقْنَاکُمْ مِنْ قَبْلِ أنْ یَأتِيَ أحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلاَ أخَّرْتَنِيْ إلیٰ أجَلٍ قَرِیْبٍ فَأصَّدَّقَ وَأکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ، وَلَنْ یُّوٴَخِّرَ اللہُ نَفْسًا إذَا جَاءَ أجَلُھَا وَاللہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(سورہٴ منا فقون، آیت/ ۱۰،۱۱) ترجمہ: اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے، اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہوجاوٴں ۔ اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ اچھی طرح باخبر ہے۔
اس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا موٴاخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے،خود کا جائزہ لینا چاہیے اورجوزندگی کی مہلت مل رہی ہے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔بالخصوص آج کے دور میں جو لوگوں کوموت آرہی ہے وہ ہمارے قابل عبرت ہے۔کیا ہم نہیں دیکھتے کہ اچھا خاصا تندرست جوان انسان گھرسے نکلا ٹھوکر لگی ،گرا اور مرگیا۔رات کو سویا اور صبح بستر سے اٹھ نہ سکا ۔مارننگ واک پر بندہ نکلااور وہیں سے سفرآخرت پر روانہ ہوگیا۔شاعرنے سچ کہا ہے؎
    کیا  بھروسہ  ہے  زندگانی  کا
 آدمی   بُلبُلا   ہے   پانی   کا
؎اور کسی نے کہا ہے
  زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
   آدمی  مجبور  ہے  اور  کس  قدر  مجبور  ہے
:مستقبل کے لیے لائحہ عمل
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ کس طرح ہم اپنی دنیا اور آخرت کو بہتر بناسکتے ہیں؟
انسان غلطی اورخامی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ، اس کےکاموں میں خامیاں تو نکلیں گی، ان غلطی وخامی کا ہونا تو برا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے ،اسے درست نہ کیا جائے اور اسے دوہراتے رہا جائے۔
یہ منصوبہ بندی ،تیاری اور بہتری کی کوشش دینی اور دنیوی دونوںشعبوں میں ہونا چاہیے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے:
اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ،یعنی: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو۔
(۱) شَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ ،اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ۔
(۲) وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے۔
(۳)  وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ،اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے ۔
(۴)وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ، اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے۔
(۵)وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ،اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔(مشکاۃ المصابیح ۲/۴۴۱ کتاب الرقاق)
آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے:  وَأنْ لَیْسَ لِلإنْسَانِ إلاَّ مَاسَعٰی، وَأنَّ سَعْیَہ سَوْفَ یُرٰی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الأوْفیٰ (سورہٴ نجم، آیت/ ۳۹،۴۰،۴۱)یعنی: ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
خلاصۂ کلام یہ کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حساس انسان کو بے چین کردیتا ہے، اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے ۔زندگی برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ حیات کے دن کم بچے ہیں۔ایسی صورت حال میں وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے۔ اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔بقول علامہ اقبالؔ؎
وقتِ فُرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نورِ  توحيد  کا   اِتمام   ابھی  باقی  ہے
ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیںبلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔
گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے۔گذرے ہوئے سال میں اس بات کا بھی پیغام ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کی مدت اور مختصر ہوچکی ہے ،موت کی طرف ہمارے قدم یا موت کے قدم ہم سے اورقریب ہوچکے ہیں۔ شاعر ؎نے اسی لیےکہا ہے
ایک اینٹ اور گرگئی دیوار حیات کی
نادان کہہ رہے ہیں نیا سال مبارک
  زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتابلکہ افسوس کیا جاتاہے۔اس لیے نیا سال یہ پیغام بھی لے کر آتا ہے کہ اب فضول کاموں سے بچو اور کام کے انسان بنو۔حضور اکرم ﷺکا ارشاد ہے : مِنْ حُسْنِ إسْلاِمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَیَعْنِیْہِ(ترمذی ۲/۵۸ قدیمی) یعنی: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔
