Paigham-e-Islam

“تزکیہ نفس اور خانقاہی نظام”


“تزکیہ نفس اور خانقاہی نظام”

پس منظر و پیش منظر

تزکیہ کا لفظی معنی ہے پاک صاف کرنا،ستھرا کرنا،نشوونما دیناوغیرہ ،اسی سے لفظ زکوٰۃ نکلا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ ان ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مثلاً:

            سورۃاللیل میں ارشادالٰہی ہوا: الَّذِیۡ یُؤْتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی (آیت:۱۸)جو اپنا مال دیتا ہے کہ ستھرا ہو ۔سورۂ عبس میں فرمان باری تعالیٰ ہوا: وَ مَا یُدْرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی (آیت:۳) اور تمہیں کیا معلوم شاید وہ ستھرا ہو ۔سورۃ الاعلی میں ارشاد فرمایا گیا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (آیت:۱۴ )بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا۔سورۃالشمس میں اعلان عام کیا گیا: قَدْ اَفْلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا (آیت:۹)بے شک مراد کو پہنچا یا جس نے اسے ستھرا کیا۔

لہٰذا تزکیہ نفس سے مراد ہے کہ نفسِ انسانی میں موجود شر کے فطری غلبہ کو دور کرنا اور اسے گناہوں کی ان آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک کرنا جو کہ روحانی نشوونما میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ ان تمام بدی کی خواہشات پر غلبہ پا لینے کا عمل تزکیۂ نفس کہلاتا ہے۔

            اس کی مثال یوں ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی کیاری میں پودینہ بوئے پھر اس کے بعد وہاں غیر ضروری گھاس اگ آئے جو پودینہ کی نشوونما میں رکاوٹ بن رہی ہو تو اسے اکھاڑ کر پھینک دیاجاتا ہے تاکہ زمین کی ساری تخلیقی قوت اس گھاس پھونس پر صرف ہونے کی بجائے صرف پودینے کی نشونما پر صرف ہو۔ صفائی کے اس عمل کا نام تزکیہ ہے۔

اگر ہم سے سوال ہوکہ انبیاے کرام علیھم السلام کا اس  دنیا میں تشریف آوری کا حقیقی مقصد کیا ہے؟ تو ایک جملے میں اس کا صحیح جواب یہی ہوگا کہ “نفوس انسانی کا تزکیہ “۔ حضور اکرم ﷺ کی بعثت کے لیے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے جو دعا فرمائی،اس میں اصل وجہ یہی بیان فرمائی کہ آپ لوگوں کا تزکیہ کریں : رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیۡہِمْ رَسُوۡلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوۡا عَلَیۡہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیۡہِمْؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿سورہ البقرہ:۱۲۹﴾

            اے رب ہمارے اور بھیج ان میں  ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب  اور پختہ علم سکھائے  اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بیشک تو ہی غالب حکمت والاہے۔

            اس مبارک دعا کے مطابق جب حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت ہوئی تو اللہ جل شانہ نے اس بعثت پاک اور اس کے مقاصد کا حوالہ ان الفاظ میں دیا :کمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیۡکُمْ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمْ یَتْلُوۡا عَلَیۡکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیۡکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمْ تَکُوۡنُوۡا تَعْلَمُوۡنَ  ﴿سورۃ البقرہ:۱۵۱﴾ؕۛ

            جیسے کہ ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا  اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔

            اسی طرح سورۂ جمعہ  حضور علیہ السلام  کی تشریف آوری اور اس کے اغراض ومقاصد کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے بنی اسمٰعیل پر ان الفاظ میں احسان جتایا ہے: ھُوَالَّذِیۡ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوۡا عَلَیۡہِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾

            وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا  کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں  اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں  اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرورکُھلی گمراہی میں تھے۔

            ہوسکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ ان آیات کریمہ میں جہاں تزکیہ کا ذکر آیا ہے وہیں تلاوتِ آیات اور تعلیم کتاب وحکمت کا بھی ذکر آیا ہے تو پھر حضور ﷺ کی بعثت کا اصلی مقصد صرف تزکیہ ہی کو کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟

