ہر مرض کی دوا ہے صل علی محمدﷺ
الحمد للہ!ہم اس نبی رحمت ﷺ کے امتی ہیں جوسید الانبیاہیں۔یہ وہ رسول ہیںجن پر اوالعزم رسولوں کی جماعت بھی رشک کرتی ہے۔یہ وہ معصوم ہیں جن کی بارگاہ نازمیں فرشتوں کی معصوم جماعت بھی نیازمندانہ حاضری دیتی ہے۔یہ نور بھی ہیں بشر بھی ،لیکن نورایسے کہ نوری فرشتوں کاسردار ان کے دربار میں اپنی غلامی پیش کرتا نظرآتاہے۔بشرایسے کہ خیرالبشر اور ناز بشریت ہیں۔یہ خدا کی صفات کے بھی مظہر اورذات کے بھی مظہرہیں۔ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ ان کی عطا اللہ کی عطا ہے۔ان کا کرم، اللہ کا کرم ہے۔انھیں ماننا ہی ایمان ہے،بلکہ یہ خودمکمل ایمان ،شان ایمان اور جان ایمان ہیں ۔اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کیاخوب اور سچ فرمایا؎
اللہ کی سر تا با قدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انھیں
ایمان یہ کہتا ہے ، میری جان ہیں یہ
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ کو ایسا باکمال بنایا ہے کہ جو ان کے قدموں میں آجائے ،جو ان کی شان پہچان لے ،جو ان کی اطاعت وپیروی کرلے، ان کی غلامی کاپٹہ جو اپنی گردن میں ڈال لے تو وہ پھر پلٹ کر کسی طرف نہیں دیکھتا ہے۔وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوتا۔وہ کسی اورکی طرف نہیں تکتا۔وہ زبان حال سے پکارپکارکر کہتا ہے ؎
کاسۂ غیر کو اور منھ سے لگاؤں توبہ
شان پہچانتا ہوں یار کے پیمانے کی
جن کا کام یہ تھا کہ وہ نبی رحمت ،محسن انسانیت ﷺ کی شان وعظمت کے ڈنکے بجاتا۔آپ ﷺکی ذات بابرکات پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیتا۔اسلام اور پیغمبر ﷺ کا خوب صورت تعارف دنیا کے سامنے پیش کرتا۔مگر افسوس!وہ دنیا چھن جانے کے خوف سے،کہیں میں لوگوں کا نشانہ نہ بن جاؤں اس ڈرسے،ہمارابزنس اور کاروبارمتاثر نہ ہوجائے اس حرص وہوس میں،اورلارڈمیکالے کے بنائے ہوئے ایجوکیشن سسٹم میں جکڑ کراسلامی تعلیمات سے دورہوااورایک روبوٹ بن گیا۔بقول اکبر الہ آبادی؎
کیا بتاؤں احباب کیا کارِ نمایاں کرگئے
بی اے کیا،نوکرہوئے،پنشن ملی پھر مرگئے
آج آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیں،ہماری قوم کے ذمہ دار کہے جانے والے حضرات کا ایک بڑا طبقہ اغیار سے متاثر اورمولویوں کو نشانہ بناتا نظر آئے گا۔کسی دانشور کا یہ گولڈن لائن ہے کہ’’کچھ لوگ اسلام کو گالی دینا چاہتے ہیں ،مگر ڈر یا عوامی دباؤ کی وجہ سے ایسا نہیں کرپاتےتووہ مولوی کو گالی دے کر اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں‘‘۔لیکن دوسری طرف یوروپ کی عظیم دانش کدوں میں تعلیم حاصل کرنے والا،مغربی ممالک کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں رکھنے ولا اور اوراپنے زمانے کی نامورمغربی شخصیات سے میل جول رکھنے والاشخص ،دنیا جسےشاعر مشرق علامہ اقبال ؔ کہتی ہے۔جب وہ اپنے وطن لوٹتے ہیں تو بے ساختہ پکاراٹھتے ہیں کہ؎
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ ونجف
علامہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں میں مدینہ طیبہ اور نجف کی خاک کا سرمہ لگایا ہے۔ اس لیے انگریزوںکے فلسفہ وسائنس اور یوروپ کے علم وحکمت کاجلوہ سے میری نظر وں کوچکا چوندنہیں کرسکتا۔ یعنی میں نبی وعلی کی تعلیمات کا پیروکارہوں، اس لیے مغربی علوم مجھے متاثر نہیں کر سکتے۔حضور انور ﷺ کے ساتھ علامہ اقبالؔ نے حضرت مولا علی شیرخدا کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ حدیث اُن کے پیشِ نظر تھی۔ اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمُ و عَلِیَّ بَابُھَا (میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے) پس جس شخص کو علوم نبوی ﷺ کے حصول کی آرزو ہو اُسے سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجھہ کی شاگردی اختیارکرنی چاہیے۔ کیونکہ دروازے کے بغیر شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔
معلوم ہوا کہ اگر مسلمان کے دل میں سرکار دو عالم ﷺ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی محبت جاگزیں ہو وہ کبھی ’’دانشِ فرنگ‘‘سے متاثر ہو کر گمراہ نہیں ہو سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ زمانےکے تمام مسائل کا حل رسول اللہ کے قدموں میں ہے۔آپ نے نہ جانے کتنے مسائل کی گتھیاں سلجھائیں اورہمیں ایک نصاب زندگی عطا فرمادیا ۔عارف ؔ بنارسی نے کیا خوب فرمایا ہے؎
اپنے بندوں پر خدا نے خاص احساں کردیا
مصطفےٰ کو بھیج کر بخشش کا ساماں کردیا
دے کے دنیا کو مکمل اک نصاب زندگی
رحمت عالم نے ہر مشکل کو آساں کردیا
آپ کو دین و دنیا کی بھلائی پر مشتمل ایک ایسا ایمان افروز مکالمہ سناتا ہوں ۲۵؍مسائل کا حل رحمت عالم ﷺ نے بیان فرمایا ہے۔فرد واحد ہو یا ایک پوری جماعت یا پھر ساری قوم ہی کیوں نہ ہو ،یہ ۲۵؍مسائل وہ ہیں جن میں کسی نہ کسی کا انھیں شکار ہونا ہے اور ان سب کا حل اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی ایک مجلس میں عطا فرمادیا۔حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں،وہ فرماتے ہیں:
ایک بدو رسول الله ﷺ کے دربار میں حاضرہوا اورعرض کیا یا رسول اللہ ! میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ۔ فرمایا: ہاں کہو!
(۱) اس نےعرض کیا: یا رسول اللہﷺ میں امیر (غنی ) بنا چاہتا ہوں۔ فرمایا: قناعت اختیار کرو، امیر ہو جاؤ گے۔
(۲) عرض کیا: میں سب سے بڑا عالم بنا چاہتا ہوں۔فرمایا: تقوی اختیار کرو ،عالم بن جاؤ گے۔
(۳) عرض کیا: عزت والا بننا چاہتا ہوں۔فرمایا: مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانا بند کردو، با عزت ہو جاؤ گے۔
(۴)عرض کیا:اچھا آدمی بننا چاہتا ہوں۔فرمایا: لوگوں کو نفع پہنچاؤ،اچھے آدمی بن جاؤگے۔
(۵)عرض کیا:عادل بنا چاہتا ہوں۔فرمایا: جسے اپنے لیے اچھا سمجھتے ہو، وہی دوسروں کے لئے پسند کرو۔
(۶)عرض کیا: طاقت ور بنا چاہتا ہوں۔فرمایا: اللہ پر توکل کرو،طاقت ور بن جاؤگے۔
(۷)عرض کیا:اللہ کے دربار میں خاص درجہ چاہتا ہوں۔فرمایا:کثرت سے ذکر کرو،
(۸)عرض کیا:رزق کی کشادگی چاہتا ہوں۔فرمایا:ہمیشہ باوضور ہو،تمہارے رزق میں کشادگی پیدا ہوجائے گی۔
(۹)عرض کیا:دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہوں۔فرماما :حرام نہ کھاؤ،تمہاری دعائیں قبول ہوں گی۔
(۱۰)عرض کیا:ایمان کی تکمیل چاہتا ہوں۔فرمایا: اخلاق اچھا کر لو،تمہارا ایمان کامل ہوجائے گا۔
(۱۱)عرض کیا:قیامت کے روز اللہ سے گناہوں سے پاک ہو کر ملنا چاہتا ہوں۔فرمایا :جنابت کے فورا بعد غسل کیا کرو۔
(۱۲)عرض کیا:گناہوں میں کمی چاہتا ہوں۔فرمایا:کثرت سے استغفار کیا کرو۔
