Paigham-e-Islam

کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

۱۵؍اگست یوم آزادی ہندکے موقع پرایک فکری تحریر

کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

آیا  ہے  یوں  ہی   نہیں   بہاروں  کا   قافلہ
شامل  ہے  اس  میں  اہل  جنوں  کا  لہو  بہت
ہم نے اس سال ۲۰۲۴ء میں ۷۸؍واں سالا نہ یوم آزادی کا جشن منارہے ہیں۔یقیناًہمیں اپنے بچوں،جوانوں اور نسلوں کویہ باربار بتانے کی ضرورت ہے کہ اس ملک کی تعمیروترقی اورآزادی میں ہمارے بزرگوں نے کیسا عظیم کردار ادا کیا ہے۔ہم نےاس دیش کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔ہندوستان کی آزادی کی کہانی مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کم تناسب کے باوجود جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اپنے وطن عزیز کی آزادی کو یقینی بنانےکے لیے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے۔ یہ الفاظ کسی عام ہندوستانی، سیاسی رہنما یا پھر کسی مسلم عالم و قائد کے نہیں ہیںبلکہ ممتاز صحافی و ادیب خشونت سنگھ نے کہے تھے۔آپ کو بتادیں کہ دہلی کی انڈیا گیٹ پر تقریباً۹۵۳۰۰؍مجاہدین آزادی کے نام تحریر کیےگئے ہیں جن میں سے۹۴۵ ۶۱ ؍مسلمان ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے انگریزوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے، لڑنے اور قربانیاں پیش کرنے والوں میں ۶۵؍ فیصد مسلم مجاہدین آزادی تھے۔یوں بھی انگریزوں نے چوں کہ یہ دیش مسلمانوں سے لیا تھا ،اس لیے انھیں خطرہ بھی سب سے زیادہ مسلمانوں ہی سے تھااوران کے نشانے پر سب سے زیادہ مسلمان ہی تھے۔
اس لیےجدوجہد آزادی میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں لیکن ان کی قربانیوں کو جان بوجھ کر چھپادیا گیا یا عوام کی نظروں سے اوجھل کردیا گیا۔ اس میں یقیناً ہماری کوتاہیاں بھی شامل ہیں۔آئیے!سچائی جاننے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ہندوستانی تاریخ میں جھانک کر دیکھتے ہیں۔۱۸۵۷ء کے بعد جب انگریزوں نے اس دیش پر اپنے خونی پنجے گاڑدئیے توپھر بھارت کی تمام دوسری قوموں کے ساتھ مل کر آزادی کی جدوجہد میں مسلمان صف اول میں نظر آتے ہیں۔جس میں علما بھی تھےاورمشائخ بھی ،اہل علم بھی تھے اور دانشوران بھی،تاجرین بھی تھے اور نوکری پیشہ بھی،عوام بھی تھی اور خواص بھی۔ہندوستانی مسلمانوں نے اس ملک کوقربانیوں کے ساتھ ساتھ ہراعتبار سے بہت کچھ دیا ہے۔کشمیر سے کنیا کماری تک قدم قدم پر ہماری دئیے ہوئے قیمتی اثاثے آج بھی ملک کومالی استحکام بخش رہے ہیں۔ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے اس وطن عزیز کو اتنا کچھ دیا ہے کہ اس کے مقابلے میں دور دور تک دوسری کوئی قوم نظر نہیں آتی:
۱۔’’جے ہند‘‘ کا نعرہ عابد حسن سافرانی نے دیا تھا۔
۲۔’’انگریزوبھارت چھوڑو‘‘کا نعرہ یوسف مہر علی نے دیا تھا۔
۳۔’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ مولانا حسرت علی موہانی نے دیاتھا۔
۴۔ترانۂ ہند ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘شاعر مشرق علامہ اقبال ؔ نے لکھا ہے۔
۵۔’’مادرِ وطن بھارت کی جے‘‘ کا نعرہ ۱۸۵۷ء میں عظیم اللہ خان نے دیا تھا۔