            تو اس کا جواب خود قرآن کریم کے اسلوب بیان نے ہی دے دیا ہے کہ “تلاوت آیات اور تعلیم کتاب وحکمت” جو مذکور ہوئی ہیں تو وہ اصلی مقصد کی حیثیت سے نہیں بلکہ اصلی مقصد کے وسائل وذرائع کی حیثیت سے بیان کی گئی ہیں ۔اس لیے کہ سورہ بقرہ کی مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں سے ایک آیت (آیت:۱۲۹) میں تزکیہ کا لفظ سب سے آخر میں آیا ہے اور دوسری آیت (آیت:۱۵۱) میں سب کے شروع میں آیا ہے ۔ایک غوروفکر کرنے والا شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایک ہی بات کے بیان کرنے میں اسلوب کا یہ ردوبدل کم از کم قرآن کریم بلاوجہ نہیں ہوسکتا ۔اب غور کیجیے کہ اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ اس تقدیم وتاخیر سے ہماری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والتسلیم کی تمام جدوجہد اور اس کی تمام سرگرمیوں کا محور ومقصود دراصل تزکیہ ہی ہے،کیونکہ اصل مقصد ہی کی یہ اہمیت ہوتی ہے کہ وہ شروع میں ایک کام کرنے والے کے پیش نظر ہوتا ہے اور آخر میں بھی۔ وہی اس کی تمام سرگرمیوں کا نقطۂ آغاز بھی ہوتا ہے اور وہی نقطۂ اختتام بھی۔وہیں سے وہ اپنا سفر شروع بھی کرتا ہے اور وہیں اس کو ختم بھی کرتا ہے۔

تزکیۂ  نفس کی ضرورت کیوں؟

تزکیہ نفس کی ضروت کو سمجھنے کے لیے پہلے فطرت انسان کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔انسان کا وجود جسم اور روح دونوں کا مرکب ہے جسم اور روح دونوں کے الگ الگ تقاضے ہیں اور یہ تقاضے ان کی فطری اور طبعی صلاحیتوں کے مطابق ہیں انسانی جسم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور مٹی میں پستی و گھٹیا پن، ضلالت، گمراہی، حیوانیت وبہیمیت، شیطانیت اور سرکشی جیسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں اسی لیے نفسِ انسانی فطری طور پر برائیوں کی طرف رغبت دلاتا رہتا ہے۔ گویا گناہوں کی آلودگیاں اور حق سے انحراف نفسِ انسانی کی فطرت میں شامل ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے : إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ.(سورہ یوسف: ۵۳) بے شک نفس تو برائیوں کا ہی حکم دیتا ہے۔اسی لیے کفار سے جنگ کوجہاد اصغراور نفس امارہ سے جنگ کو جہاد اکبر کہا گیا ہے۔صوفیہ فرماتے ہیں کہ  نفس سےجہاد اس لیےجہاداکبرہے کہ نفس بڑا کافر اور بڑا سرکش ہے کہ یہ ہمیشہ حربی کافر ہی رہتا ہے،کبھی ذمی نہیں بنتا ،ہرجگہ ہروقت ہمارے ساتھ رہتا ہے۔سب کو شیطان گمراہ کرتا ہے مگر شیطان کو نفس نے گمراہ کردیا۔حضرت ابراہیم ذوقؔ دہلوی خوب فرماتے ہیں  ؂

نہنگ      اژدھا   و  شیر    نر     مارا     تو     کیا      مارا

بڑے   موذی   کو   مرا    نفس   امارہ    کو   گر   مارا

گیا  شیطان  مارا   اک سجدہ کے نہ  کرنے   سے

ہزاروں     برس     سجدے    میں    سر    مارا   تو    کیا

            لیکن دوسری طرف اﷲتعالیٰ نے روح کی صورت میں انسان کے اندر ایک لطیف و نورانی ملکہ بھی ودیعت کر دیا ہے جس کے تقاضے بدی و نیکی کی تمیز، حق پرستی، صداقت و امانت اور نفس کی تہذیب و تطہیر سے پورے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : فَاَلْہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقْوٰىہَا (سورہ الشمس:۸) تو (اﷲتعالیٰ) نے نفس انسانی کے اندر برائی او ر اچھائی دونوں کا شعور ودیعت کردیا ہے۔ اور ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا : وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجْدَیۡنِ۔(البلد:۱۰) اور ہم نے (انسان کو نیکی اوربدی کے) دونوں راستے دکھا دییے ہیں۔