(۱۳)عرض کیا: قیامت کے روز نور میں اُٹھنا چاہتا ہوں۔فرمایا:ظلم کرنا چھوڑ دو۔
(۱۴)عرض کیا:چاہتا ہوں اللہ مجھ پر رحم کرے۔فرمایا:اللہ کے بندوں پر رحم کرو۔
(۱۵) عرض کیا: چاہتا ہوں اللہ میری پردہ پوشی فرمائے۔فرمایا:لوگوں کی پردہ پوشی کرو۔
(۱۶) عرض کیا:رسوائی سے بچنا چاہتا ہوں۔فرمایا: زنا سے بچو۔
(۱۷) عرض کیا :چاہتا ہوں اللہ اور اس کے رسول کا محبوب ترین بن جاؤں۔آپ ﷺ نےفرمایا:جو اللہ اور اس کے رسول کا محبوب ہو اس کو اپنا محبوب بنالو۔
(۱۸) عرض کیا:اللہ کا فرماں بردار بننا چاہتا ہوں۔فرمایا: فرائض کا اہتمام کرو۔
(۱۹) عرض کیا:احسان کرنے والا بننا چاہتا ہوں۔فرمایا: اللہ کی یوں بندگی کرو جیسے تم اُسے دیکھ رہے ہو یا جیسے وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ (۲۰) عرض کیا: یارسول اللہ! کیا چیز گناہوں سے معانی دلاتی ہے۔فرمایا:آنسو،عاجزی اوربیماری۔
(۲۱) عرض کیا:کیا چیز دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کرے گی۔فرمایا: دنیا کی مصیبتوں پر صبر۔
(۲۲) عرض کیا: اللہ کے غضب کو کیا چیز سرد کرتی ہے۔فرمایا:چپکے چپکے صدقہ اور صلہ رحمی۔
(۲۳) عرض کیا: سب سے بڑی برائی کیا ہے۔فرمایا : بد اخلاقی اور بخل۔
(۲۴) عرض کیا: سب سے بڑی اچھائی کیا ہے۔فرمایا:اچھا اخلاق ، تواضع اور صبر
(۲۵) عرض کیا:اللہ کے غضب سے بچنا چاہتا ہوں۔فرمایا:لوگوں پر غصہ کرنا چھوڑ دو۔(کنزالعمال۔مسند احمد)
فرامین مصطفےٰ ﷺکی روشنی میں اب ذرا ہم اپنا جائزہ لیں۔ ہم اللہ ورسول کی نافرمانیوں کے دلدل میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیںتو بھلاہم دنیاوی مسائل سے کیسے بچ سکتے ہیں۔اسراف اورٖفضول خرچی کا شکار ہیں ،ایسے میںہم امیر وغنی کیسے ہو سکتے ہیں؟ ہم اللہ کی مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں توبھلاہمارا رزق کیسے کشادہ ہو سکتا ہے؟ ہم تو کل علی اللہ سے کوسوں دور ہیں ،توبھلاہم طاقتور کیسے بن سکتے ہیں؟ بد اخلاقی ہمارے رگ وپے میں بسی ہے،توپھر ہمارا ایمان کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟ ہم بندوں پر رحم نہیں کرتے توپھر اللہ ہم پر رحم کیسے فرمائےگا ؟ ہم صدقات وخیرات کوبوجھ سمجھتے ہیں توپھراللہ کے غضب سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ۔ہم پر آنے والے تما م مصائب وآلام ،تکالیف ودرد اورمسائل والجھن اسی لیے ہیں کہ قدم نازمصطفےٰﷺ سے دورہوکرکہیں اور سے اس کا حل تلاش کررہے ہیں۔خواجہ محمد اکبرخان اکبرؔوارثی کے روح افزا اورناصحانہ نعتیہ کلام پرمیں اپنی بات ختم کرتا ہوں؎
ہر درد کی د وا ہے صل علیٰ محمد
تعویذ ہر بلا ہے صل علیٰ محمد
محبوب کبریا ہے صل علیٰ محمد
کیا نقش خوشنما ہے صل علیٰ محمد
قربِ خدا ہو حاصل جنت میں ہو وہ داخل
جس نے لکھا پڑھا ہے صل علیٰ محمد
جنت مقام ہوگا جنت حرام ہوگا
گر دل پہ لکھ لیا ہے صل علیٰ محمد
اس کی نجات ہوگی رحمت بھی ساتھ ہوگی
جو پڑھ کے مر گیا ہے صلِ علیٰ محمد
جو درد لا دوا ہو یہ گھول کر پلادو
کیا نسخہ شفا ہے صلِ علیٰ محمد
کاندھا بدلنے والو ہمراہ چلنے والو
پڑھتے چلو ردا ہے صلِ علیٰ محمد
جانے بھی دے ارم کو رضواں نہ روک ہم کو
سینے پہ لکھ رہا ہے صلِ علیٰ محمد
منزل کا ہے بھروسہ اکبرؔ بغل میں توشہ
کیا خوب لے چلا ہے صلِ علیٰ محمد
سید سیف الدین اصدق چشتی
بانی وسرپرست:تحریک پیغام اسلام جمشیدپور