۶۔ہمارے قومی پرچم ’’ترنگے ‘‘کا روپ ثریا طیب جی نے دیا تھا۔
۷۔انگریزوں کے خلاف سب سے پہلی منظم جنگ شیرمیسور ’’ٹیپوسلطان‘‘نے لڑی تھی۔
۸۔۱۸۵۷ء میں علامہ فضل حق خیرآبادی نے انگریزوں کے خلاف فتویٔ جہاد دے کر قوم میں حریت کی روح پھونک دی تھی۔
۹۔آخری مغل تاج دار ’’بہادرشاہ ظفر‘‘ کی قیادت میں ملک کے تمام دھرم والوں نے یک جُٹ ہوکر انگریزوں سے جنگ کی تھی۔
۱۰۔بھگت سنگھ کو سبھی جانتے ہیں مگر ۸؍فروری ۱۸۷۲ء کو انگریزوں کے سب سے بڑے عہدے دار وائسرائے کو موت کے گھاٹ اتار کر سولی پر چڑھ جانے والے ’’شیرخان آفریدی‘‘ کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
۱۱۔ بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں:                                               غازیوں میں بُو رہے گی جب تلک ایمان کی
 تخت لندن تک  چلے گی  تیغ  ہندوستان کی
ان کا یہ شعر مادروطن سے محبت اوران کے جذبہ حریت کا پتہ دیتا ہے ۔۷؍اکتوبر ۱۸۵۷ ءکو جب انھیں انگریزوں نے قیدکرکے برما کے شہر رنگون میں ڈال دیاگیا تو وہ حسرت ویاس کی تصویر بن کر پکاراٹھے ؎
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں،کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع لاکے جلائے کیوں،میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
۱۴۴؍سال بعد ڈاکٹر اے،پی،جے عبدالکلام جب صدر جمہوریہ بنے تو رنگون میں آپ کی قبر پہ جاکر چادرچڑھائی،پھول ڈالا،فاتحہ پڑھا اور کہا کہ دیکھیے ہم آپ کی مزارپر اپنی عقیدت کا نذرانہ پیش کرنے آئے ہیں ،ہم آپ کی قربانیوں کوبھولے نہیں ہیں،آج بھی کروڑں ہندوستانیوں کے دلوں میں آپ کی محبت رچی بسی ہے۔
۱۲۔مجاہدآزادی اشفاق اللہ خان نے ۱۹؍دسمبر ۱۹۲۷ءکو تختۂ دار پر جاتے ہوئے ہاتھ اٹھاکردعا کی تھی :اے خداوندکریم! توہرہندواور مسلمان کو عقل دے کہ وہ آپسی جھگڑوں میں اپنا وقت برباد نہ کریں بلکہ دونوں مل کر اس ملک کو آزاد کرائیں اور خوش حال بنائیں۔دعا کے بعد گلے میں قرآن لٹکائے ،وظیفہ پڑھتے ہوئے، بڑے حوصلے کے ساتھ تختۂ دار کی طرف چل پڑے ۔تختے پر کھڑے ہوکر قرآن کی کچھ آیتیں پڑھیں پھرپھانسی کے پھندے کو چومتے ہوئےکلام الٰہی ’’كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ،وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ‘‘کی ترجمانی کرتا ہوایہ شعر پڑھا؎
فنا ہے سب کے لیے ہم پہ کچھ نہیں موقوف
بقا  ہے  ایک  فقط  ذات ِ کبریا  کے لیے
روایت کے مطابق آخری آرزو پوچھے جانے پر اشفاق اللہ خان نے کہا تھا؎
کچھ آرزو نہیں ہے ،  ہے آرزو تو یہ ہے
رکھ دے کوئی ذرا سی خاک وطن کفن میں
۱۳۔مولانا سیدکفایت اللہ کافیؔ مرادآبادی کی مجاہدانہ سرگرمیوں کوکیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ان کانام نمایاں ہستیوں میں آتا ہے۔انگریزوں نے انھیں گرفتارکرکے مظالم کے پہاڑتوڑے ،لوہے کے سلاخوں سے ان کے جسم کے حصوں کو داغا گیا،زخموں پر نمک پاشی کی گئی ،طرح طرح کی اذیتوں سے دوچار کیا گیا،انھیںجھکانے اوراپنے وطن کی آزادی سے منحرف کرنے کی ہزار کوشش کی گئی مگر انھوں نے وقت کی طاغوتی طاقتوںکے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہےاوراپنے موقف کے خلاف کسی طرح کا سمجھوتہ کرنا گوارا نہ کیا۔آخر کارانھیں پھانسی کی سزاسنائی گئی۔قتل گاہ کی جانب جاتے ہوئے ہوئے بھی آپ کے چہرے پرکوئی خوف وہراس نہ تھا بلکہ والہانہ انداز میں اپنی ایک نعت پاک پڑھتے ہوئے تختۂ دار کی طرف رواں دواں تھے کہ؎