            گویا انسان کے اندر برائی اور اچھائی، بدی و نیکی، خیرو شر دونوں طرح کے میلانات ازل سے ودیعت کر دیئے گئے۔ان دونوں کے درمیان تضاد، تصادم اور ٹکراؤ کی کيفیت قائم رہتی ہے اور جب تک یہ کشمکش قائم رہے انسان کی زندگی عجیب قسم کے تضادات اور بگاڑ کا شکار رہتی ہے۔ اسی بگاڑ سے بے راہ روی، ظلم و استحصال، فسق و فجور جنم لیتے ہیں انسانی شخصیت اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے بے سکون و بے اطمینان رہتی ہے۔ اس  کشمکش سے نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے تزکیہ نفس۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى(النازعات:۴۰) اور نفس کو ہر بری خواہش سے روکتا ہے۔

            اس آیت کریمہ سے پتہ چلا کہ روح میں موجود خیرکے تقاضوں کو نفس کے برے اور شر کے تقاضوں پر غالب کرلینے سے یہ تصادم ختم ہوجاتا ہے۔ نیکی بدی پر غالب آجاتی ہے اور جب حیوانی، شہوانی، نفسانی قوتیں کمزور ہونے لگیں تو نتیجتاً روح اور اس میں پوشیدہ نیکی کی قوتیں نشونما پا کر طاقتور، اور مضبوط ہوجاتی ہیں اور انسان کی ساری قوتیں نیکی کے فروغ پر صرف ہونے لگتی ہیں۔

            پس جب کوئی برائی نفس انسانی میں فروغ نہ پاسکے، کوئی شے صراط مستقیم سے اس کو بہکانہ سکے اور مادی زندگی کی آلائشیں اس کو اس راہ حق سے ہٹا نہ سکیں تو ایک طرف اسے بارگاہ خداوندی میں ایسا سجدہ عبادت نصیب ہو جاتا ہے جس کی کيفیت”فَاِنۡ لَّمۡ تَکُنۡ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ”(صحیح بخاری ) کی مصداق ہے۔ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا بصورت دیگر خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔

            اور دوسری طرف اس کی شخصیت روحانی و اخلاقی کمال کی بلندیوں کو بھی پالے تو اس عمل کا نام تزکیہ نفس ہے جس کے حصول کے بغیر عبادت بے معنی و بے لذت ہے نیکی کے فروغ و تقویٰ اور معرفت ربانی کے لیے پہلا زینہ اور سب سے پہلا عمل تزکیہ نفس ہے۔

تزکیہ نفس کے انقلابی اثرات

        چنانچہ حضوراکرم ﷺ نے تزکیہ نفس اپنے ہر صحابی کی فرمائی ،خداخوفی کا درس ہر ایک صحابی کو دیا ،راستی وسچایٔ کا پارٹ ہر ایک کو پڑھایا،شرم وحیا کی شیرنی ہر ایک کو کھلائی ،ہمت وحوصلہ کا سبق ہر ایک کودیا۔یہی وجہ تھی کہ ان میں سے ہر ایک کسی  نہ کسی خاص وصف میں کامل بن کر ابھرا۔خود آقا علیہ السلام نے اپنے اصحاب میں سے مختلف صفات کے حاملین کی تعریف کرتے ہوۓ فرمایاکہ: میری امت میں سب سے رحم دل ابوبکر ہیں ۔اللہ کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں۔شرم وحیا میں سب سے زیادہ عثمان ہیں۔سب سے بڑے قاضی علی ہیں۔حلال وحرام کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے معاذ ابن جبل ہیں ۔علم فرائض میں سب سے بڑےعالم زید ابن ثابت ہیں ۔میری امت میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں ۔ہرایک امت کا امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ بن الجراح ہیں ۔زبیربن العوام کے لیے فرمایا:ہرنبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔بالکل اسی طرح ان پروانوں میں ایک غفاری پروانہ بھی تھا ۔جس پر غفاریوں کی خاندانی درندگی ،قومی غیض وغضب اور نسلی خوں ریزی کے پردے پڑے تھے،جوقبیلے کے لحاظ سے ایک لٹیرا تھالیکن اس لٹیرے کے جگرگوشے میں کہیں صالحیت کی ایک شمع بھی تھی جو آفتاب نبوت کے ساۓمیں آئی   تو زہدورشد کا نمونہ بن گئی اور ان کے قلب و نفس کا ایسا تزکیہ و تصفیہ ہواکہ زبانیں گواہی دینے لگیں : مَنۡ سَرَّہٗ اَن یَّنۡظُرَ اِلٰی زُھۡدِ عِیۡسیٰ بۡنِ مَرۡیَمَ فَلۡیَنۡظُرۡ اِلٰی اَبِیۡ ذَر۔ یعنی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زہدوتقویٰ کو دیکھ کر سرشار ہونا چاہتا ہے وہ ابوذر غفاری کو دیکھ لے۔(کتب سیرت صحابہ)