حضرت مولا علی شیرخدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔(قیمۃ الزمن عند العلماء، ص: ۲۷)
حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزرگیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔(قیمۃ الزمن عند العلماء، ص: ۲۷)
یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں۔
عزیزنوجوانو! یہ مختلف طر ح کے جشن یہود و نصاریٰ اور دوسری قوموں میں جومنائے جاتے ہیںجیسے’’مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے، چلڈرنز ڈے اور ٹیچرس ڈے وغیرہ، اس لیے کہ ان کے یہاں رشتوں میں اصلیت نہیں صرف دکھاوا ہی دکھاوا ہے۔ بلکہ اب پورا ویسٹرن کلچرگندگی،تباہی اوراپنی موت کی طرف جارہا ہے۔مغربی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا ذہن اتنا بدل گیا کہ شادی کی ذمہ داریوں کا بوجھ اتار پھینکا گیا ہےاور خاندان ایک بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ پر ہی مشتمل ہوکر رہ گیا۔آج کی تاریخ میں شادی شدہ ماں اور باپ کے ساتھ رہنے والے ایک روایتی خاندان کے بچوں کی شرح 45% سے بھی نیچے آگئی ہے جبکہ Single Parent Faimly میںزندگی گزارنے والے بچوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ’’ لیو ان ریلیشن شپ ‘‘کا چلن عام ہوگیا ہے۔ غیر شادی شدہ جوڑوں کا باہمی رضا مندی سے ایک ساتھ رہنا (co-habit) اب ایک عام بات ہوگئی ہے اور یہ رجحان تیزی سے تیسری دنیا کے ممالک میں بھی پھیلنے لگا ہے ۔ دوسری طرف موانع حمل کے بہتر ذرائع بھی اب حاصل ہیں، اس لیے اب مغربی معاشرے میں روایتی خاندان کا ڈھانچہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی۔ فکر ونظر کی یہ تبدیلی خود مغرب کو بھی خوفزدہ کررہی ہے، کیونکہ اس سوچ کی وجہ سے لوگ نئی نئی پیچیدگیوں میں پڑ گئے ہیں۔ ایک طرف سماج میں تناؤ بڑھ رہا ہے، لوگ جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں تو دوسری طرف اس طرح کے ٹوٹے اور بکھرے ہوئے غیر مستقل رشتوں سے جو نسل تیار ہورہی ہے اس میں بھی منفی رجحانات عام ہیں۔
مغرب میں ہر فرد اپنی ذات اور اپنے مفاد کے خول میں سمٹ کر رہ گیا۔ جب کسی انسان کو صرف اپنی ذات، اپنے مفاد اور اپنی لذت اور خوشی ہی مطلوب ہو تو وہ دوسروں کے بارے میں کیوں سوچے گا اور ان کے لیے پریشانیاں کیوں اٹھائے گا اور کیوں ان پر اپنی گاڑھی کمائی خرچ کرے گا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رشتے ناطے کمزور دھاگے بن کر رہ گئے، گھر کے بزرگ اور والدین بے کار کی چیز اور بوجھ بن گئے اور اپنی زندگی کے آخری مراحل’’ اولڈ ایج ہوم ‘‘میں گزارنے پر مجبور ہیں۔
ابھی ۲۵؍دسمبر۲۰۲۴ءکووارانسی سے خبر آئی کہ چار سو کتابوں کے مصنف شری ناتھ کھنڈیلوال کا اولڈ ایج ہوم میں انتقال ہوگیا۔جنھیں ان کے بچوں ۹؍ماہ قبل گھر سے نکال دیا تھا۔حد تو یہ ہے کہ ان کے بیٹے اور بیٹی آخری رسوم میں بھی نہیں آئے۔بیٹے نے جہاں باہر ہونے کا کہہ کر معذوری ظاہر کی وہیں بیٹی نے نہ تو کسی کا فون اٹھایا اورنہ ہی میسیج کا جواب دیا۔تو یہ ہے موجودہ انسانی زندگی کی تلخ حقیقت۔ افسوس!غیرمسلموں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی اب اسی راہ پر چل پڑے ہیں۔
اس لیے نہ ہمیں کسی طرح کے دکھلاووں کی ضرورت ہے اور نہ مختلف طرح کےطے ڈے منانے کی،بلکہ مسلمانوں کو دوسری قوموں کی مشابہت سے بچ کر اسلامی تعلیمات کو اپنانے کی ضرورت ہے۔حضور علیہ الصلاۃ والسلام صحابہ کو مخاطب کرکےارشاد فرماتے ہیں: تم پہلے قوموں کی ضرور پیروی کروگے ،بالشت بالشت برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ،یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہونگے تو تم لوگ بھی ان کی پیروی کرو گے ،راوی حدیث حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ یہ سننے کے بعد ہم لوگوں نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول ﷺ :یہود و نصاری ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا : پھر اور کون ؟ (صحیح بخاری :۳۴۵۶۔صحیح مسلم :۲۶۶۹)
اور ایک موقعہ پر یہ ارشاد فرمایا:  مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ (ابودوٴد ۲/۲۰۳ رحمانیہ) یعنی: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہے۔اللہ کریم ہمیں غیروں کی نقل سے بچ کراپنے اور اپنے محبوب ﷺ کی سچی اتباع اور پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ حبیبک سید المرسلین
                                                        سید سیف الدین اصدق چشتی
                                        آستانہ چشتی چمن پیربیگھہ شریف نالندہ (بہار)
                                             بانی وسرپرست: تحریک پیغام اسلام جمشیدپور