         کوئی  گْل باقی  رہے گا  نَے  چمن  رہ جائے گا
     پر  رسول اللہ  کا  دین  حسن  رہ  جائے  گا
     ہم صفیرو!  باغ  میں ہے  کوئی  دم  کا  چہچہا
     بلبلیں  اْڑ جائیں گی  سُو نا  چمن  رہ  جائے گا
     اطلس و کم خواب کی  پوشاک  پہ  نازاں  نہ  ہو
    اس  تن  بے جان  پہ  خاکی کفن  رہ  جائے گا
     نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں  گے  لیکن  یہاں
    حشر  تک  نام  و  نشانِ  پنجتن  رہ  جائے  گا
    جو  پڑھے گا  صاحبِ  لَولاک  کے  اوپر  دُرود
   آگ  سے محفوظ  اس کا  تن  بدن  رہ  جائے  گا
   سب  فنا  ہو جائیں  گے  کافیؔ  و  لیکن  حشر تک
                                       نعتِ حضرت  کا  زبانوں  پر  سخن  رہ  جائے گا
اس ملک کی آزادی میں مردوں ہی نہیں بلکہ خواتین نے بھی بڑے نمایاں کردار ادا کیے ہیںاوراپنے خون سے اس مٹی کو سینچا ہے۔مہاتما گاندھی نے ینگ انڈیا میں لکھا تھا کہ’’ مسلمان خواتین کے تذکرہ کے بغیر تحریک آزادی کی داستان ادھوری ہے‘‘۔
۱۴۔ہندوستان میں ہر کوئی جانتا ہے کہ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کون تھی لیکن ہم میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ بیگم حضرت محل پہلی جنگ آزادی کی وہ ہیروئن تھیں جنھوں نے برطانوی چیف کمشنر ہنری لارنس کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا تھا اور ۳۰؍ جون ۱۸۵۷ء کو چن پاٹ کے مقام پر فیصلہ کن جنگ میں انگریزی فوج کو شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا۔۱۸۵۷۔۱۸۵۸ ءکی جنگ آزادی میں صوبہ اودھ سے حضرت محل کی نا قابل فراموش جد و جہد تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ میں درج ہے۔ حضرت محل نے صنف نازک ہوتے ہوئے بھی بر طانوی سامراج و ایسٹ انڈیا کمپنی سے لوہا لیا۔ برطانوی حکومت کی ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے انھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر کے تحریک جنگ آزادی ہند کو ایک نیا رخ دیا۔ بیگم حضرت محل پہلی ایسی قائد تھیں جنھوں نے برطانوی حکومت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اور ۲۰؍برس جلا وطنی اور اپنی موت ۱۸۷۹ءتک لگاتار برطانوی حکومت کے خلاف جدوجہد کرتی رہیں۔
یہ چند نام بطورمثال پیش کیے گئےہیں ورنہ علامہ فضل حق خیرآبادی،مفتی صدرالدین آزردہ،علامہ فیض احمدبدایونی،مولانا وزیرخان اکبرآبادی،علامہ سیداحمداللہ شاہ مدراسی،مولانارحمت اللہ کیرانوی،مولانا امام بخش صہبائی،جنرل بخت خان،مولانا حسرت موہانی ،آبادی بانوبیگم(بی اماں)،بیگم نشاط النسا موہانی،بی بی امت السلام،فخرالحاجیہ بیگم،منیرہ بیگم وغیرہ جیسے سینکڑوں سرکردہ مردوخواتین مجاہدین کے مختصر تذکرے بھی کیے جائیں تو اس کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔
بہرحال!اس اشاریے سے بھی آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگاکہ ہندوستان میں مسلمان کرایہ دار نہیں بلکہ حصہ دار ہیں؟۔ لیکن آج نفرت کے سوداگروں اورانگریزوں کی غلامی ومخبری کرنے والوں نے اس ملک پراپنے ناپاک پنجے گاڑدئیے ہیں ۔ بلاشبہ فرقہ پرستی کی تاریخ بہت پرانی ہےاور ہر دور میں سماج کو توڑنے کی سازش کرنے والے عناصر موجود رہے ہیں،لیکن ۲۰۱۴ء کے بعد سے صورت حال انتہائی تشویش ناک ہوگئی ہے۔ اقتدار کے نشہ میں فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کو کھلے عام گالیاں اورقتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ بے لگام عناصر کبھی زبان تو کبھی ہاتھوں سے مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور حکومت انھیں شہ دینے میں لگی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا جیسے مقابلہ چل رہا ہو کہ کون کس قدر نفرت اور بھڑکاؤ بھاشن دے سکتا ہے ۔ ماب لنچنگ کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ کہیں بیف تو کہیں لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ گجرات، آسام ، اترپردیش اور کرناٹک ، سنگھ پریوار اور ہندوتوا کی تجربہ گاہ اور لیباریٹریز بن چکے ہیں۔ کبھی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کیےجاتے ہیں تو کبھی پاکستان جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ کبھی شہریت ختم کرنے کی منصوبہ بندی تو کبھی قتل عام کی سازش ۔ مسلمانوں کے کھانے پینے ،رہنے سہنےاورتہذیب و تمدن پر بھی اعتراض ہے۔ دینی مدارس کو تالا لگاکرمسلمانوں کو کفروشرک کے دلدل میں جھونکنے کی تیاری چل رہی ہے۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی جو کبھی بند کمروں تک محدود تھی ، آج برسر عام ہونے لگی ہے ۔ سیاستداں اور پنڈت کا روپ دھارے ہوئے بہروپیے بھی زبان درازی میں مصروف ہیں۔ظاہر ہے کہ جب ملک کا وزیر اعظم ہی گندی اورگھٹیا زبان استعمال کرے تودوسروں کوکیا کہاجائے!!۔
 ایک  ہنگامہ ٔ  محشر  ہو  تو بھولوں اس کو
سینکڑوں باتوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے
آزادی کے بعد۶۸؍برسوں میں جو کچھ ہوا ، بی جے پی اقتدار کے ۱۰؍ برسوں میں اس سےکہیں زیادہ نفرت اور مظالم کے بازار گرم کیے گئے۔ روزانہ نفرت کا زہر اگلتے ہوئے ایک نیا کردار منظر عام پر آتا ہے۔ابھی حالیہ بنگلہ دیش میں ہنگامہ کو لے کر نفرتی چنٹوؤں نے اس دیش میں نفرت انگیزی شروع کردی۔ٹی وی چینلز کودیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ’’بنگلہ دیش انڈیا کا حصہ ہے اور منی پور کوئی الگ دیش ‘‘۔کیوں کہ منی پور میں ہونے والے تشدد اور ہنگامہ آرائی پروزیراعظم سے لے کر میڈیا تک کےمنھ پرمہر لگی ہے۔