            غرض کہ آقاۓ رحمت ﷺنے اسی تزکیہ نفوس سے آدمی کو انسان بنایا،انسان کو مسلمان بنایا،مسلمان کو سلمان بنایا،سلمان کو فخرسلیمان بنایا،حبشی کو رشک انس وجاں بنایا،غلام کو امام بنایا،ذرہ کو آفتاب،قطرہ کو دریا،صدف کو گوہر،بے ذر کو بوذر اور مقتدی کو مقتدا بناکر اصحابی کالنجوم کا تمغہ عطا فرمایا         ؂     

ہیں آپ کے ہاتھوں  ہی سے  ترشے ہوۓ ہیرے

اسلام       کے      دامن      میں      یہ       تابندہ       نگینے

ہیں   مثل   ستاروں   کے   مری   بزم  کے  ساتھی

اصحاب      کے     بارے     میں    یہ     فرمایا     نبی   نے

            پھر جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی،نبی کریم ﷺ کے فیض یافتہ یکے بعد دیگرے رخصت ہوۓ، خداپرستی کی جگہ دنیا طلبی کا زور بڑھا،  بیت المال ذاتی ملکیت سمجھے جانے لگے،دروازوں پر دربان مقرر ہوگئے،حب جاہ نے  قوانین اسلامیہ کو بازیچۂ اطفال بنایا ،جسم سنورتے گئے اور روحیں زنگ آلودہ ہونے لگیں تو اسی تزکیہ نفوس کے پیغمبرانہ مشن کو آگے بڑھانے کے لیےحقیقی  وارثین انبیا نے باضابطہ اسے تصوف کا نام دے کر ادارے قائم کرنے شروع کیے جسے”خانقاہ” کہا جانے لگا۔ تزکیہ و اصلاح کا جو کام نبیٔ رحمت ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین مسجد نبوی میں کیا کرتے تھے ،تابعین و اکابرین  نےحالات زمانہ  کے متغیر ہوجانے کی بنا پر اب وہی کام خانقاہوں میں انجام دینا شروع کردیا۔

خانقاہ اور اس کے معانی ومقاصد:

            خانقاہ  فارسی زبان کا لفظ ہے۔غیاث اللغات میں اس کا معنی  لکھا ہے”جائے بودن درویشاں”یعنی درویشوں کے بیٹھنے کی جگہ، تو بس  جہاں چند اللہ والے درویش بیٹھ جائیں وہی خانقاہ ہے۔خانقاہ کو دائرہ اور زاویہ بھی کہا جاتا ہے۔حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : خانقاہ نشینوں کے فرائض میں داخل ہے کہ مخلوق سے (مکمل طور پر) قطع تعلق کر لیں اورحق کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لیں ۔(عوارف المعارف (

            خانقاہ درحقیقت درس گاہ صفہ کی طرح وہ تربیت گاہ ہے جہاں شیخ اپنے مرید کی اخلاقی اور روحانی تربیت کرتا ہے اور اس کا تعلق اللہ سے جوڑتا ہے۔خانقاہ میں مرشد کامل کی صحبت میں رہ کر حاصل کردہ تعلیم و تربیت عام انسان کو درویش بنا دیتی ہے۔جس طرح تعلیم کے لیے مدرسہ ضروری ہے،نماز کے لیے مسجد ضروری ہے،اسی طرح باطنی تربیت کے لیے خانقاہ ضروری ہے۔خانقاہی نظام کا مقصد اولین ہی اللہ ورسول کی محبت کو فروغ دینا اور بندگان خدا کو صراط مستقیم پر گامزن کرنا ہے۔صوفیہ کرام کی خانقاہیں ہمیشہ سے اللہ بندوں کی داد رسی ،تعلیم وتربیت اور ذکر وفکر کا وہ مرکز رہی ہیں جہاں سے کروڑوں تشنگانِ معرفت فیض یاب ہوئے اور لاکھوں گم گشتہ راہوں کو محبت الٰہی کی منزل کا سراغ ملا۔

اللہ کی مشیت پر راضی رہنا،دینی کاموں کو اخلاص سے کرنا،دنیا سے کم رغبتی پیدا کرنا ،حرص  وہوس سےبچنا،صبروتوکل اختیار کرنا،خودپسند نہ ہونا ،کسی کو حقیر نہ سمجھنا،غصے کو ضبط کرنا،اخلاق نبوی کو پیش نظر رکھنا،ظاہروباطن کی اصلاح اور تعلیم وتزکیہ کے فرائض نبوت کی انجام دہی ان خانقاہوں کا مقصد عظیم ہے۔کسی نے خوب کہا ہےکہ ” خانقاہ یُزَکِّیۡھِمۡ کا مظہر ہے۔خانقاہ وہ جگہ ہے جہاں “جاہ” کا ” جیم”اور “باہ” کی “باء”نکالی جاۓ اور خالص “آہ” رہ جاۓ ،کیونکہ آہ اور اللہ میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔

اک حرف  اک  طویل حکایت  سے  کم  نہیں

اک  بوند  ایک بحر  کی  وسعت  سے   کم   نہیں

نکلے  خلوص  دل   سے   جو    وقت   نیم   شب

اک  آہ  اک صدی  کی  عبادت  سے  کم  نہیں

جوصاحبان  خانقاہوں کو بدعت اور دورِ نبوت کے بعد کی کوئی چیز سمجھتے ہیں  انھیں سب سے پہلے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے دور کی  مسجد نبوی اور اس کے اغراض ومقاصد کا مطالعہ کرنا چاہیے۔جوعبادت گاہ بھی تھی اور درس گاہ بھی ،نوجوانان امت کے لیے یہ تعلیمی مرکز بھی تھا اور تربیت گاہ بھی،یہاں سلاطین زمانہ کے وفود بھی آتے تھے اور مقدمات کے حل کے لیےیہی   عدالت گاہ بھی ،  یہیں میدان جنگ کے نقشے بھی تیار ہوتے تھے اور یہی تزکیہ نفوس کے لیے  عظیم خانقاہ بھی تھی۔

 

تاریخ   گواہ ہے کہ  تزکیہ نفوس کے ان مراکز نے ایسی ایسی عظیم ہستیاں پیدا کیں کہ جنھوں  نےزندگی کے ہر شعبہ میں انقلاب برپا کیا۔زمانۂ تابعین سے ماضی قریب تک شاید چندفیصد بھی ایسے علما،فقہا،محدث ،مفسر،مبلغ ،مجاہد اور اسلامی دنیا پر  اپنےاثرات مرتب کرنے والی شخصیات نہیں پیش کی جاسکتیں جو کسی نہ کسی صوفیٔ وقت اور اہل خانقاہ کے فیض یافتہ نہ ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ اپنے زمانے کے عظیم ترین ہستیوں کی جبین نیاز ان کے حضور عقیدت سے خم رہی۔ حکیم الامت علامہ اقبال رحمہ اللہ جیسی عظیم علمی اور جہاں دیدہ شخصیت  ان خانقاہ نشینوں کی شان میں یوں ہی اس طرح  رطب اللسان نہ ہوئی کہ  ؂

                        جلاسکتی     شمعِ     کشتہ   کو  موجِ   نفس   ان   کی                    الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں

تمنا  درد  دل کی ہو تو  کر خدمت  فقیروں  کی                 نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں  میں

            مہرومحبت کے یہ پیکر ،امن وآشتی کے یہ  چلتے پھرتے مجسمے ،صلح ونرمی کے یہ جیتے جاگتے نمونے ،صبروتحمل کے یہ کوہ وقار،زہدوتقویٰ کے یہ عظیم شاہکار  اور عدل وانصاف کے یہ پیامبر  اس دنیا میں رہے تو اس شجر سایہ دار کی مانندجو اپنوں کو بھی سایہ فراہم کرتا ہےاور بیگانوں کو بھی ،جس کی چھاؤں میں دوست بھی بیٹھتے ہیں اور دشمن بھی۔بادنسیم کے خوش گوار جھونکوں کی مانند ان خلیق اور شفیق ہستیوں نے مخلوق کے دلوں اور ذہنوں پر حکومت کی۔یہ عقیدتوں اور محبتوں کے مرکزومحور ٹھہرے مگر افسوس جب دیکھا گیا کہ دل وجان سےلوگ ان پر فدا ہورہے ہیں تو کچھ لوگوں نے طلب دنیا کی خواہش میں روحانیت کا لبادہ اوڑھ کر پیری مریدی کا ایک کاروبار شروع کردیا۔