مسلم بادشاہوں اورحکمرانوں کی کردار کشی اوران کے نام سے منسوب شہروں کے نام بدلنا بھی ان نفرت کے ٹھیکیداروں کا محبوب مشغلہ ہے۔ خاص طور پر محمد بن قاسم ، محمود غزنوی ،اورنگ زیب، ٹیپو سلطان اور نظام حیدرآباد سے نفرت انگیزی میں یہ ساری حدیں پارکرچکے ہیں۔ حالاں کہ کئی انصاف پسند ہندو مورخین نے مسلم حکمرانوں کے کارنامے خاص طور پر رعایا پروری اور مذہبی رواداری کا اعتراف کیا ہے۔ مسلم حکمرانوں پر انگشت نمائی سے قبل تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔ محمد بن قاسم کی حکمرانی اور انصاف کا نتیجہ تھا کہ ہندو قوم ان کے بت بناکر پوجا کرنے لگی تھی۔ مغل حکمرانوں ، بابر ، اکبر اور ہمایوں سے منسوب ناموں کو تبدیل کرنے کی مہم چلانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی پر قومی پرچم مغلوں کی یادگار لال قلعہ سے لہرایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت تاج محل ، قطب مینار اور چارمینار سے ہے ۔ یہ تمام مسلم حکمرانوں کی نشانیاں ہیں۔ ہندوستان کا تصور ان یادگاروں کے بغیر ادھورا ہے۔ مغلوں کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر اور شیر میسور ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف جنگ کی تھی ،لیکن آج ان کا شمار مخالف ہندو حکمرانوں میں کیا جارہا ہے ۔ بہادر شاہ ظفر نے رنگون کی جیل سے رہائی کے باوجود ہندوستان میں قدم رکھنے سے محض اس لئے انکار کردیا تھا کہ ملک انگریزوں کی غلامی میں ہے اور وہ غلام ملک میں نہیں جائیں گے۔
انگریزوں کے ساتھ ٹیپو سلطان کی لڑائی اور بہادری کے قصے دنیا بھر کے لائبریریز اور میوزیمس کا حصہ ہیں ،ہندوستان کے بڑے ہندواسکالرز،سیاست دان اورعظیم شخصیات ٹیپوسلطان کے کارناموں کے مداح ہیں۔انھیں غیرمتعصب،عوام دوست اورہندوستان کی شان سمجھتے ہیں ۔جس میں بابائے قوم مہاتما گاندھی تک کا نام شامل ہیں۔لیکن چند کوتاہ ذہن اور کم نظر بھگوا بریگیڈ پر نفرت کا جنون سوار ہے۔انھوں نے مسلم دشمنی میں روشنی کو تاریکی ،سفیدی کوسیاہی اورخیرکوشرکہنے کا مزاج بنالیا ہے؎
خرد کا  نام  جنوں پڑ گیا  جنوں کا  خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
دنیا میں میزائیل ٹکنالوجی کے موجد ٹیپو سلطان ہیں۔ ان کے بعد ہندوستان کو اے پی جے عبدالکلام کی شکل میں دوسرا مسلم میزائیل مین مل گیا جنہوں نے میزائیل کے کامیاب تجربے کیےتھے۔ٹیپوسلطان کاایک مشہورقول ہے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔اس ایک قول سے ہی ان کے ہمت وحوصلے اورجرأت وبہادری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔کمال تویہ ہے کہ انھوں نے یہ صرف کہا نہیں بلکہ ان کی زندگی اس قول کی عملی تصویر تھی۔
  نواب میر عثمان علی خاں نظام حیدرآبادسے نفرت کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ۱۹۶۵ء میں چین کے ساتھ جنگ کے موقع پر اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے نیشنل ڈیفنس فنڈ میں عطیات کی اپیل کی تھی۔ اس موقعے پرنظام حیدرآباد نے ۵۰۰۰؍ کیلو گرام سونے کا عطیہ دیا تھا جس کی مالیت آج ۱۵۰۰؍کروڑ سے زیادہ ہے۔ دنیا کی تاریخ میں یہ انفرادی طور پر سب سے بڑا عطیہ ہے۔ ع     ’’پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں‘‘۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان جیسے محبین وطن اورمجاہدین آزادی سے نفرت وہی کرسکتا ہے جو دیش کا غدار ہواور جن کے پُرکھوں نے انگریزوں کے تلوے چاٹنے میں زندگی گزاری ہو۔اب ان ہی اولادیں انگریزوں کے ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘کی پالیسی کوپوری قوت کے ساتھ آگے بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔
اب وقف کے املاک پرناپاک نظر:
اب اس حکومت کی ناپاک نظرمسلمانوں کی جائیداد،املاک اور اوقاف پر ہے ۔ وقف ایکٹ میں تقریباً۴۰؍ ترمیمات کے ذریعہ وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت کو بدل دینا چاہتی ہے تاکہ ان پر قبضہ جمانا اور ہڑپ کر لینا آسان ہوجائے۔اپنے مسلم دلالوں اور منافق مسلمانوں کے ذریعہ ہمیں سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس میں مسلمانوں کی بھلائی ہے۔کیا کہنے !جس پارٹی کا غنڈہ نیتا اور خودوزیراعظم کھلے عام مسلمانوں کو گالیاں دے وہ مسلمانوں کا بھلاکرےگا!!۔جوپارٹی کوئی ایم پی ،ایم ایل تو جانے دیں،کسی وارڈ کمشنر کاٹکٹ بھی مسلمانوں کو نہیں دیتی،اپنے پرانےمسلم نام والےوفاداروں کو بھی کنارے لگادیتی ہو وہ مسلمانوں کا بھلاکرے گی!!اب تک اس حکومت نے مسلمانوں سے متعلق جتنے بھی فیصلے اور اقدامات کیے ہیں وہ سب غاصبانہ ہیں۔ اس حکومت نے مولانا آزاد فاؤنڈیشن کو بندکردیا،اقلیتی اسکالرشپ کومنسوخ کیا،حج میں سبسیڈی ختم کردی،جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پرناپاک نظریں گاڑے بیٹھی ہے، تین طلاق کامسئلہ اٹھاکرمسلمانوں کوان گنت مسائل سے دوچارکیا،اورنہ جانےمسلم دشمنی کے کتنے داغ ان کے دامن پرہیں وہ مسلمانوں کا بھلا کرے گی۔ یہ معاملہ مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گا۔ وقف جائیدادوں کے بعد اندیشہ ہے کہ اگلا نمبر سکھوں اور عیسائیوں کے اوقافی جائیدادوں اور پھر ہندو ؤں کے مٹھوں اور دیگر قوموں کےمذہبی جائیدادوں پر بھی آسکتا ہے؎
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
ان تمام حالات کے پیش نظر مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ یہ سوچنے پرمجبور ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں؟۔آزادی اسی کا نام ہے ؟یہ ملک واقعی سیکولر ہے یا غیراعلانیہ ہندوراشٹر بن چکا ہے؟۔میں ایسے اپنے تمام نوجوانوں سے عرض کرتا ہوں کہ آپ احساس کمتری کے شکار نہ ہوں،ہمت وحوصلہ رکھیں،آنے والے ہر چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔مایوس ونامراد ہونامسلمانوں کی شان نہیں ہے ۔اللہ کے رسول ﷺسے سچی محبت اوراطاعت کریں۔اللہ جل شانہ کی ذات پریقین رکھیں۔وہ فرماتا ہے: وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ، اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُ(ابراھیم:۴۲)اورظالم جو کچھ کررہے ہیں تم اللہ کو اس سے بے خبر نہ سمجھنا، اللہ انھیںصرف ایک ایسے دن کے لیے ڈھیل دے رہا ہے جس دن (دہشت )سےسب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
کاش! اللہ کریم ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم اس کی اوراس کے محبوبﷺ کی طرف رجوع کریں ،ان مجاہدین آزادی کی قربانیوں سے سبق لے کرخود بھی بیدار رہیں، اہل وطن کو بھی بیداررکھیں اوراپنے حقوق کے لیے جدوجہدکرتے رہیں؎
اے اہل وطن  شام وسحر جاگتے  رہنا
اغیار  ہیں  آمادۂ  شر  جاگتے  رہنا
                            سید سیف الدین اصدق چشتی
                بانی وسربراہ: تحریک پیغام اسلام جمشید پور