زوال خانقاہ ،زوال امت کا  اہم سبب

            آج زوال امت کے اسباب میں سب سے اہم سبب یہی ہے کہ”خانقاہ “جو تزکیہ نفس اورانسان سازی کے حقیقی ادارے تھے،تقریبا ہرشعبۂ زندگی سے وابستہ عوام الناس کی ڈور اہل خانقاہ کے ہاتھوں میں ہوا کرتی تھی، جب وہ جمود وتعطل کے شکار ہوئے تو پورا معاشرہ ہی تباہی کے دہلیز پر پہنچ گیا۔دوائے دل بیچنے والوں نے اپنی دوکانیں کیا  بڑھائیں کہ عقابوں کے  نشیمن میں زاغوں نے ڈیرے جمالیے۔ علم کی جگہ جہل،صبروشکر کی جگہ حرص وہوس،دین طلبی کی جگہ دنیا داری،عاجزی وانکساری کی جگہ خودنمائی وریاکاری،حسن اخلاق کی جگہ بداخلاقی ،فقیری کی جگہ شاہی اور تصفیہ وتزکیہ کی جگہ انانیت ونفسانیت نے لے لی تو اقبالؔ جیسے بزرگوں کے زبردست مداح بھی بے لاگ انداز میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ   ؂

رمز  و  ایما  اس  زمانے  کے  لیے  موزوں  نہیں

اور  آتا    بھی   نہیں   مجھ   کو    سخن   سازی   کا    فن

قم باذن اللہ  کہہ   سکتے  تھے  جو  رخصت    ہوئے

خانقاہوں    میں    مجاور    رہ     گئے    یا      گورکن

            یعنی وہ  صوفی   اورولی کامل  جو لوگوں کے مردہ قلوب کو ایمان کی روشنی سے زندہ کرتے تھے اب ناپید ہوچکےہیں۔ مزاروں کے ساتھ ملحقہ خانقاہوں میں صرف ایسے لوگ بیٹھے ہیں جویا تو اس لیے گدی نشین بن گئے کہ ان کے آباؤ اجداد میں سے کوئی ولی ٔ کامل کے اعلیٰ منصب پر فائز تھا اور انھیں وراثت میں بغیر محنت و مشقت کے مسند تلقین و ارشاد ہاتھ لگ گئی یاپھر انھوں نے کہیں سے خلافت حاصل کرلی اور گنڈا تعویز کے ساتھ بزرگوں کے مزاروں کی تجارت شروع کردی۔مزارات اور خانقاہوں پر سچے وارثین کے بجائے  نام نہادگدی نشینوں نےپورےمعا شرے کو روحانی طور پر اپاہج بنادیا کیونکہ سکون تو روحانیت میں ہے۔ روحانیت کے بغیر انسانیت اور اخلاقیات نابینا ہے۔لیکن جب روحانیت کے نام پر مادیت کا بازار گرم ہوجائے تو پھر  تباہی تو اور بھیانک آنی ہے۔اور خانقاہوں کے ساتھ پھر پوری امت کا جو حشر ہوا وہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔

             ناقص سجادہ نشینوں نے اپنا بھرم رکھنے،اپنے عیوب ڈھانپنے اورجاہلوں کو گرویدہ بنانے کے لیےعجیب وغریب طریقے اپنانے شروع کیے۔ انھوں نے فقر وتصوف اور خانقاہی ماحول کو اپنے مزاج ورنگ میں رنگ ڈالا۔تصوف میں  ایسی چیزیں شامل کردیں جن کا ان سے قطعی کوئی تعلق نہ تھا  مثلاًرنگ برنگے لباس، گلے میں موٹی مالائیں، ہاتھوں میں مختلف اقسام  کی انگوٹھیاں،غیرمحرم خواتین سے میل جول،فرائض وواجبات سے بے اعتنائی،شریعت سے لاتعلقی اورتصوف وطریقت کے نام پر صرف  جھوٹی اورمن گھڑت باتیں۔ان خرافات اور علم وشریعت سےدوری  نے نظام خانقاہیت کو بالکل کھوکھلا کرکے رکھ دیا۔ شاعر کی زبان میں  بس  یوں  کہہ لیں      ؂

ملبوس     خوش    نما      ہیں    مگر   جسم       کھوکھلے

چھلکے سجے ہوئے ہوئے ہیں پھلوں کی دوکان پر

            حالانکہ آج بھی جو خانقاہیں علم و عمل سے آراستہ اپنے بزرگوں کی روش پر چل رہی ہیں ان کے فیضان اور فوائدوثمرات کھلی نگاہوں سے دیکھے جاسکتے ہیں ،مگرجہاں ایسی خانقاہیں خال خال نظر آتی ہیں وہیں عبادت وریاضت،صبروتوکل ،ریاونمود سے دوراور صوفیانہ سادگی سے آراستہ  شخصیات وخانقاہیں ہماری توجہات کا مرکز نہیں بن پاتیں۔روحانیت سے دوری اورمادیت پرستی کی چکاچوند کی بنا پرعوام کی اکثریت نے بھی ان خانقاہوں کو ہی اصل سمجھ لیا ہے جہاں مال وزر کی ریل پیل ہے،کاروبنگلہ اورہٹوبچوکی صدائیں ہیں۔آج صرف ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی اپنے پروڈکٹProdect)) کی تشہیر(Advertisement)میں نہیں لگی ہیں بلکہ گوشۂ گمنامی میں فقروفاقہ کرکے مست الست رہنے والے  صوفیہ واولیا کے وارثین  بھی چوراہوں پر اسٹیج سجاکر اپنی اعلیٰ  نسبتوں کی مارکیٹنگ اورجنت فروشی کے عمل  میں روزوشب مصروف ہیں۔وہ علما جو سناٹےمیں دینی درد،انحطاط زمانہ اور زوال امت کا رونا روتے پھرتے ہیں ،یہاں وہ  بھی احساس مرعوبیت،  حظّ   نفس  اورقلیل ذاتی مفادکے لیے  پبلسٹی مینیجر ( Publicity manager) کا مکمل رول نبھاتے نظر آتے ہیں۔

            ان  ناقص مرشدین کی بے دھڑک تقسیم رسم خلافت نے بھی معاشرے کو بہت پراگندہ کیاحالانکہ اصل صوفیہ  اپنے روحانی وارثین کی تعلیم و تربیت ،عبادت وریاضت اورظاہری وباطنی  آزمائشوں کے بعد ہی یہ نعمت عطا کیا کرتے تھے۔  مثل مشہور ہے کہ سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے بالکل اسی طرح پیرِ کامل اپنے مرید کو خوب اچھی طرح پرکھ کر اسے باطنی پاکیزگی اور بلندی عطا فرماتے ہیں، پھر خلیفہ کا مرتبہ دیتے ہیں۔ مرشدان ِکامل کا مقصد اپنے خلفا کے ذریعہ اپنے حواریوں کی تعدادبڑھانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ایسی خا نقاہ کی بنیاد رکھنا ہوتا تھاجو اس نفس پرست دنیا میں لوگوں کی تربیت کر کے قربِ الٰہی کی منزل تک پہنچائے۔ لیکن یہاں بخشش خلافت کا مقصد تو حصول دنیااور اپنا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنا ہے، تو دنیا پرست مولویوں اورجاہلوں نے بھی اس خلافت کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھویا اور پورے معاشرے کو تباہی کے دھانے پر پہنچادیا۔اوروہ آستانے جہاں سے لاکھوں زندگیوں میں انقلاب بپا ہوا کرتے تھے ،جہاں پر تزکیے اور تصفیے کی منازل طے کرائی جاتی تھیں ،جہاں پر اتفاق واتحاد اور اخوت ویگانگت کا درس دیا جاتا تھا ،جہاں پر سیرت سازی کی جاتی تھی ان میں کےاکثر مسند نشیں فروعی مسائل میں الجھ کر رہ گئے ۔مریدوں کی تعداد بڑھانا ان کا مطمحٔ نظر بن گیا،نمودونمائش کی دوڑ،جاہ وحشم مین ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا خبط ،اونچی کرسی اور امتیازی نشست پر بیٹھنے کی بچکانہ خواہش ،خوشامد کا شوق اور خلق خدا کی کردار سازی اور تعلیم وتربیت سے کلیتاً دوری کے باعث انھوں نے روحانیت کے اس چشمۂ صافی کو مکمل گدلا کردیا۔

            یہی وجہ ہے کہ آج عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ پیروں اور اہل خانقاہ سے کنارہ کش ہوتا جارہا ہے اور موجودہ پیران ، سجادگان اور خانقاہ نشینان کو دیکھ دکھاکر مخالفین تصوف  اکابرین صوفیائے کرام  اور اولیاءاللہ کو ایسا ہی سمجھ رہے ہیں اورلوگوں کو سمجھا رہے ہیں۔

خانقاہی نظام کا احیا  وقت کی اہم ضرورت

            آج اس  بات کی بے حدضرورت ہے کہ پھر سے وہی اصل خانقاہی نظام کو زندہ کیا جائے ۔خانقاہوں سے وابستہ بڑے بزرگ،ذمہ دار علمی شخصیات ،حساس مزاج وطبیعت رکھنے والے پیران و سجادگان آگے آئیں،سب سے پہلے خانقاہوں کو منظوم ومربوط کریں اور پھراہل خانقاہ کو حکیمانہ ومخلصانہ انداز میں  دعوت احتساب دیں ۔اگر اہل خانقاہ اپنے اسلاف ومورثین کی زندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے: تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَصُوۡحاً (اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے)کے پیغام سے سراپا پیکرندامت بن جائیں۔

 قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا )کے چشمے سے اپنے نفوس دھوئے جائیں۔

 وَ ذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی(اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی) کے انوارسےدل منور کرلیں۔

وَجٰہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖؕ(اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ حق ہے جہاد کرنے کا)کی روشنی میں ریاضت ومجاہدہ کے لیے کمر کس لیں۔

 مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیۡبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیۡب (جو رحمٰن سے بے دیکھے ڈرتا ہے اور رجوع کرتا ہوا دل لایا )کو سامنے رکھ کر خشیت الٰہی اور رجوع الی اللہ کی کیفیت پیدا کریں۔

 قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ (اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللّٰہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللّٰہ تمہیں دوست رکھے گا )کے راز محبت سے دل میں عشق مصطفوی ﷺ کی جوت جگائیں۔

 وَمَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ۚ وَمَا نَہٰىکُمْ عَنْہُ فَانۡتَہُوۡا ( جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو  اور جس سے منع فرمائیں باز رہو)کےحکم پر سنت واطاعت مصطفےٰ ﷺکے آگےسرِ تسلیم خم  کریں۔

فَاذۡکُرُوۡنِی اَذۡکُرۡکُمۡ(تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا)کے مژدۂ جاں فزا سے  سرشار ہوں۔

وَمَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسۡبُہ (اور جو اللہ پر بھرسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے     )کے الوہی نغمات کو دل میں اتار کر خواہش دنیا دل سے نکال پھینکیں ۔

            اور فرمان باری تعالیٰ ہے:

          وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡھَہُ وَ لَا تَعْدُ عَیۡنَاکَ عَنْہُمْ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنۡ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا ﴿۲۸﴾

          (اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں  اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگار چاہو گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا)کو نصاب زندگی بنائیں تو ان شاء اللہ اہل خانقاہ کے پاس صرف”پدرم سلطان بود”کے نعرے نہیں ہوں گے اور  ؂

باپ کا علم بیٹے کو اگر نہ ازبر ہو                تو پھر پسر لائق میراث پدر کیوں کر ہو

کے طعنے نہ سننے پڑیں گے۔

            مذکورہ بالا آخری آیت کریمہ تصوف اور خانقاہی نظام کے حوالےسے انتہائی جامع ہے۔اس میں جہاں دنیا کی  حرص وہوس سے منھ موڑکر  اللہ رب العزت کے ذکروفکر میں مست رہنے  والوں کی صحبت ومعیت اختیار کرنے کا حکم  ہے،وہیں اس کی یاد سےغافل ،ہوس دنیا میں ڈوبے لوگوں کا حکم نہ ماننےاوران کی سنگت  وصحبت سے  دور رہنےکا واضح فرمان ربی بھی موجود ہے۔ ہمارے صوفیہ،اسلاف اور بزرگان دین  نے قرآن وسنت کو اپنا حرزجاں بنایا تو ان کی نگاہِ کیمیاگر نےلاکھوں کی تقدیریں بدل ڈالیں ،شاہانِ زمانہ ان کی چوکھٹ پر گدائی کرتے نظر آئے اور پوری امت نے ان کی روحانیت سے فیض پایا ۔کاش کہ آج پھر خانقاہوں کو ایک نئی زندگی مل جائے اور اہل خانقاہ اپنے اکابرین کے نقش کف ِ پا کو نمونہ بنالیں تو ہماری عظمتِ رفتہ  کےنقوش  اورکھوئے ہوئے سنہرے دن واپس مل سکتے ہیں ۔

آج  بھی  ہو  جو  براہیم  سا  ایماں  پیدا

آگ  کرسکتی  ہے  اندازِ  گلستاں  پیدا

 

سید سیف الدین اصدق چشتی

آستانہ چشتی چمن پیربیگھہ شریف نالندہ(بہار)

بانی وسربراہ:تحریک پیغام اسلام جمشیدپور